شمالی کیرولینا کی تین بچی کے سو سال پرانے گھر میں بھوتوں کی موجودگی کا معاملہ اختتام کو پہنچ گیا

کمرے کی دیوار میں 60 ہزار کے قریب شہد کی مکھیوں نے اپنا چھتہ بنا رکھا تھا ‘ وہ کسی ڈراﺅنی فلم کی طرح باہر نکلتی آئیں. تین سالہ سیلر

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 30 اپریل 2024 13:48

شمالی کیرولینا کی تین بچی کے سو سال پرانے گھر میں بھوتوں کی موجودگی ..
نیویارک(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔30 اپریل۔2024 ) امریکی ریاست شمالی کیرولینا کی رہائشی تین بچی سیلر کلاس کے سو سال پرانے گھر میں بھوتوں کی موجودگی کا معاملہ اپنے اختتام کو پہنچ گیا ہے سوشل میڈیا پر وائرل اس کہانی میں امریکی شہریوں کی جانب سے دلچسپی ظاہر کی جارہی تھی جب تین سالہ سیلر نے اپنے کمرے میں بلاﺅں کی موجودگی کی شکایت والدین سے کی تو ان کے والدین کو لگا کہ یہ ایک چھوٹے بچی کے تخیل کا کارنامہ ہے.

(جاری ہے)

سیلرکے ایک پڑوسی نے دیوار سے آنے والی آوازوں اور آلات کی مدد سے دیوار میں کسی چیزکی موجودگی کو ریکار ڈ کرکے سوشل میڈیا پر ڈال دیا سیلر نے اپنے والدین سے شکایت کی تھی کہ اس کے کمرے کی دیواروں میں بلائیں رہتی ہیں بچی کے والدین نے ابتدا میں اپنی بیٹی کی اس نوعیت کی شکایتوں پر کوئی دھیان نہیں دیا. سیلرکے والدین نے اپنی بیٹی کے خوف کو دور کرنے کی تدبیر بھی کی بچی کی والدہ، میسس کلاس، بتاتی ہیں کہ ہم نے اسے سادہ پانی کی ایک بوتل دی اور کہا کہ یہ بلائیں دور کرنے والا سپرے ہے اور وہ رات میں کبھی بھی بلاﺅں کو بھگانے کے لیے اسے اس پر چھڑک سکتی ہے.

مقامی جریدے کے مطابق اس سپرے نے سیلر کلاس کی شکایت دور نہیں کی اور اگلے چند ماہ کے دوران ان کی اس ضد میں اضافہ ہوتا گیا کہ ان کے کمرے کی الماری میں بھی کچھ ہے ان کی اس شکایت پر اس وقت پہلی مرتبہ غور کیا گیا جب بچی کی والدہ نے دیکھا کہ ان کے 100 سال پرانے گھر کی چمنی کے آس پاس سینکڑوں شہد کی مکھیاں گھومتی رہتی ہیں اس وقت ان کا خیال تھا کہ شاید بچی کو اپنے کمرے کی چھت پر ان مکھیوں کے بھنبھنانے کی آوازیں آتی ہیں جن کو وہ بلائیں سمجھتی ہیں تاہم بچی کے بار بار شکایت کرنے پر والدہ نے ایک کمپنی کو بلایا جو گھروں سے کیڑوں مکوڑوں کے خاتمے کی مہارت رکھتی تھی.

اس کمپنی نے والدین کو بتایا کہ گھر کی چمنی کے نزدیک اڑنے والی شہد کی مکھیاں اس خصوصی قسم سے تعلق رکھتی ہیں جن کو امریکہ میں ایک خصوصی درجہ حاصل ہے جس کے تحت ان کو عام کیڑے مکوڑوں کی طرح نہیں مارا نہیں جا سکتاتب بچی کے والدین نے شہد کی مکھیاں پالنے والے ایک شخص سے رابطہ کیا جنہوں نے گھر آ کر دیکھا اور آگاہ کیا یہ مکھیاں بچی کے کمرے کی چھت کے اوپر موجود سٹور کی جانب سفر کر رہی ہیں مزید تحقیق پر معلوم ہوا کہ گذشتہ آٹھ ماہ سے شہد کی یہ مکھیاں بچی کے کمرے کی دیوار میں اپنا چھتہ بنانے میں مصروف تھیں جب اس شخص نے سیلر کے کمرے کی دیواروں کے اندر دیکھنے کے لیے ایک تھرمل کیمرہ کی مدد لی تو میسس کلاس کے مطابق یہ سکینر کرسمس کی طرح روشن ہو گیا.

شہد کی مکھیاں پالنے والے شخص کا کہنا تھا کہ انہوں نے کبھی بھی کسی دیوار میں اتنی گہرائی تک شہد کی مکھیوں کا چھتہ جاتے ہوئے نہیں دیکھا اس دوران میسس کلاس کی بیٹی سیلر نے اس شخص کو بلائیں مارنے والا کے نام سے پکارنا شروع کر دیا تھا جب دیوار کو کھولا گیا تو وہاں اندر شہد کا بہت بڑا چھتہ نظر آیا اور بچی کے والدہ کے مطابق وہ کسی ڈراﺅنی فلم کی طرح باہر نکلتی آئیں.

رپورٹ کے مطابق دیوار سے 55 سے 60 ہزار کے قریب شہد کی مکھیاں جبکہ 45 کلو شہد نکالا گیا جس کے لیے ویکیوم کے ذریعے شہد کی مکھیوں کو نکال کر ڈبوں میں بند کیا گیا اور اب انھیں ایک محفوظ پناہ گاہ میں منتقل کیا جا رہا ہے میسس کلاس کو اس عمل کے دوران گھر میں شہد کی مکھیوں کو فرار ہونے سے روکنے کے لیے خصوصی طور پر بندوبست کرنا پڑا اور انھوں نے دیگر کمروں کو شیٹ لگا کر بند رکھا.

میسس کلاس کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی کو ڈرانے کے ساتھ ساتھ ان مکھیوں نے ان کے گھر میں بجلی کی تاروں کو بھی نقصان پہنچایا ان کے مطابق نقصانات کا تخمینہ 20 ہزار ڈالر سے زیادہ کا ہے اور ان کے لیے پریشان کن بات یہ ہے کہ انشورنس سے ان کو اس لیے کوئی مدد ملنے کا امکان نہیں کیوں کہ انشورنس میں یہ ایسا معاملہ سمجھا جاتا ہے جس سے بروقت بچا جا سکتا تھا.