امریکا کا سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فروخت اور سیکورٹی کا دو طرفہ معاہدہ اسرائیل کے تعلقات سے مشروط کرنے پرغور

اسرائیل اور حماس کی جنگ تینوں ملکوں کے درمیان معاہدے میں رکاوٹ بن رہی ہے .مبصرین‘ دونوں ممالک معاہدے کے انتہائی قریب پہنچ چکے ہیں انہوں نے کہا کہ ابھی کچھ تفصیلات ہیں جن پر کام جاری ہے .ترجمان امریکی محکمہ خارجہ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم پیر 13 مئی 2024 16:12

امریکا کا سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فروخت اور سیکورٹی کا دو طرفہ معاہدہ ..
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔13مئی۔2024 ) امریکا نے کہا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ سعودی عرب کے ساتھ ہتھیاروں کی فروخت اور سیکورٹی کے دو طرفہ معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے سعودی عرب اور اسرائیل کے تعلقات معمول پر آنے پر سہہ فریقی معاہدے پر غور کررہی ہے.

(جاری ہے)

امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ واضح تصویر سامنے آنے تک آگے نہیں بڑھا جاسکتا واشنگٹن میں عالمی امور کے مبصرین غزہ میں جاری اسرائیل اور حماس کی جنگ کو تینوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے معاہدے میں رکاوٹ قرار دے رہے ہیں مبصرین خطے میں چین کے اثر و نفوذ کو روکنے کے لیے جلد کسی دو طرفہ معاہدے تک پہنچنے پر زور دے رہے ہیں‘امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان معاہدے کے مندرجات سامنے نہیں آئے ہیں .

امریکی نشریاتی ادارے ”وائس آف امریکا“نے خلیج اور واشنگٹن ڈی سی میں سفارتی ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ اس معاہدے میں سعودی عرب کے دفاع کے لیے امریکہ کی ضمانت کے ساتھ ساتھ جدید امریکی ہتھیاروں تک سعودی عرب کی رسائی جیسے مطالبات شامل ہیں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ معاہدے میں سعودی عرب کے جوہری توانائی پروگرام کے لیے امریکہ کی حمایت شامل ہو سکتی ہے.

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس معاہدے کی صورت میں ریاض چین سے ہتھیاروں کی خریداری اور سعودی عرب میں ہونے والی سرمایہ کاری بھی روک دے گا امریکہ کے محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے تین مئی کو بریفنگ میں تصدیق کی تھی کہ دونوں ممالک معاہدے کے انتہائی قریب پہنچ چکے ہیں انہوں نے کہا کہ ابھی کچھ تفصیلات ہیں جن پر کام جاری ہے ہمیں امید ہے کہ ان تفصیلات پر جلد اتفاق ہو جائے گا البتہ انہوں نے یہ بھی تصدیق کی کہ اس معاہدے کے ایک حصے پر علیحدہ کام کرنے کی بھی ضرورت ہے اور یہ حصہ فلسطینی ریاست کے قیام کا راستہ ہے.

انہوں نے کہا کہ سعودی عرب واضح کر چکا ہے کہ اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کی دو شرائط ہیں جن میں ایک غزہ میں امن اور دوسری فلسطینی ریاست کے قیام کے واضح راستے کا تعین کرنا ہے بائیڈن انتظامیہ کے سعودی عرب کے ساتھ دوفریقی معاہدے پر آگے بڑھنے کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے تبادلہ خیال نہیں ہوا ہے انہوں نے بتایا کہ یہ بہت واضح ہے اور سعودی عرب کو بھی اس کا بالکل ادراک ہے کہ یہ ایک پیکج ڈیل ہے جس میں دو طرفہ امور شامل ہوں گے اور اس میں دو ریاستی حل کا راستہ متعین ہوگا.

کونسل آف فارن ریلیشنز سے وابستہ اسٹیون کوک نے امریکی جریدے ”فارن افیئر میگزین“میں اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ سہہ فریقی معاہدہ امریکہ کے مفاد میں نہیں ہوگا کیوں کہ پھر مستقبل میں واشنگٹن اور ریاض کے تعلقات کا دار و مدار سعودی عرب اور اسرائیل کے تعلقات پر ہوگا امریکہ کی یونیورسٹی آف اوکلاہوما کے سینٹر فار مڈل ایسٹ اسٹڈیز سے وابستہ جوشوا لینڈز نے بھی انہی خیالات کا اظہار کیا” وائس آف امریکہ“ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ اس معاہدے سے سعودی عرب میں چین کی سرمایہ کاری محدود ہوگی اور امریکہ اپنے سفارت اور سیکورٹی تعلقات کو یقینی بنا سکے گا انہوں نے کہا کہ اس معاہدے سے سعودی عرب کو امریکہ کے مزید جدید ہتھیاروں تک رسائی حاصل ہو رہی ہے البتہ سعودی عرب کو چین سے ہتھیاروں کی خریداری ترک کرنا ہوگی اور بیجنگ کی سرمایہ کاری کو محدود کرنا ہوگا.

قطر میں موجود انٹرنیشنل کرائسز گروپ سے وابستہ اینا جیکبز کہتی ہیں کہ دو طرفہ معاہدہ سعودی عرب کے لے زیادہ پر کشش ہے اس سے بائیڈن انتظامیہ کو زیادہ کچھ حاصل نہیں ہو سکتا کیوں کہ وہ ایک طویل عرصے سے فلسطینیوں اور اسرائیل میں تعلقات معمول پر لانے کے لیے کوشاں ہے جس سے اسرائیل اور سعودی عرب کے سفارتی تعلقات کے قیام کا معاہدہ ہو سکتا ہے. اینا جیکبز کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے لیے اسرائیل والا حصہ چھوڑ کر امریکہ سے دو طرفہ معاہدہ کرنا زیادہ معنی رکھتا ہے اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کے اقدام کو سعودی عرب اور اسلامی دنیا میں ہرگز پذیرائی حاصل نہیں ملے گی جو سعودی عرب کے لیے ایک بڑا سیاسی خطرہ ثابت ہو سکتا ہے.