اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 ستمبر 2024ء) رات کے وقت اکثر ٹی وی دیکھتے ہوئے میرا کچھ کھانے کا دل چاہتا تھا تو پہلے باورچی خانے جا کر سنیک تیار کر لیتی تھی مگر اب فون اٹھا کر اپنی پسند کا کھانا منگوا لیتی ہوں۔ لیکن کچھ عرصے سے محسوس ہو رہا ہے کہ ہمارے پاس کھانوں کے آپشنز محدود ہوتے جا رہے ہیں۔ جب بھی کھانا منگوانے کی ایپ کھولتی ہوں، سامنے فاسٹ فوڈ ریستورانوں کی بھرمار ہوتی ہے۔
دیسی انداز کا چائینیز بھی لوگوں کو پسند ہے تو ایسے ریستوران بھی نظر آ جاتے ہیں مگر پاکستانی ریستوران ذرا کوشش کر کے ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ ان کے پاس بھی چند مخصوص پکوانوں کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ بریانی، پلاؤ، قورمہ، حلیم اور بار بی کیو۔۔ یہ سب کتنی بار کھایا جا سکتا ہے۔(جاری ہے)
کیا ہمارے روایتی کھانے بس یہی رہ گئے ہیں؟
ہمارے گھروں کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔
کھانا پکانے والوں کا آدھا دن ”آج کیا پکائیں" کا جواب ڈھونڈتے ہوئے گزر جاتا ہے۔ پھر جو سمجھ آتا ہے چولہے پر چڑھا دیا جاتا ہے۔ ہر گھر کی گروسری میں پاستا، میکرونی، چیز اور ڈھیروں ساسز آتی ہیں۔ ہمارے روایتی مصالحے بھی اب اکثر گھروں میں نہیں ملتے۔ہمارے گھروں سے ہمارے کھانوں کے غائب ہونے کی ایک وجہ ان کی تیاری کا ایک لمبا چوڑا عمل بھی ہے۔
ہمارے پکوان کئی گھنٹوں کی محنت کے بعد تیار ہوتے ہیں۔ ہر پکوان دو سے تین مراحل میں پکتا ہے۔ کسی میں پیاز نہیں ڈلتی تو کسی میں ٹماٹر ، کسی میں سارے ثابت گرم مصالحے تو کسی میں کچھ خاص مصالحے ملائے جاتے ہیں۔ اس کا حل ہمیں مصالحہ مکس کی صورت میں ملا۔ بس تیل میں پیاز سرخ کرو، گوشت یا سبزی ڈال کر پکاؤ، مصالحہ مکس ڈالو، کچھ دیر بھونائی کرو پھر ہانڈی دم پر رکھ دو، کھانا تیار۔ان مصالحوں نے ہمارا کام تو آسان کر دیا لیکن ہم سے ہمارے روایتی کھانوں کا ذائقہ چھین لیا۔ دوسرا، ان مصالحوں نے ہر گھر کی ہانڈی کا ایک ذائقہ کر دیا ہے۔ جہاں جاؤ، وہی ذائقہ، وہی خوشبو۔ پچھلے دنوں ایک جگہ اروی کھائی، لیکن ایسا لگا جیسے قورمے کےمصالحے میں اروی پکائی گئی ہو، بالکل مزہ نہیں آیا۔ کچھ دن بعد اسی جگہ سے آلو گوشت کھانے کا اتفاق ہوا، وہی مصالحہ، وہی ذائقہ۔
آئندہ وہاں کھانا کھانے سے توبہ کر لی۔سبزیاں تو ایسے غائب ہیں جیسے وہ کبھی تھی ہی نہیں۔ گھروں میں سبزی پکے تو کوئی کھاتا نہیں ہے باہر جائیں تو سبزی ملتی نہیں۔ ملتی ہے تو ڈھیروں تیل میں قورمے کے مصالحے کے ساتھ پکی ہوئی۔ کچھ ریستورانوں کے مینیو پر پالک گوشت اور مکس سبزی مل جاتے ہیں۔ دال میں یا تو چنے کی دال ہوگی یا ماش کی یا حلیم۔
مکس دال، مونگ مسور کی دال، دال کی کھچڑی سب غائب ہو چکے ہیں۔دوسری طرف، ہمارے پڑوسی ملک بھارت نے سبزیوں اور دالوں کے ذریعے اپنے کھانوں کو عالمی سطح پر پہنچا دیا ہے۔ وہاں کھچڑی کو قومی پکوان کا درجہ حاصل ہے۔ بھارت کے ہر حصے میں الگ قسم کی کھچڑی ملتی ہے۔ میں کبھی بھارت نہیں گئی لیکن اتنا تو مجھے پتہ ہے اور اس کی وجہ بھارت کی اپنے کھانوں کے ذریعے نرم سفارت کاری کی کوششیں ہیں۔
بھارتی
سیاستدان، اداکار، کھلاڑی اور دیگر اہم شخصیات بین الاقوامی فورمز پر اپنے روایتی کھانوں کو فخر سے پیش کرتے ہیں۔ بھارتی شیف اپنے کھانوں کو جدید طریقوں سے پکا کر دنیا بھر میں مقبول کر رہے ہیں۔ مغربی ممالک میں بریانی، پلاؤ، کری، روٹی، نان، چائے، تکہ اور ایسے دیگر کئی کھانے بھارت سے منسوب کیے جاتے ہیں۔ ہماری وہاں موجودگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ کوئی ساگ اور مکئی کی روٹی کی بات بھی کرے تو اس کے ذہن میں فوراً بھارتی پنجاب آتا ہے۔ ہمارے پنجاب کیا، ملک کا نام بھی اس وقت ان کے ذہن میں نہیں ہوتا۔جب ہم خود اپنے کھانوں کو اہمیت نہیں دیں گے تو دوسروں سے اس کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟ ہمارے ہاں جگہ جگہ فاسٹ فوڈ ریستوران اور عجیب و غریب نام والے کیفے کھل چکے ہیں۔ ان کے مینیو ایسے ہوتے ہیں کہ بہت سے نام ہم سے پڑھے بھی نہیں جاتے، لیکن دنیا کے ساتھ چلنے کی فکر میں ہم ان کا کھانا ایسے کھاتے ہیں جیسے وہی کھا کر بڑے ہوئے ہوں۔
دوسری طرف اگر کبھی دیسی گھی میں تلا ہوا پراٹھا سامنے آ جائے تو اس کی خوشبو سے ہی ہمارے سر میں درد ہونے لگتا ہے۔ اس پراٹھے کی کبھی چُوری بن گئی تو شاید ہم اسے دیکھ کر بے ہوش ہی ہو جائیں گے۔دنیا
سے واقف ہونا اور ان کی ثقافت کے متعلق جاننا اچھا ہے لیکن ایسا کرتے ہوئے اپنی پہچان کھو دینا اچھی بات نہیں۔ ہمارے گھر، ریستوران اور ہم خود بھی اپنے روایتی پکوانوں سے ناواقف ہو چکے ہیں۔ ہمیں وہ آؤٹ ڈیٹڈ اور غیر صحت بخش لگتے ہیں۔ بجائے ہم ان میں کوئی جدت لاتے یا انہیں صحت بخش بناتے ہم نے انہیں اپنی زندگیوں سے ہی نکال دیا اور اپنی پہچان کا ایک بڑا حصہ کھو دیا۔اب وقت ہے کہ ہم اپنے کھانوں کی تاریخ کھوجیں اور انہیں اپنی زندگیوں میں واپس لائیں۔ کچھ دیر اور گزری توہمارے پاس ان کھانوں کے نام تک جاننے والے بھی باقی نہیں رہیں گے۔
اس سلسلے میں فوڈ فیسٹیولز کا انعقاد، روایتی کھانوں کی تشہیر اور عوامی آگاہی مہمات اس کام میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ کھانا نہ صرف جسمانی ضرورت ہے بلکہ ہماری ثقافتی شناخت کا بھی ایک اہم حصہ ہے۔ ہمیں اپنی اس پہچان کو دوبارہ سے دنیا کے سامنے لانا ہوگا، کیونکہ یہی ہماری پہچان ہے۔نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔