غیرقانونی سگریٹ سے حکومت کو سالانہ 300 ارب روپے کا نقصان

ہفتہ 22 فروری 2025 18:04

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 22 فروری2025ء)انسٹی ٹیوٹ فار پبلک اوپینین ریسرچ کے مطالعے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاکستان میں فروخت ہونے والے سگریٹ کے تقریباً 54 فیصد برانڈز غیر قانونی ہیں جس سے ٹیکسوں اور ڈیوٹیز کی مد میں سالانہ 300 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔میڈیا کے ساتھ شیئر کیے گئے مطالعے کے نتائج میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں سگریٹ کے تقریباً 413 برانڈز دستیاب ہیں اور صرف 19 ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کی مکمل، 13 جزوی طور پر تعمیل کرتے ہیں جبکہ 95 میں گرافک ہیلتھ وارننگ اور 286 میں ٹیکس اسٹیمپ اور جی ایچ ڈبلیو دونوں نہیں تھے۔

آئی پی او آر کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر طارق جنید نے روشنی ڈالی کہ یہ سروے 19 اضلاع میں ایک ہزار 520 ریٹیل آئوٹ لیٹس پر کیا گیا اور مطالعے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سگریٹ کی غیر قانونی تجارت کو روکنے کے لیے 2021 میں متعارف کرائے گئے ٹی ٹی ایس کی تعمیل انتہائی ناکافی ہے۔

(جاری ہے)

اگرچہ جی ایچ ڈبلیو کا لازمی نفاذ 2009 میں متعارف کرایا گیا تھا لیکن 16 سال گزرنے کے بعد بھی سگریٹ کے پیک بغیر کسی حکومتی نفاذ کے مطلوبہ واضح انتباہات کے بغیر فروخت ہو رہے ہیں۔

ان عدم تعمیل والے برانڈز میں سے 45 فیصد اسمگل کیے گئے جبکہ 55 فیصد مقامی طور پر تیار کیے گئے ڈیوٹی ادا نہ کرنے والے برانڈز تھے۔مطالعے میں سامنے آیا کہ 332 برانڈز قانونی کم از کم قیمت 162.25 روپے فی پیکٹ سے کم قیمت فروخت کیے جا رہے ہیں جن میں سے کچھ 40 روپے فی پیکٹ تک میں دستیاب ہیں۔ کم از کم قیمت کی اس بے تحاشہ خلاف ورزی کے نتیجے میں حکومت اہم محصولات سے محروم ہے۔

مطالعہ میں یہ بھی پایا گیا کہ شہری علاقوں کے مقابلے دیہی علاقوں میں عدم تعمیل زیادہ پائی جاتی ہے اور متعلقہ عمل درآمد اتھارٹی، فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو دیہی مارکیٹس میں نفاذ کی کوششوں کو ہدف بنانا ہے جہاں غیر قانونی مصنوعات زیادہ پائی جاتی ہیں۔آئی پی او آر نے حکومت سے نفاذ کی کوششوں کو مضبوط کرنے اور موجودہ جرمانے عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔تنظیم نے تمباکو کے مینوفیکچررز اور ریٹیلرز پر بھی زور دیا ہے کہ وہ تمام متعلقہ ضوابط کی تعمیل کو یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔

متعلقہ عنوان :