اینٹی مائیکروبیل ریزسٹنس کو کم کرنے کے لئے بہترین طریقوں اور تحقیقی نتائج کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے،ڈی جی ریسرچ محکمہ لائیو سٹاک پنجاب

جمعرات 17 اپریل 2025 15:14

فیصل آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 17 اپریل2025ء) زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کی فیکلٹی آف ویٹرنری سائنس کے زیر اہتمام ”اینٹی مائیکروبیل کے استعمال کو کم کرنے کیلئے اقدامات“ کے عنوان سے سٹیک ہولڈر ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا ۔ اس موقع پر ڈی جی ریسرچ محکمہ لائیو سٹاک پنجاب ڈاکٹر سجاد حسین نے کہا ہے کہ ہمیں اینٹی مائیکروبیل ریزسٹنس کو کم کرنے کے لئے بہترین طریقوں اور تحقیقی نتائج کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے اس مسئلے کے حل کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز کی جانب سے اجتماعی کوششوں پر زور دیا۔ انہوں نے اس حوالے سے فیکلٹی آف ویٹرنری سائنس زرعی یونیورسٹی میں جاری تحقیقات کو سراہا۔اس موقع پر وائس چانسلرپروفیسر ڈاکٹر ذوالفقار علی نے آن لائن خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انسانوں، جانوروں اور پودوں میں اینٹی مائیکروبیل کا زیادہ استعمال قابل تشویش ہے،اینٹی مائیکروبیل ریزسٹنس صحت عامہ اور ترقی کے لئے عالمی خطرہ بن چکا ہے ۔

(جاری ہے)

انٹرنیشنل سینٹر فار اینٹی مائیکروبیل ریزسٹنس سلوشنز کے ڈاکٹر روڈولفے میڈر نے کہا کہ وہ مداخلتی تحقیق کا استعمال کرتے ہوئے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے تمام کوششیں بروئے کار لا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ادارہ باہمی تعاون،پائیدار حل تیار کرنے کے لیے پوری دنیا کے ممالک کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔ پرو وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد سرور خاں نے کہا کہ جراثیم کش ادویات کا کثرت سے استعمال، صاف پانی تک رسائی کا فقدان،انسانوں اور جانوروں کے لیے حفظان صحت کی کمی اس مسئلے کو مزید سنگین بنا رہی ہے۔

ڈین فیکلٹی آف ویٹرنری سائنس پروفیسر ڈاکٹر شاہد محمود نے کہا کہ اینٹی بائیوٹک کی مزاحمت قدرتی طور پر وقت کے ساتھ ساتھ عام طور پر جینیاتی تبدیلیوں کے ذریعے ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ون ہیلتھ کے تحت انسانوں، جانوروں، پودوں اور ماحولیات میں مصروف متعدد شعبوں اور سٹیک ہولڈرز کو اکٹھا کرتا ہے۔ڈاکٹر مشکور محسن نے کہا کہ اینٹی بائیوٹکس تیزی سے غیر موثر ہوتی جا رہی ہیں کیونکہ ادویات کے خلاف مزاحمت عالمی سطح پر پھیل رہی ہے جس کی وجہ سے انفیکشن کا علاج مشکل ہو جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صفائی کی ناقص صورتحال ، اینٹی بائیوٹکس کا بڑھتا استعمال اور مانیٹرنگ کا مسئلہ اے ایم آر کے لیے ذمہ دار ہے۔