وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق کی زیر صدارت بزنس اینڈ ہیومن رائٹس سے متعلق بین الوزارتی و بین الصوبائی سٹیئرنگ کمیٹی کا پانچواں اجلاس

جمعرات 17 اپریل 2025 17:31

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 17 اپریل2025ء) وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق سینیٹر اعظم نذیر تارڑ کی زیر صدارت بزنس اینڈ ہیومن رائٹس کے قومی عملی منصوبے (این اے پی-بی ایچ آر) سے متعلق بین الوزارتی و بین الصوبائی سٹیئرنگ کمیٹی کا پانچواں اجلاس جمعرات کو یہاں وزارت انسانی حقوق میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں تمام صوبوں، متعلقہ وفاقی وزارتوں، محکموں اور دیگر کلیدی شراکت داروں کے نمائندگان نے شرکت کی۔

وزارت انسانی حقوق سے جاری پریس ریلیز کے مطابق اجلاس میں وزارت انسانی حقوق نے مختلف اہم نکات پر ہونے والی پیش رفت سے آگاہ کیا، جن میں اقوام متحدہ ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کے ساتھ مل کر انسانی حقوق سے متعلق جانچ پڑتال (ایچ آر ڈی ڈی) کا ضابطہ جاتی فریم ورک تیار کرنا اور سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے ساتھ تعاون کے ذریعے محنت کشوں کے حقوق کے تحفظ اور کارپوریٹ قیادت میں خواتین کی نمائندگی کو فروغ دینا شامل ہے۔

(جاری ہے)

مزید برآں ایچ آر ڈی ڈی چیک لسٹ چیمبرز آف کامرس کے ساتھ شیئر کی گئی تاکہ ان کی آراء حاصل کی جا سکیں اور ذمہ دار کاروباری رویے کو فروغ دیا جا سکے۔ اس کے علاوہ نیشنل ٹریننگ پروگرام کی تیاری جاری ہے تاکہ حکومتی و نجی اداروں میں این اے پی-بی ایچ آر سے متعلق آگاہی میں اضافہ کیا جا سکے۔ وزارت انسانی حقوق نے وزارت سمندر پار پاکستانی و افرادی قوت ترقی (او پی ایچ آر ڈی) کے ساتھ مل کر بین الاقوامی سطح پر صحت و سلامتی سے متعلق معاہدوں کی توثیق کے لیے ورکشاپس میں بھی شرکت کی۔

مزید یہ کہ این اے پی پر عملدرآمد کو موثر بنانے کے لیے صوبائی سٹیئرنگ کمیٹیوں، ضلعی ویجیلنس کمیٹیوں، اور فوکل پرسنز کی تقرری عمل میں لائی گئی ہے۔ صوبائی نمائندگان نے اپنے متعلقہ نکات پر پیش رفت سے بھی آگاہ کیا۔وفاقی وزیر سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کان کنوں کو درپیش تکلیف دہ حالات کا خاص طور پر نوٹس لیا، جہاں حالیہ المناک واقعات، جیسے دھماکوں اور کانوں کے انہدام کے نتیجے میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ یہ واقعات حفاظتی اقدامات میں شدید خامیوں اور کمزور نگرانی کی عکاسی کرتے ہیں، باوجود اس کے کہ کان کنی ایک باضابطہ اور تسلیم شدہ شعبہ ہے۔ انہوں نے اس امر پر تشویش ظاہر کی کہ کان کنی کے شعبے میں عملی طور پر غیر رسمی انداز اپنایا جا رہا ہے، جہاں حفاظتی اقدامات، حفاظتی ساز و سامان، تربیت، طبی سہولیات اور معاوضے تک رسائی ناکافی ہے۔

وفاقی وزیر نے پالیسی اور عمل درآمد کے درمیان فرق کو ختم کرنے کے لیے مربوط قومی ردعمل کی ضرورت پر زور دیا۔ اگرچہ مائنز ایکٹ 1923 اور دیگر مزدور قوانین کارکنوں کی حفاظت کے لیے موجود ہیں، لیکن ان پر عملدرآمد غیر مربوط اور کمزور ہے۔ انہوں نے قومی معیارات کو بالخصوص آئی ایل او کنونشن نمبر 176 (کان کنی میں صحت و سلامتی کے متعلق) کو مدنظر رکھتے ہوئے بین الاقوامی اصولوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

انھوں  نے معائنہ کے نظام، ہنگامی اقدامات اور آجر کی جواب دہی کو فوری طور پر بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ مزید برآں انہوں نے کارکنوں کو ان کے پیشہ ورانہ حقوق سے متعلق معلومات اور تربیت کی فراہمی پر زور دیا اور متاثرہ خاندانوں کو سماجی تحفظ، طبی سہولیات اور منصفانہ معاوضے کی فراہمی کے حکومتی عزم کو دہرایا۔وزیر انسانی حقوق نے تمام صوبائی حکومتوں پر زور دیا کہ وہ تجربات اور بہترین طریقہ کار سے استفادہ کرتے ہوئے ایک مربوط اور معیاری لیبر مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم (ایل ایم آئی ایس) تشکیل دیں تاکہ لیبر گورننس میں شفافیت، ہم آہنگی اور موثر رابطہ فروغ پا سکے۔

اجلاس کے اختتام پر شرکا نے کاروباری ماحول میں انسانی حقوق کے تحفظ، بین الادارہ جاتی تعاون کے فروغ اور این اے پی-بی ایچ آر کے وژن کو عملی، قابل پیمائش نتائج میں تبدیل کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ کمیٹی نے 2025–26 کے لیے این اے پی-بی ایچ آر کے نفاذی منصوبے کی منظوری دی جس میں مالی شفافیت اور انصاف تک رسائی پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔