افغانستان: خواتین پر طالبان کی سختیوں میں مزید اضافہ، یوناما

یو این جمعہ 2 مئی 2025 02:45

افغانستان: خواتین پر طالبان کی سختیوں میں مزید اضافہ، یوناما

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 02 مئی 2025ء) افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن (یوناما) نے 2025 کی پہلی سہ ماہی میں انسانی حقوق کی صورتحال پر اپنی ایک تازہ ترین جائزہ رپورٹ میں کہا ہے کہ طالبان حکمرانوں نے ملک میں خواتین کو عوامی زندگی سے غائب کرنے اور ان کی نقل و حرکت کی آزادی کو محدود کرنے کے احکامات پر عمل جاری رکھا۔

رپورٹ کے مطابق مشن کو یہ اطلاعات موصول ہوتی رہیں کہ افغان خواتین کو کام کے مواقع دینے سے مسلسل انکار کیا جا رہا ہے اور انہیں کسی مرد رشتہ دار کی موجودگی کے بغیر خدمات تک رسائی حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

اسی طرح انہیں حق تعلیم سے بھی محروم رکھا جا رہا ہے۔

Tweet URL

ملک میں انسانی حقوق پر نظر رکھنا بھی یوناما کے دائرہ کار میں شامل ہے اور اپنی رپورٹ میں اس نے سرعام کوڑے مارنے، سابقہ سرکاری اہلکاروں پر وحشیانہ تشدد اور اختلاف رائے کو کچلنے کے واقعات کا ذکر بھی کیا ہے۔

(جاری ہے)

بیوٹی سیلون بند

یوناما نے بتایا ہے کہ طالبان نے خواتین کے اپنے گھروں میں چلنے والے بیوٹی سیلون اور مختلف صوبوں میں خواتین کے ریڈیو سٹیشنوں کو بھی مبینہ طور پر بند کر دیا ہے۔

صوبہ قندھار میں طالبان کی نمائندگی کرنے والے اہلکاروں نے ایک بازار میں دکانداروں سے کہا کہ جو خواتین بغیر کسی سرپرست (محرم) کے نظر آئیں ان کی حکام کو اطلاع کریں اور انہیں اپنی دکانوں میں داخل نہ ہونے دیں۔

ایک ہسپتال میں حکام نے عملے کو حکم دیا ہے کہ وہ خواتین مریضوں کی دیکھ بھال نہ کریں۔

عقائد کی جبراً تبدیلی

طالبان حکام نے ذرائع ابلاغ پر جابرانہ پابندیوں کے ساتھ ساتھ جسمانی سزاؤں اور مذہبی آزادی پر قدغنوں میں بھی اضافہ کیا ہے۔

جنوری 17 اور فروری 3 کے درمیانی عرصہ میں ملک کے شمال مشرقی صوبہ بدخشاں میں اسماعیلی فرقہ سے تعلق رکھنے والے کم از کم 50 مردوں کو رات کے وقت ان کے گھروں سے اٹھا لیا گیا اور تشدد کے ذریعے انہیں سنی اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا گیا۔

سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران خواتین اور لڑکیوں سمیت 180 سے زائد افراد کو زنا اور ہم جنس پرستی کے جرم میں طالبان حکام کی موجودگی میں سرعام کوڑے مارے گئے ہیں۔

خواتین کے احترام کا دعویٰ

رپورٹ میں پیش کیے گئے دستاویزی ثبوتوں کہ افغانستان کے موجودہ حکمران بین الاقوامی اصولوں اور انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزی کر رہے ہیں طالبان حکام اس سے اتفاق نہیں کرتے۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے 8 مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ ’خواتین کے وقار، عزت اور شرعی بنیادوں پر حقوق کو یقینی بنانا امارت اسلامیہ کی اولین ترجیح ہے۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ افغان خواتین کو فراہم کیے گئے تمام بنیادی حقوق کو اسلامی شریعت کے ساتھ ساتھ افغان معاشرے کے ثقافتی اور روایتی فریم ورک کے مطابق یقینی بنانیا گیا ہے۔

وارنٹ گرفتاری

یوناما نے اپنی رپورٹ میں بین الاقوامی سطح پر خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کی بحالی کے لیے کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ اس سال جنوری میں بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) نے طالبان رہنما ہیبت اللہ اخوندزادہ اور چیف جسٹس عبدالحکیم حقان کے خلاف صنفی بنیادوں پر ظلم و ستم ڈھانے پر وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔ لیکن طالبان نے قومی خودمختاری اور مذہبی روایات کا حوالہ دیتے ہوئے اس عالمی عدالت کے اس اقدام کو مسترد کر دیا تھا۔