’مجرم ہمدردی کے قابل نہیں‘ نور مقدم قتل کیس میں ظاہر جعفر کی سزائے موت برقرار رکھنے کا تحریری فیصلہ جاری

فیصلہ 13 صفحات پر مشتمل ہے جس میں اہم قانونی نکات اور شواہد کا حوالہ دیتے ہوئے سزا کی توثیق کی گئی، سپریم کورٹ نے ویڈیو ثبوت قابل قبول قرار دے دیئے

Sajid Ali ساجد علی جمعرات 12 جون 2025 11:55

’مجرم ہمدردی کے قابل نہیں‘ نور مقدم قتل کیس میں ظاہر جعفر کی سزائے ..
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 12 جون 2025ء ) سپریم کورٹ نے نور مقدم قتل کیس میں مرکزی مجرم ظاہر جعفر کی سزائے موت برقرار رکھنے کا تفصیلی تحریری فیصلہ جاری کر دیا، جسٹس علی باقر نجفی نے اس فیصلے پر اضافی نوٹ تحریر کرنے کا عندیہ دے دیا۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کا تحریری فیصلہ 13 صفحات پر مشتمل ہے جس میں اہم قانونی نکات اور شواہد کا حوالہ دیتے ہوئے سزا کی توثیق کی گئی، تحریری فیصلے میں عدالت نے کہا کہ کہ بغیر عینی شاہد کے ویڈیو ثبوت قابل قبول ہیں اور مستند فوٹیج خود اپنے حق میں ثبوت بن سکتی ہے، بینک ڈکیتی کیس میں بھی بغیر گواہ ویڈیو فوٹیج کو قبول کیا جاتا ہے۔

سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ امریکی عدالتوں میں سائلنٹ وِٹنس کو تسلیم کیا گیا ہے، مجرم ظاہر جعفر نے نور مقدم کو بے رحمی سے قتل کیا مجرم کسی بھی ہمدردی کے قابل نہیں، اسی لیے عدالت نے قتل کے جرم میں سزائے موت برقرار رکھی اور زیادتی کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی، عدالت نے شریک ملزمان محمد افتخار اور محمد جان کی سزائیں بھی برقرار رکھی ہیں۔

(جاری ہے)

گزشتہ ماہ سپریم کورٹ نے نور مقدم قتل کیس میں ملزم ظاہر جعفر کی اپیل مسترد کرتے ہوئے سزائے موت برقرار رکھنے کا فیصلہ سنایا تھا، اس حوالے سے جسٹس ہاشم کاکڑ نے مختصر فیصلہ سنایا، سپریم کورٹ میں جسٹس ہاشم کاکڑ کی سربراہی میں جسٹس اشتیاق ابراہیم اور جسٹس علی باقر نجفی پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے نور مقدم قتل کیس میں ملزمان کی سزاؤں کے خلاف اپیلوں پر سماعت کی۔

بتایا جارہا ہے کہ دوران سماعت ظاہِر جعفر کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر عدالت میں پیش ہوئے، نور مقدم کے والد سابق سفارتکار شوکت مقدم کی جانب سے ایڈووکیٹ شاہ خاور نے عدالت میں کیس کی پیروی کی، ملزم ظاہر جعفر کے وکیل سلمان صفدر نے سماعت میں دلائل دیئے کہ ’پراسیکیوشن کا سارا کیس سی سی ٹی وی فوٹیج اور ڈی وی آر پر ہے، اپیل کنندہ کے خلاف شواہد کا شک و شبہ سے بالاتر ہونا ضروری ہے، عدالت بطور شواہد پیش فوٹیجز سے باہر نہیں جا سکتی، اسلام آباد ہائیکورٹ میں پراسیکیوشن کی فوٹیج چلائی گئی لیکن وہ چل نہ سکی، اسلام آباد ہائیکورٹ میں وکیل کی فراہم کردہ یو ایس بی سے ویڈیو چلائی گئی‘۔

وکیل سلمان صفدر کے دلائل مکمل ہونے کے بعد شریک ملزم چوکیدار اور مالی کے وکیل نے اپنے دلائل میں مؤقف اختیار کیا کہ ’دونوں ملزموں کو 10، 10 قید کی سزا سنائی گئی، ملزمان پر الزام ہے کہ انہوں نے مقتولہ کو جانے سے روکا‘، اس پر جسٹس باقر نجفی نے ریمارکس دیئے کہ ’اگر مجرمان مقتولہ کو نہ روکتے تو معاملہ کچھ اور ہوتا‘، جس پر ملزمان کے وکیل نے کہا کہ ’مالی اور چوکیدار کا گھر میں موجودگی کے علاوہ اور کوئی جرم نہیں‘، جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیئے کہ کہ ’تنخواہ سے زیادہ کام کرنے کی کیا ضرورت تھی‘۔