اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 جون 2025ء) فرینکفرٹ کی اعلیٰ علاقائی عدالت کے جج کرسٹوف کولر نے کہا کہ شام کی خانہ جنگی کے دوران 40 سالہ علاء موسیٰ نے جو جرائم کیے وہ اسد کی آمرانہ اور غیر منصفانہ حکومت کے ظالمانہ رد عمل کا حصہ تھے۔
موسیٰ پر 2011ء سے 2012ء کے درمیان دمشق اور حمص کے فوجی اسپتالوں میں 18 مواقع پر مریضوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کا الزام ہے۔
الزامات کے مطابق اس ڈاکٹر نے ایک نوعمر لڑکے کے جنسی اعضاء کو آگ لگا دی تھی اور ایک اور واقعے میں ایک قیدی کو مہلک انجکشن دیا تھا۔انسانیت کے خلاف جرائم کے ساتھ ساتھ عدالت نے موسٰی کو قتل، تشدد اور جنگی جرائم کا مجرم پایا۔ علاء موسیٰ نے مقدمے کارروائی کے دوران ان پر لگائے گئے الزامات سے انکار کیا۔
(جاری ہے)
جرمنی میں آمد اور گرفتاری
موسیٰ سال 2015ء میں انتہائی ہنر مند کارکنوں کے ویزے پر جرمنی پہنچے تھے۔
اس وقت لاکھوں شامی شہری خانہ جنگی سے فرار ہو رہے تھے۔ وہ جرمنی میں طب کی پریکٹس کرتے رہے اور جون 2020ء میں گرفتار ہونے تک آرتھوپیڈک ڈاکٹر کے طور پر کام کرتے رہے۔ان کے ایک سابق آجر نے جرمن میڈیا کو بتایا کہ وہ شام کے فوجی اسپتالوں میں موسیٰ کے ماضی کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے اور یہ کہ ان کے ساتھیوں نے ان کی کارکردگی کو'غیر معمولی‘ قرار دیا تھا۔
مقدمہ اور شہادتیں
استغاثہ کے مطابق موسیٰ حمص اور دمشق کے فوجی اسپتالوں میں کام کرتے تھے، جہاں حکومت کی جانب سے حراست میں لیے گئے سیاسی مخالفین کو علاج کے لیے لایا جاتا تھا۔
استغاثہ کے مطابق ایسے مریضوں کو طبی امداد فراہم کرنے کے بجائے، انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
ایک کیس میں موسیٰ پر الزام تھا کہ انہوں نے ایک قیدی کے زخموں پر آتش گیر مائع چھڑک کر آگ لگا دی اور اس کے چہرے پر اتنی زور سے لات ماری کہ اس کے تین دانت ٹوٹ گئے۔
اس نے مبینہ طور پر ایک نوعمر لڑکے کے جنسی اعضاء کو آگ لگانے سے پہلے شراب میں ڈبویا۔
جرمن ہفتہ وار اخبار ڈیر اشپیگل کے مطابق مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت نے ساتھیوں اور زیر حراست افراد کے بیانات سنے، جنہوں نے کہا کہ انہوں نے ملزم کو پہچان لیا۔
ڈیر اشپیگل کی رپورٹ کے مطابق ایک سابق قیدی نے بتایا کہ انہیں موسیٰ کے انجکشن کے بعد مرنے والے مریضوں کی لاشیں لے جانے پر مجبور کیا گیا تھا۔
ایک اور عینی شاہد کا کہنا تھا کہ دمشق میں جس فوجی اسپتال میں انہیں رکھا گیا تھا وہ 'مذبح خانے‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔
2022ء میں مقدمے کی سماعت کے آغاز پر موسیٰ نے عدالت کو بتایا تھا کہ ان کے سامنے مار پیٹ کی گئی، لیکن انہوں نے خود مریضوں کو تشدد کا نشانہ نہیں بنایا۔
تاہم ملزم کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ اسپتال میں فوجی پولیس کے کنٹرول سے اتنے خوفزدہ تھے کہ وہ اس کے خلاف بات نہیں کر سکتے تھے۔
انہوں نے کہا، ''مجھے ان پر افسوس ہوا، لیکن میں کچھ نہیں کہہ سکتا تھا، ورنہ مریض کے بجائے میں خود اس کا نشانہ بنتا۔‘‘
جرمنی نے بشار الاسد کی حکومت کے متعدد حامیوں کے خلاف ''عالمگیر دائرہ اختیار‘‘ کے قانونی اصول کے تحت مقدمہچلایا ہے، جس کے تحت سنگین جرائم پر مقدمہ چلایا جا سکتا ہے، چاہے وہ کسی دوسرے ملک میں ہی کیوں نہ کیے گئے ہوں۔
اسد حکومت کے دور حکومت کے دوران شام میں ریاستی سرپرستی میں تشدد پر پہلا عالمی مقدمہ 2020ء میں جرمنی کے مغربی شہر کوبلنز میں شروع ہوا تھا۔
مقدمے کے ملزم سابق فوجی کرنل کو انسانیت کے خلاف جرائم کا مجرم پایا گیا تھا اور 2022ء میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
ادارت: شکور رحیم