اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 جون 2025ء) پاکستانی ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ 2018ء کے بعد سے سرکاری سطح پر یونیورسٹیوں کی مالی معاونت میں کوئی نمایاں اضافہ نہیں کیا گیا، جس کے باعث متعدد ادارے شدید مالی بحران کا شکار ہو چکے ہیں۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کی خود انحصاری پالیسی نے صورت حال کو مزید مشکل بنا دیا ہے، کیونکہ اس کے تحت یونیورسٹیوں کو اپنی آمدن بڑھانے کے لیے فیسوں میں مسلسل اضافہ کرنا پڑا ہے، جس کا براہِ راست بوجھ طلبہ اور ان کے خاندانوں پر پڑا ہے۔
اس بڑھتے ہوئے مالی دباؤ نے نہ صرف داخلے کی شرح کو متاثر کیا ہے بلکہ ذہین مگر معاشی طور پر کمزور طلبہ کے لیے اعلیٰ تعلیم ایک دور کا خواب بن چکی ہے۔کاروباری اداروں میں تبدیل ہو چکی پاکستانی یونیورسٹیاں
کیا حکومت تعلیم کے شعبے کو بھی کنٹرول کرنا چاہتی ہے؟
صرف ایک وجہ نہیں
راولپنڈی کی فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی (ایف جے ڈبلیو یو) کی وائس چانسلر ڈاکٹر بشریٰ مرزا کے مطابق، ''طلبہ کے اندراج میں کمی کی کئی وجوہات ہیں، جن میں سب سے نمایاں مالی مشکلات، کم فیس والے کالج ڈگری پروگراموں کی بڑھتی ہوئی دستیابی، اور ایسے طلبہ کی بڑھتی ہوئی تعداد ہے جو گھریلو مالی بوجھ کم کرنے کے لیے تعلیم کی بجائے ملازمت کو ترجیح دے رہے ہیں۔
(جاری ہے)
اسی حوالے سے، قائداعظم یونیورسٹی کے اسکول آف پولیٹکس اینڈ انٹرنیشنل ریلیشنز کے سربراہ ڈاکٹر محمد ندیم مرزا نے بتایا کہ ایک وقت تھا جب ان کے بی ایس پروگرام کے لیے چھ ہزار درخواستیں موصول ہوتی تھیں، لیکن حالیہ برسوں میں یہ تعداد نصف ہو چکی ہے۔ ان کے مطابق، ''داخلہ لینے والے بہت سے طلبہ مالی وسائل کی کمی کے باعث تعلیم جاری نہیں رکھ پاتے۔
‘‘ایچ ای سی کا مؤقف
دوسری جانب، ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اگرچہ بعض جامعات میں معمولی کمی دیکھی گئی ہے، لیکن مجموعی طور پر ملک میں اعلیٰ تعلیم تک رسائی میں بہتری آئی ہے۔ ان کے مطابق، ''2010ء میں 2.1 فیصد طلبہ اعلیٰ تعلیم تک رسائی رکھتے تھے جو اب بڑھ کر 13 فیصد ہو گئی ہے، اور امید ہے کہ آئندہ برسوں میں یہ شرح مزید بڑھے گی۔
‘‘تعلیم یا بقا، ایک کٹھن انتخاب
ڈاکٹر ندیم مرزا کے مطابق، داخلوں میں کمی کی سب سے بڑی وجہ متوسط طبقے کی معاشی زبوں حالی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ طبقہ ریاست کی ریڑھ کی ہڈی ہوتا ہے لیکن گزشتہ چند برسوں میں اسے مہنگائی، بھاری ٹیکسوں، بڑھتے یوٹیلیٹی بلوں اور آمدنی میں جمود جیسے مسائل کا سامنا ہے: ''اس صورتحال میں سرکاری جامعات کی جانب سے فیسوں میں اضافے نے تعلیم کو مزید ناقابلِ رسائی بنا دیا ہے، اور اب طلبہ تعلیم اور بقا کے درمیان مشکل انتخاب میں مبتلا ہیں۔
‘‘ویمن یونیورسٹی مردان کی وائس چانسلر پروفیسر رضیہ سلطانہ نے بھی اسی تناظر میں گہری تشویش کا اظہار کیا۔ ان کے مطابق، ''ملک میں غربت ایک مسلسل چیلنج بنی ہوئی ہے اور میٹرک و ثانوی سطح پر تعلیمی نظام پہلے ہی مطلوبہ معیار پر پورا نہیں اترتا۔ شرح خواندگی اب بھی 60 فیصد کے آس پاس ہے، جو جنوبی ایشیا میں سب سے کم مانی جاتی ہے۔
‘‘سرکاری جامعات کا مقصد کہیں کھو گیا
ماہرین تعلیم نے خبردار کیا ہے کہ موجودہ حکومتی پالیسیوں نے سرکاری جامعات کو خودکفالت کے دباؤ میں دھکیل دیا ہے، حالانکہ ان اداروں کا بنیادی مقصد سستی اور معیاری تعلیم کی فراہمی تھا۔ قائداعظم یونیورسٹی کی مثال دیتے ہوئے، ڈاکٹر ندیم مرزا نے بتایا، ''مالی بحران کی شدت کا یہ عالم ہے کہ 2023ء کی بہار سے لیکر اب تک بیرونی اساتذہ کو تنخواہیں ادا نہیں کی گئیں، جب کہ لیبارٹریز میں تحقیقاتی مواد اور کیمیکلز کی خریداری کے لیے بھی فنڈز دستیاب نہیں۔
‘‘پروفیسر رضیہ سلطانہ کے مطابق، ''کم فنڈنگ کے باعث سرکاری جامعات کا تعلیمی معیار گرتا جا رہا ہے، طلبہ کا اعتماد متزلزل ہو چکا ہے، اور داخلے کی شرح میں واضح کمی آ رہی ہے۔‘‘
ایچ ای سی کے ترجمان نے بھی سرکاری یونیورسٹیوں کو درپیش مالی بحران کی تصدیق کی۔ ان کے مطابق، ''مالی سال 2017-18 سے لے کر اب تک ایچ ای سی کا سالانہ بجٹ تقریباً 65 ارب روپے پر جمود کا شکار ہے، جب کہ اسی عرصے میں صرف تنخواہوں کے اخراجات میں 140 فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے۔
‘‘ریاستی ترجیحات کا سوال
آل پبلک یونیورسٹیز بی پی ایس ٹیچرز ایسوسی ایشن کے انفارمیشن سیکرٹری، ڈاکٹر منظور احمد نے کہا کہ جہاں ایک جانب دفاعی اخراجات اور احساس پروگرام کا بجٹ مسلسل بڑھ رہا ہے، وہیں جامعات کے لیے فنڈز میں کوئی خاص اضافہ نہیں کیا گیا: ''حکومت فیسوں میں اضافہ چاہتی ہے، مگر زیادہ تر خاندان یہ بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں رہے، جس سے اعلیٰ تعلیم مزید محدود ہو گئی ہے۔
‘‘تحقیقی سرگرمیاں خطرے میں
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ تحقیقی شعبے میں سرمایہ کاری نہ ہونے سے ملکی معیشت اور پالیسی سازی کو سنگین نتائج بھگتنا پڑ سکتے ہیں۔ راولپنڈی کی فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی کی وائس چانسلر ڈاکٹر بشریٰ مرزا کے مطابق، ''اگر ہم نے اپنی لیبارٹریوں اور تحقیقی انفراسٹرکچر کو نظر انداز کیا، تو اس کے اثرات معیشت کے ہر شعبے پر مرتب ہوں گے۔‘‘
ڈاکٹر منظور احمد نے بڑھتی مہنگائی کو تعلیم کی راہ میں سب سے بڑا رکاوٹ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کوئی بھی ہو، عام شہری کی آمدنی میں بہتری نہیں آ رہی، جب کہ اخراجات روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں۔