بھارت کے نائب صدر جگدیپ دھنکھر نے اچانک استعفیٰ کیوں دیا؟

DW ڈی ڈبلیو منگل 22 جولائی 2025 14:20

بھارت کے نائب صدر جگدیپ دھنکھر نے اچانک استعفیٰ کیوں دیا؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 جولائی 2025ء) بھارت کا نائب صدر بر بنائے عہدہ پارلیمان کے ایوان بالا، راجیہ سبھا، کا چیئرمین بھی ہوت‍ا ہے۔ پیر کو پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس کا پہلا دن تھا۔ دھنکھر دن بھر راجیہ سبھا کے کام میں مصروف رہے۔ شام تقریباً چار بجے نائب صدر کے دفتر نے مطلع کیا کہ دھنکھر 23 جولائی کو جے پور آئیں گے، پھر جب ان کے اچانک استعفیٰ دینے کی خبر آئی تو ہر کسی کے ذہن میں پہلا سوال یہ پیدا ہوا کہ انہوں نے یہ فیصلہ کیوں لیا؟

صدر دروپدی مرمو کو بھیجے گئے اپنے استعفی نامے میں دھنکھر نے کہا کہ وہ اپنی صحت کو ترجیح دینا چاہتے ہیں اور ڈاکٹروں کے مشورے پر عمل کرنا چاہتے ہیں۔

وہ صحت کی وجوہات کی بنا پر استعفی دے رہے ہیں۔ انہوں نے فوری طور پر استعفیٰ منظور کرنے کی درخواست کی۔

(جاری ہے)

نائب صدر کے عہدے پر رہتے ہوئے کسی رکن پارلیمان کا استعفیٰ دینے کا حالانکہ یہ کوئی پہلا معاملہ نہیں۔

اس سے قبل وی وی گری اور آر وینکٹ رمن نے نائب صدر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ تاہم انہوں نے صدارتی انتخاب لڑنے کے لیے استعفیٰ دیا تھا اور دونوں بھارت کے صدر بن گئے۔

دھنکھر کے پاس ایسا موقع نہیں ہے، کیونکہ موجودہ صدر دروپدی مرمو کی میعاد 22 جولائی 2027 تک ہے۔

کئی سوالات اٹھ رہے ہیں

دھنکھر کے اس فیصلے پر اپوزیشن کے اراکین پارلیمنٹ اور سیاست دانوں نے کئی سوال اٹھائے ہیں۔ اپوزیشن یہ ماننے کو تیار نہیں ہے کہ دھنکھر نے صحت کی وجہ سے استعفیٰ دیا ہے۔ انہوں نے بہت سے امکانات کا حوالہ دیا ہے۔

راجیہ سبھا ایم پی اور کانگریس لیڈر جے رام رمیش نے ٹویٹ کیا، ''اس میں کوئی شک نہیں کہ دھنکھر کو اپنی صحت کو انتہائی اہمیت دینی چاہیے۔ لیکن ان کے غیر متوقع استعفیٰ کے پیچھے بہت سی چیزیں ہیں جو کھلی آنکھوں سے نظر نہیں آتی ہیں۔‘‘

کانگریسی رہنما نے مزید کہا، ''دھنکھر کا استعفیٰ دینے کا فیصلہ کسی بھی وضاحت سے زیادہ چونکا دینے والا ہے۔

میں شام 5 بجے تک راجیہ سبھا میں ان کے چیمبر میں تھا۔ میں شام 7:30 بجے ان کے ساتھ تھا۔ میں نے ان سے فون پر بات کی تھی۔ انہوں نے منگل کو دوپہر ایک بجے بزنس ایڈوائزری کمیٹی کی میٹنگ بھی بلائی تھی۔ انہوں نے منگل کو کچھ اعلانات بھی کرنے تھے۔‘‘

جے رام رمیش نے کہا، ''ہم ان کی اچھی صحت کی خواہش کرتے ہیں اور ان سے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کی درخواست کرتے ہیں۔

مجھے امید ہے کہ وزیر اعظم ان کا فیصلہ بدلنے کے لیے پہل کریں گے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ملک کی کسان برادری کو راحت ملے گی۔‘‘

کانگریس کے ایک اور لیڈر اتول لوندھے نے کہا، ''مجھے نہیں لگتا کہ دھنکھر بغیر کسی وجہ کے یہ فیصلہ لیں گے۔ کچھ گڑبڑ ہے۔‘‘ اگر انہیں صحت کی وجہ سے استعفیٰ دینا پڑا تو وہ سیشن شروع ہونے سے پہلے ہی ایسا کر سکتے تھے۔

سابق وزیر اور راجیہ سبھا کے رکن کپل سبل نے کہا کہ وہ دھنکھر کو 40 سال سے جانتے ہیں۔ وہ قیاس آرائی نہیں کریں گے، اور یہ کہہ سکتے کہ دھنکھر ایک بہت ہی فعال نائب صدر ہیں۔

ادھو ٹھاکرے کی شیوسینا کے رہنما آنند دوبے نے کہا، ''پیر کو پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس کا پہلا دن تھا۔ دھنکھر سیشن شروع ہونے سے پہلے یا سیشن ختم ہونے کے بعد استعفیٰ دے سکتے تھے۔

انہوں نے پیر کو اچانک استعفیٰ کیوں دیا؟‘‘

کچھ دن پہلے دھنکھر دل کی تکلیف کے لیے دہلی کے معروف ہسپتال ایمس میں زیر علاج تھے۔ لیکن حال ہی میں ایک تقریب میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ 2027 میں اپنی مدت ملازمت ختم ہونے کے بعد ہی ریٹائر ہوں گے، تو کیا اس دوران کچھ ایسا ہوا جس نے انہیں عجلت میں استعفیٰ دینے پر مجبور کردیا؟

قیاس آرائیاں

پیر کی رات سے دہلی کی سیاست میں اس بات پر کافی بحث ہو رہی ہے کہ دھنکھر نے استعفیٰ کیوں دیا۔

سینئر صحافی گلشن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ایک بحث یہ تھی کہ پیر کو کانگریس کے صدر اور رکن پارلیمان ملکارجن کھرگے کی راجیہ سبھا کے بی جے پی رکن جے پی نڈا کے ساتھ گرما گرم بحث ہوئی۔ ایک موقع پر نڈا نے کہا کہ 'صرف ان کی بات ریکارڈ کی جائے گی، اور کوئی کچھ نہیں کہے گا‘۔ دھنکھر اس بات کو قبول نہیں کر سکے۔ اس لیے قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ انھوں نے استعفیٰ دے دیا ہے۔

ترنمول کے ایک رکن پارلیمنٹ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ دھنکھر سے استعفیٰ دینے کو کہا گیا تھا۔

ایک اور سینئر صحافی سنیل چاؤکے نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ دھنکھر کے استعفیٰ کا وقت بہت اہم ہے۔ انہوں نے یہ فیصلہ پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس کے پہلے دن لیا۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کے اس اجلاس میں اپوزیشن پہلگام، ٹرمپ اور بہار میں ووٹر لسٹ کی متنازعہ نظرثانی سمیت کئی مسائل پر سوال اٹھائے گی۔ دریں اثنا، دھنکھر کے اعلان نے حکومت کو دباؤ میں ڈال دیا ہے۔

صحافی شرد گپتا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ راجیہ سبھا کے ڈپٹی چیئرمین ہری ونش نارائن سنگھ کی مدت بھی ختم ہو رہی ہے۔ اور ان کے بارے میں بھی قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں۔

ادارت: صلاح الدین زین