فرحان غنی کو کس قانون کے تحت رہا کیا گیا عدالت نے ریکارڈ طلب کرلیا

پیر 22 ستمبر 2025 18:10

فرحان غنی کو کس قانون کے تحت رہا کیا گیا عدالت نے ریکارڈ طلب کرلیا
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 22 ستمبر2025ء) انسداد دہشت گردی عدالت نے ٹاؤن چیئرمین چنیسر کے خلاف سرکاری ملازمین پر تشدد کے کیس میں استفسار کیا کہ فرحان غنی کو کس سیکشن کے تحت رہا کیا گیا ریکارڈ عدالت میں پیش کیا جائے۔سرکاری ملازم پر تشدد کے کیس میں فرحان غنی سمیت دیگر ملزمان اور وکلا عدالت میں پیش ہوئے جس دوران عدالت نے استفسار کیا کتنے گواہان کے بیانات ریکارڈ کیے گئے اور کب کیے گئی تفتیشی افسر نے عدالت کو آگاہ کیا کہ 24 اگست کو دو گواہان کے بیانات ریکارڈ کیے گئے، جس پر عدالت نے ریمارکس دیے گواہان کے بیانات کے مطابق سرکاری کام بند کروایا گیا۔

وکیل صفائی نے درمیان میں بولنے کی کوشش کی جس پر عدالت نے کہا صبر کا دامن تھام کر رکھیں، آپ کو موقع دیا جائے گا۔

(جاری ہے)

عدالت نے استفسار کیا کیا دوران تفتیش ملزم کو رہا کرنے کا اطلاق دہشت گردی کے کیس میں ہوتا ہی ملزمان کو جس سیکشن کے تحت ضمانت پررہا کیا گیا اور درخواست عدالت میں جمع کروائی گئی، وہ کہاں ہی فاضل جج نے کہا مدعی کے وکیل وہ قانون عدالت میں پیش کریں، آپ کو چاہیے تھا کہ اگر کام چل رہا تھا تو پہلے نوٹس دیتے۔

وکیل صفائی نے کہا اگر کوئی روڈ، گلیاں اور فٹ پاتھ کو نقصان پہنچا رہا ہے تو اس کو روکیں گے، ملزم گرفتار تھا تو نوٹس کیسے جاری کرتا، اگر عدالت چاہے تو دہشت گردی کی دفعات منظور کرے یا پھر کارروائی کرے، جس پر عدالت نے ریمارکس دیے آپ جذباتی ہورہے ہیں، آپ نے کس سیکشن کے تحت ریمانڈ دیا، میں بھی کچھ سیکھنا چاہتا ہوں، ہم نے قانون کے مطابق ریمانڈ دیا، یہ رہا قانون۔

وکیل صفائی نے عدالت میں کہا کہ زیر دفعہ 497 کے تحت اگر درخواست منظور نہیں ہوتی تو دہشت گردی کی دفعات ختم کر دیں، جس پر عدالت کا کہنا تھا آپ مدعی کا 164 کا بیان ریکارڈ کروائیں اور لے آئیں، جس پر وکیل صفائی نے کہا سر کیا یہ کوئی بہت اہم کیس ہے جو اتنی باریکیاں دیکھی جارہی ہیں۔سرکاری وکیل نے کہا کہ کیس کی شفاف تحقیقات کی گئی ہیں، سرکاری کام چل رہا تھا لیکن کوئی دہشت گردی نہیں ہوئی ہے، اس کیس میں انسداد دہشت گردی کا خصوصی قانون لاگو نہیں ہو گا، یہ اے ٹی سی کا کیس نہیں بنتا، ہم درخواست دے دیتے ہیں۔

عدالت نے تفتیشی افسر سے پوچھا اب تک کتنے بیانات ریکارڈ ہوئی جس پر تفتیشی افسر کا کہنا تھا دو گواہان کے بیان لیے گئے پھر مصالحت ہوگئی۔ عدالت نے کہا انسداد دہشت گردی قانون میں مصالحت کی گنجائش ہی نہیں ہے، مدعی کا بیان کس قانون کے تحت ریکارڈ کیا گیا۔عدالت نے تفتیشی افسر پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا آپ نے قانون پڑھا ہے یا نہیں جس پر تفتیشی افسر کا کہنا تھا میں مدعی مقدمہ کا بیان نہیں دیکھتا، میں شواہد کی بات کررہا ہوں۔

فاضل جج نے کہا ہم آئندہ سماعت پر مدعی مقدمہ کو طلب کرلیتے ہیں، جس پر مدعی کے وکیل نے کہا کہ ان کے مؤکل کا تعلق حساس ادارے سے ہے، مدعی کے بجائے گواہان کو عدالت میں پیش کردیتے ہیں۔عدالت نے مقدمے کی مزید سماعت 30 ستمبر تک ملتوی کرتے ہوئے گواہان کو طلب کرلیا۔