مراکش میں 'جین زیڈ‘ کے مظاہروں کے دوران گرفتاریاں

DW ڈی ڈبلیو منگل 30 ستمبر 2025 13:20

مراکش میں 'جین زیڈ‘ کے مظاہروں کے دوران گرفتاریاں

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 30 ستمبر 2025ء) مقامی حقوق کے گروپ اور خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق مراکش میں پیر کے روز پولیس نے اس وقت درجنوں افراد کو حراست میں لے لیا، جب وہ تعلیم اور صحت میں اصلاحات کے مطالبے کے لیے مظاہرے کر رہے تھے۔ مظاہروں کے تیسرے روز سکیورٹی فورسز نے سخت کارروائی شروع کی۔

احتجاج کے سبب دارالحکومت رباط اور مراکش کے سب سے بڑے شہر کاسا بلانکا سمیت اغادیر، تانغیر اور اوجدا جیسے شہروں میں سخت سکیورٹی کی موجودگی دیکھی گئی ہے۔

اواخر ہفتہ احتجاج کے لیے آن لائن کال دی گئی تھی، جس کے بعد سے ہی حکام نوجوانوں کے گروپوں کو جمع ہونے سے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی اور روئٹرز دونوں نے صحافیوں اور عینی شاہدین کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ پولیس کو ایسے درجنوں نوجوان مظاہرین کو گرفتار کرتے ہوئے دیکھا گیا، جو رباط میں نعرے لگانے یا پریس سے بات کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

(جاری ہے)

انسانی حقوق کے کارکنوں کی گرفتاریاں

چائلڈ پروٹیکشن ایسوسی ایشن کی صدر نجات انوار کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ میڈیا سے بات کر رہی تھیں، تاہم انہیں دو گھنٹے بعد رہا کر دیا گیا۔ بعد میں انہوں نے روئٹرز کو بتایا، "میں یہاں ان الزامات کی تحقیقات کرنے آئی تھی کہ کم عمروں کو گرفتار کیا گیا ہے اور پھر مجھے ہی گرفتار کر لیا گیا۔

"

مراکش ایسوسی ایشن فار ہیومن رائٹس، یا اے ایم ڈی ایچ کی رباط شاخ کے صدر حکیم سیکوک نے کہا کہ "رباط میں 60 سے زیادہ گرفتاریاں ہوئی ہیں" اور کاسا بلانکا، اغادیر، اوجدا اور میکنیس شہروں میں نامعلوم تعداد میں لوگ گرفتار کیے گئے ہیں۔

تنظیم نے فیس بک پر ایک پوسٹ میں بتایا کہ گرفتار ہونے والوں میں اس کی رباط شاخ کے دو ارکان بھی شامل ہیں۔

ادارے نے پہلے ایک بیان میں کہا تھا کہ یہ گرفتاریاں "آزاد آوازوں کے خلاف کریک ڈاؤن اور آزادی اظہار کے حق پر پابندی کا ثبوت ہیں۔"

سیکوک نے بتایا کہ پولیس نے مبینہ طور پر رباط میں ہفتے کے آخر میں 100 سے زائد افراد کو گرفتار کیا۔ ان کے مطابق مراکش کے دیگر گیارہ شہروں میں بھی نوجوان سڑکوں پر احتجاج کے لیے نکلے اور وہاں بھی بہت سی گرفتاریاں ہوئی ہیں۔

اتوار کی رات کو مراکش کے سب سے بڑے شہر کاسا بلانکا میں مظاہرین نے ایک بڑی شاہراہ کو تھوڑی دیر کے لیے بلاک بھی کر دیا تھا۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز میں پولیس کو اغادیر میں یونیورسٹی کیمپس کے قریب طلبہ کو منتشر کرتے ہوئے دیکھا گیا۔

سیکوک نے پیر کے روز بتایا کہ ہفتے کے آخر میں حراست میں لیے گئے مظاہرین کی اکثریت کو رہا بھی کر دیا گیا تھا۔

مراکش کے نوجوان احتجاج کیوں کر رہے ہیں؟

ایک بڑی شکایت یہ ہے کہ شمالی افریقی ملک مراکش کی حکومت صحت عامہ اور تعلیم کے بحرانوں کو نظر انداز کرتے ہوئے 2030 کے فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی کے لیے اسٹیڈیم تعمیر کر رہی ہے۔

لوگوں نے مظاہروں کے دوران نعرے لگائے کہ "اسٹیڈیمز تو ہیں، لیکن ہسپتال کہاں ہیں؟"

25 سالہ براہیم نے پیر کو رباط کے مرکز میں روئٹرز کو بتایا، "ہم صحت کا ایک بہتر نظام اور احتساب چاہتے ہیں۔

"

مراکش کے معاشرے میں عدم مساوات اور ناہمواریوں کے سبب عوام میں عدم اطمینان پایا جاتا ہے جس کے سبب نوجوان اور خواتین غیر متناسب طور پر متاثر ہو رہی ہیں اور یہ مظاہرے اسی کا مظہر ہیں۔

قومی ادارہ شماریات کے مطابق مراکش میں بے روزگاری کی شرح 12.8 فیصد ہے، نوجوانوں میں بے روزگاری شرح 35.8 فیصد اور گریجویٹس میں 19 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔

مراکش کے وسطی ساحل پر واقع ایک بڑے شہر اغادیر کے ایک سرکاری ہسپتال میں متعدد خواتین کی ہلاکت نے عوامی غم و غصے کو مزید بڑھا دیا ہے۔

احتجاج کے پیچھے کون ہے؟

احتجاجی مظاہرے کا اہتمام گمنام نوجوانوں کے نیٹ ورکس کے ذریعے چلائی جا رہی ایک تنظیم یوتھ وائس اور جین زیڈ 212 کر رہے ہیں۔ یہی گروپس احتجاج کی کال کے لیے ٹک ٹاک اور انسٹا گرام جیسے سوشل میڈیا کا سہارا لے رہے ہیں۔

انہوں نے اپنی پوسٹ میں "وطن سے محبت" کا دعویٰ کرتے ہوئے "صحت، تعلیم اور بدعنوانی کے خلاف جنگ" جیسے مسائل کا حوالہ دیا ہے۔

ادارت: جاوید اختر

اے ایف پی، روئٹرز