اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 09 اکتوبر 2025ء) اس سال کے نوبل امن انعام کی بات کی جائے تو ایک بات تقریباً یقینی ہے۔ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ یہ انعام نہیں جیتیں گے، خواہ وہ اس کے کتنے ہی خواہشمند کیوں نہ ہوں۔ لیکن پھر جیتے گا کون؟
ناروے
کی نوبل کمیٹی اوسلو میں اس معمہ کو ختم کرے گی جب وہ جمعہ کی صبح 11 بجے (پاکستانی وقت دوپہر 2 بجے) فاتح کا اعلان ہوگا۔ٹرمپ
بار بار یہ کہتے رہے ہیں کہ وہ ''آٹھ تنازعات حل اور جنگیں ختم کرانے کا سبب بنے ہیں اس وجہ سے اس باوقار انعام کے مستحق ہیں، لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ کمیٹی کا انتخاب وہ نہیں ہوں گے، کم از کم اس سال تو نہیں۔سویڈش پروفیسر پیٹر والن اسٹین، جو بین الاقوامی امور کے ماہر ہیں، نے اے ایف پی کو بتایا، ''نہیں، اس سال ٹرمپ کو یہ انعام نہیں ملے گا۔
(جاری ہے)
انہوں نے مزید کہا، ''لیکن شاید اگلے سال؟ تب تک ان کی مختلف کوششوں، بشمول غزہ بحران، کا غبار بیٹھ چکا ہو گا۔‘‘
بہت سے ماہرین ٹرمپ کے ''امن قائم کرنے والے‘‘ دعووں کو مبالغہ آمیز قرار دیتے ہیں اور ان کی ''امریکہ فرسٹ‘‘ پالیسیوں کے نتائج پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔
الفریڈ نوبل کی وصیت کے خلاف
پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اوسلو کی سربراہ نینا گریگر نے کہا، ''غزہ میں امن قائم کرنے کی کوششوں کے علاوہ ہم نے ایسی پالیسیاں دیکھی ہیں جو دراصل (الفریڈ) نوبل کی وصیت میں درج مقاصد کے خلاف جاتی ہیں، جن میں بین الاقوامی تعاون کو فروغ دینا، اقوام کے درمیان بھائی چارہ قائم کرنا اور اسلحے میں کمی شامل ہیں۔
‘‘گریگر کے مطابق ٹرمپ کے وہ اقدامات جو نوبل امن انعام کے اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتے، ان کی فہرست طویل ہے۔
ٹرمپ
نے امریکا کو بین الاقوامی اداروں اور کثیرالجہتی معاہدوں سے الگ کر لیا، اتحادیوں اور دشمنوں دونوں کے خلاف تجارتی جنگیں شروع کیں، ڈنمارک سے زبردستی گرین لینڈ چھیننے کی دھمکی دی، امریکی شہروں میں نیشنل گارڈ تعینات کیے، اور یونیورسٹیز کی تعلیمی آزادیوں کے ساتھ ساتھ اظہارِ رائے کی آزادی پر بھی حملے کیے۔1946 میں جب سے سویڈن کی اپسالا یونیورسٹی نے عالمی تنازعات کا ڈیٹا بیس بنانا شروع کیا، اس کے بعد سے دنیا بھر میں ریاستی سطح پر شامل مسلح تنازعات کی تعداد 2024 میں سب سے زیادہ رہی ہے۔
ادارت:کشور مصطفیٰ