Chewing Gum Chabana Qatan Mufeed Nahi - Article No. 2994

Chewing Gum Chabana Qatan Mufeed Nahi

چیونگم چبانا قطعاً مفید نہیں - تحریر نمبر 2994

چیونگم چبانے سے انسانی جسم میں ہزاروں مائیکرو پلاسٹک داخل ہو رہے ہیں

منگل 19 اگست 2025

شاہین علی
”چیونگم کیسے متعارف ہوئی؟“ تو تاریخ کے اوراق یہ بتاتے ہیں کہ قدیم یونانی اور مایا تہذیبوں میں لوگ درختوں کے رال، چھال اور قدرتی مواد کو چبانے کے لئے استعمال کرتے تھے اور یہ اُس دور کی چیونگم تصور کی جاتی تھی۔تاہم، بعض مورخین کا کہنا ہے کہ امریکی مقامی باشندے درخت کی رال چبایا کرتے تھے، جسے دیکھ کر John Curtis کو خیال آیا کہ چیونگم کو تجارتی طور پر بنایا اور فروخت کیا جا سکتا ہے۔
یوں پہلی چیونگم ”اسٹیٹ آف مین پیور سپروس گم“ کے نام سے متعارف کروائی گئی۔وقت کے ساتھ اس میں مختلف تبدیلیاں ہوتی گئیں۔19 ویں صدی میں مختلف ذائقوں میں (مثلاً پودینہ‘ دارچینی‘ چاکلیٹ وغیرہ) چیونگم بنائی جانے لگی۔تاہم، موجودہ دور میں اسے مصنوعی یا کیمیائی ربڑ سے تیار کیا جاتا ہے۔

(جاری ہے)


چند عرصہ قبل طبی ماہرین چیونگم چبانے کے بے شمار فوائد بیان کر رہے تھے۔

جیسے جرنل آف فزیکل تھراپی سائنس میں شائع کردہ ایک تحقیق کے مطابق:”چہل قدمی کے دوران چیونگم لوگوں کو زیادہ تیزی سے چلنے اور تھوڑی زیادہ توانائی استعمال کرنے کی ترغیب دیتی ہے، جس سے لوگوں کو عمر بڑھنے کے ساتھ وزن بڑھنے سے بچنے میں مدد مل سکتی ہے۔“ دراصل، چیونگم زور زور سے چبانے سے تھوک کی مقدار بڑھ جاتی ہے اور یہ عمل پیٹ میں موجود تیزابیت کو متحرک کر دیتا ہے، نتیجتاً بھوک کم محسوس ہونا شروع ہو جاتی ہے۔
اسی طرح فرنٹیئرز ان سائیکالوجی میں شابردستی کھانے کی طلب یا خواہش کم کر سکتی ہے۔اس کے علاوہ چیونگم چبانے سے ہر طرح کے دباؤ سے فوری طور پر نجات مل سکتی ہے، تو یہ سانسوں میں تازگی کا احساس پیدا کرتی ہے۔چیونگم چبانے سے نظام انہضام مزید بہتر ہو جاتا ہے۔چیونگم چبانے سے سگریٹ کی شدید طلب میں بہت حد تک کمی لائی جا سکتی ہے۔اگر چیونگم شوگر فری ہے تو اس سے کیویٹی والے دانتوں کو فائدہ پہنچتا ہے۔

متعدد تحقیقات سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ دورانِ کام چیونگم چبانا دماغی افعال جیسے ہوشیاری، یادداشت، فہم اور قوتِ فیصلہ میں مزید بہتر لاتا ہے۔اس کے علاوہ کچھ طلبہ پر ایک ٹرائل کیا گیا، جس میں دیکھا گیا کہ جو طالب علم 7 سے 19 دن کے عرصے میں چیونگم چباتے رہے، اُن میں چیونگم نہ کھانے والوں کی نسبت ڈپریشن، گھبراہٹ اور ذہنی تناؤ کی شرح کم پائی گئی۔
اگرچہ ماہرین چیونگم کے ان دماغی اثرات کی وجہ جاننے سے قاصر رہے، لیکن انھوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ چیونگم چبانے کے نتیجے میں خون کی رفتار دماغ میں بڑھ جاتی ہے، جس کی وجہ سے دماغی افعال بہتر طور پر کام کرتے ہیں۔ایک تحقیق کے مطابق چیونگم چبانے سے لعاب دہن زیادہ بنتا ہے، جس سے مختصر وقت کے لئے خشک منہ کے مسئلے سے نجات پانے میں مدد ملتی ہے۔
کچھ دیر چیونگم چبانے سے تھکاوٹ یا غنودگی سے نجات ملتی ہے اور ذہنی مستعدی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔گاڑی میں سفر کے دوران متلی یا سر چکرانے کے مسئلے سے بچنے کے لئے بھی چیونگم چبانا مفید ثابت ہوتا ہے۔
تاہم اب، خبر رساں ادارے ”ایجنسی پریس فرانس“ (اے ایف پی) کے مطابق امریکی ماہرین کی جانب سے چیونگم پر کی جانے والی مختصر تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ چیونگم چبانے سے انسانی جسم میں ہزاروں مائیکرو پلاسٹک داخل ہو رہے ہیں۔
تحقیق میں شامل رضاکاروں کو چیونگم چبانے کا کہا۔بعد ازاں، ماہرین نے رضاکاروں کو چیونگم چبانے کے بعد انتہائی صاف پانی سے کلیاں کرنے کا کہا اور پھر کلیوں میں استعمال شدہ پانی کا بھی جائزہ لیا۔ماہرین نے رضاکاروں کو مختلف اوقات تک چیونگم چبانے کا کہا اور پھر ان کے لعابِ دہن کو حاصل کر کے اس کا بھی جائزہ لیا گیا، جس میں یہ انکشاف ہوا کہ محض ایک گرام چیونگم سے اندازاً ایک سو مائیکرو پلاسٹک خارج ہو کر انسانی جسم میں داخل ہو رہے ہیں۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ اگر کوئی فرد سال بھر میں 180 چیونگم کھاتا ہے، تو اس کے جسم میں 30 ہزار مائیکرو پلاسٹک داخل ہو جاتے ہیں۔ماہرین کا کہنا تھا کہ چیونگم اور اسی طرح کی دیگر چبانے والی بعض میٹھی غذائیں ایسی ہیں، جن میں پلاسٹک پولیمر استعمال کیا جاتا ہے۔یہی وجہ سے مائیکرو پلاسٹک خارج ہو کر انسانی جسم کا حصہ بن جاتے ہیں۔واضح رہے، اس سے قبل بھی متعدد تحقیقات میں یہ انکشاف ہو چکا ہے کہ پلاسٹک ذرات انسانی خون، دل، پھیپھڑوں، گردوں، جگر، دماغ اور یہاں تک ماں کے دودھ میں بھی شامل ہو چکے ہیں۔
حالیہ چند برسوں میں عالمی ادارہ صحت بھی یہ واضح کر چکا ہے کہ مذکورہ مائیکرو پلاسٹک ذرات سے انسانی صحت متاثر ہو رہی ہے۔
واضح رہے، یہ تحقیق فی الحال جائزہ Peer Review کے عمل سے گزر رہی ہے اور جلد ہی سان ڈیاگو میں امریکی کیمیائی سوسائٹی کے دو سالہ اجلاس میں پیش کی جائے گی۔تحقیق کے مصنفین اُمید کر رہے ہیں کہ جائزے کے بعد اس رپورٹ کو رواں برس Journal Of Hazardous Materials Letters میں شائع کیا جائے گا۔

Browse More Healthart