Bachoon K Jamil Jalibi - Article No. 1607

Bachoon K Jamil Jalibi

بچوں کے جمیل جالبی - تحریر نمبر 1607

علم و تحقیق کے حلقے کا ایک بڑا نام ڈاکٹر جمیل جالبی تھے،جو18اپریل2019ء کو اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔

جمعہ 20 دسمبر 2019

رانا محمد شاہد
علم و تحقیق کے حلقے کا ایک بڑا نام ڈاکٹر جمیل جالبی تھے،جو18اپریل2019ء کو اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ڈاکٹر صاحب ان بڑے ادیبوں میں سے تھے جو بچوں کے لیے بھی کچھ نہ کچھ لکھتے رہتے تھے۔ڈاکٹر جمیل جالبی کو بچپن سے ہی لکھنے پڑھنے کا شوق تھا۔انھوں نے بچپن سے ہی کہانیاں لکھنا شروع کر دی تھی۔صرف12سال کی عمر میں انھوں نے اپنی پہلی تخلیق”سکندر اور ڈاکو“کے نام سے کہانی لکھی،جو سکول میں بطور ڈرامہ بھی پیش کی گئی۔
ان کی پہلی تحریر دہلی سے شائع ہونے والے رسالے”بنات“میں شائع ہوئی۔سب سے پہلی کتاب”جانور ستان“کے نام سے شائع ہوئی۔یہ جارج آرول کے ناول کا ترجمہ تھا۔
کہا جاتا ہے کہ بڑے ادیب بچوں کے لیے لکھنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں،مگر ڈاکٹر جمیل جالبی اپنی تمام مصروفیات کے باوجود بچوں کے لیے کہانیاں ضرور لکھتے تھے۔

(جاری ہے)

ننھے بچوں کے لیے ان کی لکھی ہوئی کہانیاں بید کی کہانیاں ،بلیاں،حضرت امیر خسرو،چھن چھن چھن چھن اور نئی گلستاں بہت مشہور ہوئیں۔

اس کے علاوہ انھوں نے بچوں کے لیے فسانہ آزاد کے مزاحیہ کردار خوجی پر مبنی داستان”خوبی پر کیا گزری “کے عنوان سے رسالہ”ہونہار“کے لیے قسط وار تحریر کی۔
”خوجی پر کیا گزری“ایک دلچسپ سلسلہ تھا۔جسے بچے نہ صرف شوق سے پڑھتے تھے بلکہ اس کی نئی قسط کا انتظار بھی کیا کرتے تھے۔”حیرت ناک کہانیاں“،”اور اپنی دوسری کہانیوں کی صورت میں انھوں نے بچوں کے لیے ایسا علمی ورثہ چھوڑا ہے جس سے آنے والی نسلیں سیراب ہوتی رہیں گی۔

ابتدائی عمر سے ہی انھیں کتاب لکھنے کا شوق تھا۔ایک انٹرویو میں اپنے اس شوق کے حوالے سے ڈاکٹر جمیل جالبی کہتے ہیں:”جب میں چھوٹا تھا تو اکثر میری پٹائی اس بات پر ہوتی تھی کہ میں کا پیاں پھاڑ کر ان سے کتاب بناتا تھا اور دوپہر کو جب سب لوگ سوجاتے تھے،میں غسل خانے میں چھپ کر کاپیوں کے ورق علیحدہ کرتا،ان سے کتاب بناتا اور اپنے کورس کی کتاب اس پر نقل کر کے اپنا نام نمایاں طریقے سے لکھ دیتا․․․․․․․․محمد جمیل خان۔
اس سے اباجی بہت خوش ہوتے تھے،لیکن ہمارے سکول کے ہیڈماسٹر کو میری اس قسم کی سر گرمیوں سے سخت شکایت رہتی تھی۔وہ اکثر اباجی سے شکایت کر دیتے تھے کہ یہ کاپیاں پھاڑ دیتاہے۔“جالبی صاحب کی اس بات سے اندازہ ہوتاہے کہ کتاب لکھنے یا مصنف بننے کا رجحان شعوری طور پر ان میں بچپن سے موجود تھا۔
بچوں کے رسالے ہمدرد نونہال کے مدیر مسعود احمد برکاتی بچوں کے ادب کا ایک بڑا نام تھے۔
ان کی یہ خوبی تھی کہ وہ ان نامورو بڑے ادیبوں سے بچوں کے لیے بھی کچھ نہ کچھ لکھوالیتے تھے ،صرف بڑوں کے ادب تک محدود تھے۔یہ مسعود احمد برکاتی کا ہی کمال تھا کہ انھوں نے ڈاکٹر جمیل جالبی سے نادان بکری، ناشکرا ہرن،نادانی کی سزا،قصہ ایک بھیڑیے کا ،دو دوست دو دشمن ،دو چوہے اور مغرور لومڑی جیسی بہترین کہانیاں لکھوائیں اور ڈاکٹر صاحب نے بھی بڑی محبت سے وہ شاہکار کہانیاں لکھیں۔
ڈاکٹر جمیل جالبی بچوں کے لیے لکھنے کے ساتھ ساتھ اس فکر میں بھی مبتلا رہتے تھے کہ بچوں کے لیے بہت کم لکھاجارہا ہے۔اس فکر مندی کا اظہار کرتے ہوئے وہ ایک جگہ لکھتے ہیں:”قوم کے ادیب بڑے بوڑھے اور راہبروراہنما یہی کہتے ہیں کہ بچے قوم کا مستقبل ہوتے ہیں،لیکن جیسے وہ اپنے مستقبل سے بے پرواہ ہو گئے ہیں،اسی طرح بچوں کے مستقبل سے بھی لا تعلق ہیں۔
ہمارے ہاں بڑے بڑے لکھنے والے ہیں۔سب ایک سے ایک طرم خاں،مگر کیا مجال کہ بچوں کا ذرا بھی خیال ہو۔نہ ان کے لیے لکھتے ہیں،نہ ان کے لیے سوچتے ہیں۔کہتے ہی جاتے ہیں کہ بچے قوم کا مستقبل ہوتے ہیں۔ذرا ان سے کوئی یہ تو پوچھے کہ قبلہ!آپ کی بات سر آنکھوں پر ،لیکن آپ نے خود بچوں کے لیے کیا لکھا ہے؟بچوں کو تو روز ایک کتاب چاہیے۔اچھی لکھی ہوئی ،اچھی چھپی ہوئی۔
تصویروں اور خاکوں سے بنی ہوئی۔جن سے ان کی تربیت ہو،جنھیں پڑھ کر وہ سوچیں،سمجھیں۔ان کی معلومات میں اضافہ ہو۔ان کا ذہن کھلے اور مستقل کے لیے وہ تیار ہو جائیں۔“
میں نے جب نیا نیا لکھنا شروع کیا تو انہی دنوں ہمدرد نونہال میں ڈاکٹر جمیل جالبی کی کہانی”ناشکرا ہرن“پڑھی۔وہ کہانی آج بھی ذہن پر نقش ہے۔میں نے تھوڑی مشقت کے بعد لائبریری سے نونہال کا وہ شمار ہ نکالا۔
اپریل1995ء کا وہ شمار ہ دیکھا اور ڈاکٹر صاحب کی کہانی پھر سے پڑھی تو اپنے بچپن کا زمانہ اور بچپن کے سارے رنگ آنکھوں کے سامنے آگئے۔ڈاکٹر صاحب نے اپنی اس مختصر سی کہانی میں ایک بڑا پیغام دیا تھا۔یہ کہانی میں اس تحریر کا حصہ بنا رہاہوں،تاکہ نئے پڑھنے والے نونہال نہ صرف اس سے لطف اندوز ہوں بلکہ وہ پیغام بھی لے سکیں۔
”نا شکرا ہرن“․․․․․․یہ اس زمانے کا ذکر ہے جب بندوق ایجاد نہیں ہوئی تھی اور لوگ تیر کمان سے شکار کھیلتے تھے۔
ایک دن کچھ شکاری شکار کی تلاش میں جنگل میں پھر رہے تھے کہ اچانک ان کی نظر ایک ہرن پر پڑی۔وہ سب اس کے پیچھے ہو لیے۔شکاری ہرن کو چاروں طرف سے گھیر رہے تھے اور ہرن اپنی جان بچانے کے لیے تیزی سے بھاگ رہا تھا۔جب وہ بھاگتے بھاگتے تھک گیا تو ایک گھنی انگور کی بیل کے اندر جا چھپا۔شکاریوں نے اسے بہت تلاش کیا،لیکن اس کا کچھ پتا نہ چلا ۔آخر مایوس ہو کر وہ وہاں سے لوٹنے لگے۔
جب کچھ وقت گزراتو ہرن نے سوچا کہ اب خطرہ ٹل گیا ہے اور وہ بے فکر ہوکر مزے سے اسی انگور کی بیل کے پتے کھانے لگا،جس میں وہ چھپا ہوا تھا۔ایک شکاری جو سب سے پیچھے تھا جب وہاں سے گزرا تو انگور کی بیل اور اس کے گچھوں کو ہلتے دیکھ کر سمجھا کہ یہاں ضرور کوئی جانور چھپا ہے۔ا س نے تاک کر کئی تیر مارے اتفاق سے ایک تیر ہرن کے جا لگا اور وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔مرتے ہوئے ہرن نے اپنے دل میں کہا:”اے بد بخت!تیری ناشکری کی یہی سزا ہے۔مصیبت کے وقت جس نے تجھے پناہ دی تو نے اسی پر ظلم ڈھایا۔“اتنے میں شکاری بھی وہاں پہنچ گئے۔کیا دیکھتے ہیں کہ وہی ہرن مرا پڑاہے۔“

Browse More Moral Stories