Bustan Sahib Ki Seerhi - Article No. 2310

Bustan Sahib Ki Seerhi

بُستان صاحب کی سیڑھی - تحریر نمبر 2310

ان کی نظر بُستان صاحب کی سیڑھی پر پڑی جو اب بھی درخت کے ساتھ ٹکی ہوئی تھی۔جبار صاحب نے شرمندہ ہو کر سوچا:”مجھے بُستان صاحب کی سیڑھی لوٹانا یاد ہی نہیں رہا۔میں نے وعدہ کیا تھا کہ کام کرنے کے فوراً بعد انھیں لوٹا دوں گا،لیکن سستی کی وجہ سے میں نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا۔“

جمعرات 21 جولائی 2022

احمد عدنان طارق
بُستان صاحب بہت خوش اخلاق انسان تھے۔ان کے پڑوسی گھریلو استعمال کی کوئی چیز مانگتے تو وہ کبھی انکار نہ کرتے۔اکثر لوگ اُدھار لی ہوئی چیزیں واپس نہیں کرتے یا کئی دنوں بعد لوٹاتے۔سردیوں کی آمد تھی،جب انھوں نے اپنا بیلچہ اقرار صاحب کو باغیچے میں کام کرنے کے لئے دیا تھا۔بُستان صاحب کو برف ہٹانے کے لئے وہ بیلچہ درکار تھا،لیکن ابھی تک اقرار صاحب نے واپس نہیں کیا تھا۔
انھوں نے اپنی سب سے کارآمد ٹوکری پڑوسن بیگم الیاس کو دی تھی اور اب اس کی واپسی کا انتظار کر رہے تھے۔
ایک دن سخت سردی پڑ رہی تھی۔عبدالجبار صاحب تشریف لے آئے اور بُستان صاحب سے کہنے لگے:”میرے گھر میں درخت کی ایک بھاری شاخ چٹخ گئی ہے میں نہیں چاہتا وہ کسی راہ گیر پر گر جائے۔

(جاری ہے)

میں سیڑھی پر چڑھ کر اسے کاٹ دینا چاہتا ہوں،لیکن میرے پاس سیڑھی نہیں ہے،اس لئے میں نے سوچا کہ میں آپ سے سیڑھی کے لئے درخواست کرتا ہوں۔


بُستان صاحب اپنے مزاج کے مطابق کہنے لگے:”ضرور ضرور لے جائیں کوئی بات نہیں ہے،لیکن مہربانی فرما کر اسے جلدی واپس کر دیجیے گا،کیوں مجھے بھی اچانک ضرورت پڑ سکتی ہے۔مجھے بیلچے کی بہت دنوں سے ضرورت ہے،لیکن میرا بیلچہ اقرار صاحب کے پاس ہے۔میں بازار سے چیزیں خرید کر نہیں لا سکتا،کیونکہ میری ٹوکری بیگم الیاس لے گئیں تھیں جو وہ ابھی تک واپس نہیں کرکے گئیں۔

جبار صاحب بولے:”میں یہ کام کرنے کے بعد فوراً سیڑھی واپس کر جاؤں گا۔“
جبار صاحب اس وقت واقعی یہی سوچ رہے تھے۔انھوں نے سیڑھی کندھے پر اُٹھائی اور روانہ ہو گئے۔اگلے دن انھوں نے سیڑھی کو درخت کے تنے کے ساتھ لگایا اور اس پر چڑھ کر درخت سے شاخ کاٹی۔خاصی بڑی اور موٹی شاخ تھی۔جبار صاحب کا خیال تھا کہ آتش دان کے لئے اس لکڑی کے موٹے موٹے ٹکڑے کاٹے جا سکتے ہیں۔
پھر انھوں نے ایک اور شاخ منتخب کی اور اسے بھی کاٹنے لگے۔ان کا خیال تھا کہ اس شاخ کی لکڑی کے ٹکڑے کرکے بُستان صاحب کو دیں گے اور اس طرح سیڑھی دینے کا شکریہ بھی ادا ہو جائے گا۔
جبار صاحب نے بہت اچھا سوچا،لیکن یہ صرف سوچ ہی تھی اس پر وہ عمل نہیں کر سکے۔جب وہ شاخ کاٹ کر فارغ ہوئے تو بہت زیادہ تھک چکے تھے۔انھوں نے پہلے سیڑھی کی طرف دیکھا اور پھر لکڑی کے ٹکڑوں کی طرف اور پھر خود کلامی کرتے ہوئے بولے:”میں آج کسی صورت سیڑھی واپس کرنے بُستان صاحب کے پاس نہیں جا سکتا۔
میں سیڑھی اور لکڑی کے یہ بڑے ٹکڑے کل ان کو دینے جاؤں گا۔اب مجھے گھر جا کر چائے پینے کے بعد آرام کرنا چاہیے۔جبار صاحب گھر کے اندر داخل ہوئے اور سیڑھی بھول گئے۔
اسی طرح ایک ہفتہ گزر گیا اور انھیں سیڑھی کا ایک بار بھی خیال نہیں آیا۔
موسم بہت سرد ہو گیا تھا۔برف اتنی پڑی کہ زمین سفید ہو گئی۔تالاب اور جھیلوں کا پانی جم گیا تھا۔
بچوں کا دل مچلتا تھا کہ وہ تالاب کی جمی ہوئی سطح پر پھسلیں۔جبار صاحب کا چھوٹا بیٹا بھی یہی چاہتا تھا،لیکن جبار صاحب نے سختی سے اسے اس کام سے منع کر دیا تھا:”دیکھو حسن!برف کی سطح ابھی زیادہ مضبوط نہیں ہوئی ہے۔تم اس پر پھسلو گے تو برف تمہارے بوجھ سے ٹوٹ جائے گی اور تم پانی میں گر جاؤ گے۔“
حسن کو ڈانٹنے کے بعد وہ خود سے باتیں کرنے لگے:”پتا نہیں،بچوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ اتنے سرد موسم میں،اتنی ٹھنڈی اور تیز ہوا میں برف پر کیوں پھسلنا چاہتے ہیں۔
میرا دل تو چاہتا ہے کہ آتش دان میں لکڑی کے ٹکڑے جلتے ہوں اور کمرہ گرم ہو۔“
پھر وہ اچانک خود سے بولے:”میں کچھ لکڑی کے ٹکڑے ہی لے آتا ہوں۔“
انھیں اچانک لکڑی کے وہ ٹکڑے یاد آ گئے تھے جو انھوں نے ایک ہفتہ پہلے کاٹے تھے۔وہ تقریباً دوڑتے ہوئے درخت کے پاس گئے اور لکڑی کے ٹکڑے تلاش کرنے لگے۔تبھی ان کی نظر بُستان صاحب کی سیڑھی پر پڑی جو اب بھی درخت کے ساتھ ٹکی ہوئی تھی۔

جبار صاحب نے شرمندہ ہو کر سوچا:”مجھے بُستان صاحب کی سیڑھی لوٹانا یاد ہی نہیں رہا۔میں نے وعدہ کیا تھا کہ کام کرنے کے فوراً بعد انھیں لوٹا دوں گا،لیکن سستی کی وجہ سے میں نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا۔“
پھر انھوں نے اپنی بیگم کو جا کر کچھ لکڑی کے ٹکڑے دیے۔وہ جبار صاحب سے کہنے لگیں:”آجاؤ،اب آرام کر لو۔بہت سردی ہے۔“
جبار صاحب نے انکار میں سر ہلایا اور کہنے لگے:”میں پہلے بُستان صاحب کو ان کی سیڑھی واپس کروں گا۔
ایک ہفتے سے اس کو بھول بیٹھا تھا۔“
بیگم بولیں:”ایک دو دن سے فرق نہیں پڑتا۔آج بہت سردی ہے اور آپ بہت تھک چکے ہیں۔“
جبار صاحب بولے:”واقعی یہ بات درست ہے کہ میں تھکا ہوا بھی ہوں اور سردی بھی بہت ہے،لیکن مجھے ہر صورت میں سیڑھی کو واپس کرنے جانا ہے۔خدا حافظ۔“
بیگم ناراض ہو کر بولیں:”آج کی اس سے بڑی بے وقوفی کوئی اور نہیں ہو سکتی۔

لیکن جبار صاحب سیڑھی واپس کرنے چل پڑے۔راستے میں جب وہ جمے ہوئے تالاب کے پاس پہنچے تو اسے غور سے دیکھنے لگے کہ برف کی سطح مضبوط اور گہری ہوئی ہے کہ نہیں،کچھ بچے اب بھی برف کے اوپر چہل قدمی کرتے ہوئے اس بات کا اندازہ لگا رہے تھے کہ برف کی موٹائی ان کا بوجھ برداشت کر سکتی ہے کہ نہیں؟
ایک چھوٹا بچہ تو بالکل تالاب کے بیچوں بیچ پہنچا ہوا تھا۔
جبار صاحب نے دور سے اس کو دیکھا تو بے اختیار ان کے منہ سے نکلا:”کتنا بے وقوف بچہ ہے۔“
غور سے دیکھا تو وہ اسے پہچان گئے وہ ان ہی کا بیٹا حسن تھا۔ابھی وہ اسے آواز دینے ہی والے تھے کہ اچانک برف کی سطح ایک آواز کے ساتھ ٹوٹی اور بے چارہ حسن یخ ٹھنڈے پانی میں غوطے کھانے لگا۔وہ اب پانی کی سطح سے اوپر اُبھرنے کی کوشش کر رہا تھا اور مدد کے لئے چلا بھی رہا تھا۔
جبار صاحب کے لئے یہ بہت بڑا سانحہ تھا۔وہ سوچ رہے تھے کہ انھیں کیا کرنا چاہیے؟
تبھی کوئی چلایا:”سیڑھی․․․․سیڑھی ادھر لاؤ۔“
تب جبار صاحب کو خیال آیا کہ وہ کیا اُٹھائے ہوئے کھڑے ہیں؟انھوں نے فوراً برف کی اس سطح پر سیڑھی کو لٹا دیا،جو ذرا مضبوط تھی،پھر آہستہ آہستہ حسن کی طرف بڑھانے لگے۔حسن نے ہاتھ پیر مارتے ہوئے آخر سیڑھی کو پکڑ لیا۔
اب جبار صاحب نے آہستہ آہستہ سیڑھی کو اپنی طرف کھینچنا شروع کیا۔سیڑھی جب قریب آ گئی تو ساتھی ہی حسن بھی برف کی سطح پر پہنچ گیا۔
جبار صاحب پریشان بھی تھے اور ناراض بھی۔وہ چلاتے ہوئے بولے:”تم بہت شرارتی،احمق اور بدتمیز بچے ہو۔اب جلدی سے گھر پہنچو ماں کے پاس،وہ تمہیں خشک کپڑے پہنا دیں گی۔“
حسن روتا ہوا گھر کی طرف دوڑ پڑا۔
جبار صاحب سیڑھی لے کر بُستان صاحب کے گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔
بُستان صاحب خوش ہو کر بولے:”اتنے سرد موسم میں آپ سیڑھی واپس کرنے تشریف لائے ،جبار صاحب!بہت شکریہ۔“
جبار صاحب بولے:”آپ کی بھابھی تو مجھے آنے نہیں دے رہی تھیں،لیکن میں شرمندہ تھا،اس لئے میں آ گیا۔یہ میرا فرض ہے۔دوسری بات یہ بھی ہے کہ اگر آج بھی میں یہ سیڑھی لے کر نہ آتا تو شاید میرا بچہ پانی میں ڈوب جاتا۔
میں اس وقت تالاب کے پاس تھا،جب وہ پانی میں گر گیا اور آپ کی سیڑھی میرے پاس تھی جس کی مدد سے میں نے اسے پانی سے نکالا۔“
بُستان صاحب بولے:”تو پھر تو یہ انعام آپ کو قدرت کی طرف سے ملا میری سیڑھی واپس لانے کا۔میں اس واقعے کو کبھی نہیں بھلا سکتا۔“
جبار صاحب بولے:”اور میں آپ کے لئے لکڑی لانا بھی نہیں بھولا۔“واقعی جبار صاحب نہیں بھولے تھے اور اب آگ جلانے کے لئے بُستان صاحب کے پاس لکڑی کے خشک ٹکڑے موجود تھے۔
جبار صاحب نے اس واقعہ سے سبق سیکھا کہ سیڑھی واپس کرنے کی وجہ سے ہی ان کے بیٹے حسن کی جان بچ گئی۔اب وہ کسی سے جب بھی کوئی چیز اُدھار لیتے ہیں تو فوراً واپس کر دیتے ہیں،لیکن سبھی لوگ تو ایسا نہیں کرتے۔آپ کا کیا خیال ہے بچو!

Browse More Moral Stories