Ilaam Ki Roshni - Article No. 1811

Ilaam Ki Roshni

علم کی روشنی - تحریر نمبر 1811

شہیر کو پڑھائی سے بالکل دلچسپی نہیں تھی جبکہ شاہ میر اپنی کلاس کا ذہین طالب علم تھا اور ہمیشہ امتحان میں اچھے نمبروں سے پاس ہوتا تھا

ہفتہ 3 اکتوبر 2020

شاہ میر اور شہیر دونوں ایک ہی کلاس میں پڑھتے تھے۔شہیر کو پڑھائی سے بالکل دلچسپی نہیں تھی جبکہ شاہ میر اپنی کلاس کا ذہین طالب علم تھا اور ہمیشہ امتحان میں اچھے نمبروں سے پاس ہوتا تھا۔شہیر کا تعلق ایک امیر گھرانے سے تھا۔ اس کے والد کا اچھا خاصا کاروبار تھا۔پیسے کی فراوانی نے اسے قدرے مغرور بنا دیا تھا۔شہیر دولت کو اتنی زیادہ اہمیت دینے لگا تھاکہ اس کی نظر میں تعلیم کی اہمیت تقریباً ختم ہو کر رہ گئی تھی۔

وقت گزرتا رہا اور دونوں میٹرک میں پہنچ گئے ۔میٹرک کا امتحان شاہ میر نے اے گریڈ میں پاس کیا جبکہ شہیر نے سی گریڈ حاصل کیا۔اسکول سے نکلتے ہی سب ساتھی ایک دوسرے سے جدا ہو گئے۔شاہ میر اپنے تعلیمی مراحل طے کرتا رہا۔اس نے ایم اے اردو کے امتحان میں نمایاں طور پر کامیابی حاصل کر لی۔

(جاری ہے)

بعد میں اسے ایک مقامی کالج میں بحیثیت لیکچرار ملازت مل گئی۔

وہ اردو کا استاد تھا۔کلاس میں اردو زبان کی اہمیت اور افادیت بیان کرتا،اردو ادب کے بڑے بڑے شاعروں اور ادیبوں کی شخصیت اور ادبی کارناموں پر روشنی ڈالتا تھا۔وہ کالج کے طلبہ میں بہت مقبول تھا۔
علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ اس کے پسندیدہ شاعر تھے اور وہ اقبال رحمة اللہ علیہ کی شاعری بڑی خوبصورتی سے پڑھاتا۔وہ اپنے طالب علموں کو اقبال کے افکار پر عمل کرنے کی نصیحت کرتا اور انہیں اپنی تعلیم پر زیادہ سے زیادہ توجہ دینے پر زور دیتا تھا۔
شاہ میر انہیں کہتا کہ ہمیں اپنی تمام عمر علم کے حصول کے لئے کوشاں رہنا چاہیے۔ایک دن وہ اپنے طلبہ کو لیکچر دے کر کلاس سے باہر نکلا ہی تھا کہ ایک اجنبی شخص اس کے سامنے آکھڑا ہوا اور بڑی عاجزی سے بولا”جناب میں میٹرک پاس ہوں۔آپ کے کالج میں اگر کوئی نوکری ہو تو مجھے خدمت کا موقع دیں۔میں ساری زندگی آپ کا احسان مند رہوں گا۔“
یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔
شاہ میر نے ایک نظر اس شخص کو دیکھا،جیسے کچھ پہچاننے کی کوشش کر رہا ہو۔اس شخص کے بال بکھرے ہوئے اور داڑھی بڑھی ہوئی تھی۔اس نے میلے کچیلے کپڑے پہن رکھے تھے اور چہرے سے مفلسی کے آثار نمایاں تھے۔شاہ میر نے اسے غور سے دیکھا اور پھر چونک اٹھا۔اس کے منہ سے حیرانی کے عالم میں نکلا”ارے شہیر!․․․․یہ تم ہو․․․․اور یہ کیا حال بنا رکھا ہے․․․․!آخر یہ سب کیا ہے؟“
استاد کے منہ سے اپنا نام سن کر شہیر چونک پڑا اور بوکھلا گیا۔
وہ اپنے کلاس فیلو شاہ میر کو پہچان کر اپنی داستان سنانے لگا”شاہ میر تم نے ٹھیک پہچانا․․․․میں شہیر ہوں․․․․حالات کا مارا ہوا․․․․تم مجھے تعلیم کی اہمیت بتاتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ علم کے حصول کے لئے ساری عمر سر گرم رہنا چاہیے لیکن میں دولت کے غرور میں تمہاری بات سنی ان سنی کر دیتا تھا۔میں نے میٹرک کے بعد تعلیم کو خیر باد کہا اور اپنے والد کے کاروبار میں ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔
پڑھائی سے تو میری شروع ہی سے جان جاتی تھی اور میں تمہیں بھی یہی کہا کرتا تھا کہ پیسے کے مقابلے میں تعلیم کی کوئی اہمیت نہیں۔یہ سراسر میری غلطی تھی۔ان ہی دنوں میرے ابا جان کاروبار کے سلسلے میں دوسرے شہر جا رہے تھے کہ کار کا حادثہ ہو گیا اور وہ ہمیں بے یار و مدد گار چھوڑ کر اس دنیا سے چلے گئے۔ہم پر بہت مشکل وقت آپڑا تھا۔میرے ابا جان کا شراکت کا کاروبار تھا۔
ان کی وفات کے بعد خدا جانے ان کے شراکت دار نے کیا چکر چلایا کہ وہ سارے کاروبار کا خود ہی مالک بن گیا اور ہم اپنے حصے سے محروم ہو گئے ۔
میری والدہ نے گزر اوقات کے لئے ہمارا بڑا مکان بیچ کر نسبتاً چھوٹا مکان خرید لیا۔رفتہ رفتہ ساری رقم خرچ ہو گئی۔جب حالات نے نوکری کرنے پر مجبور کیا تو میٹرک پاس ہونے کی وجہ سے کوئی اچھی نوکری نہ مل سکی۔
میرے پاس کوئی سفارش بھی نہ تھی جو میرے کام آسکتی۔ان حالات نے مجھے محنت مزدوری کرنے پر مجبور کر دیا۔یہ ایسے لمحات تھے جن کا میں تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔میں نے اچھے حالات میں آنکھ کھولی تھی ،میں خواب میں بھی ایسے بدترین حالات کا تصور نہیں کر سکتا تھا۔پچھلے چھ برسوں سے میں ایسے ہی حالات کا شکار ہوں اور آج مجھے تعلیم کی اہمیت کا اندازہ ہو گیا ہے۔

تم ٹھیک کہتے تھے کہ علم ایک روشنی ہے جو نہ صرف اندر کے اندھیرے دور کرتی ہے بلکہ صحیح راستے کی طرف رہنمائی بھی کرتی ہے۔میں نے اس سارے عرصے میں بہت مشکل حالات دیکھے ہیں اور اب میں جان گیا ہوں کہ پیسے ہی سے انسان بڑا آدمی نہیں بنتا۔“یہ کہہ کر شہیر چپ ہو گیا اس کی آنکھوں سے آنسورواں تھے۔
شاہ میر نے اسے حوصلہ دیا اور اس کی ہمت بڑھائی۔
شاہ میر تدریس کے با عزت پیشے سے وابستہ تو تھا ہی،وہ مالی طور پر بھی قدرے مستحکم ہو چکا تھا۔لہٰذا اس نے شہیر کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا اور اسے شام کے وقت اپنی اکیڈمی میں کلرک کی نوکری دے دی۔شہیر فارغ وقت میں اپنے تعلیمی مراحل طے کرتا رہا۔آخر ایک دن اپنی محنت سے پرائیویٹ ایم اے کا امتحان پاس کر لیا۔اب وہ بھی نئی نسل کو اپنے علم کی روشنی سے منور کر رہا تھا۔اس نے بھی شاہ میر کے ساتھ مل کر طلبہ کو پڑھانا شروع کر دیا تھا۔یوں چراغ سے چراغ جلنے کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ اب شہیر کے پاس ہمیشہ موجود رہنے والی دولت آگئی تھی۔

Browse More Moral Stories