Ilaam Ki Roshni - Article No. 1811
![Ilaam Ki Roshni](https://photo-cdn.urdupoint.com/show_img_new/kids/kids_article_images/2020/740x404/pic_7a312_1601725584.jpg._2)
علم کی روشنی - تحریر نمبر 1811
شہیر کو پڑھائی سے بالکل دلچسپی نہیں تھی جبکہ شاہ میر اپنی کلاس کا ذہین طالب علم تھا اور ہمیشہ امتحان میں اچھے نمبروں سے پاس ہوتا تھا
ہفتہ 3 اکتوبر 2020
وقت گزرتا رہا اور دونوں میٹرک میں پہنچ گئے ۔میٹرک کا امتحان شاہ میر نے اے گریڈ میں پاس کیا جبکہ شہیر نے سی گریڈ حاصل کیا۔اسکول سے نکلتے ہی سب ساتھی ایک دوسرے سے جدا ہو گئے۔شاہ میر اپنے تعلیمی مراحل طے کرتا رہا۔اس نے ایم اے اردو کے امتحان میں نمایاں طور پر کامیابی حاصل کر لی۔
(جاری ہے)
بعد میں اسے ایک مقامی کالج میں بحیثیت لیکچرار ملازت مل گئی۔
وہ اردو کا استاد تھا۔کلاس میں اردو زبان کی اہمیت اور افادیت بیان کرتا،اردو ادب کے بڑے بڑے شاعروں اور ادیبوں کی شخصیت اور ادبی کارناموں پر روشنی ڈالتا تھا۔وہ کالج کے طلبہ میں بہت مقبول تھا۔علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ اس کے پسندیدہ شاعر تھے اور وہ اقبال رحمة اللہ علیہ کی شاعری بڑی خوبصورتی سے پڑھاتا۔وہ اپنے طالب علموں کو اقبال کے افکار پر عمل کرنے کی نصیحت کرتا اور انہیں اپنی تعلیم پر زیادہ سے زیادہ توجہ دینے پر زور دیتا تھا۔شاہ میر انہیں کہتا کہ ہمیں اپنی تمام عمر علم کے حصول کے لئے کوشاں رہنا چاہیے۔ایک دن وہ اپنے طلبہ کو لیکچر دے کر کلاس سے باہر نکلا ہی تھا کہ ایک اجنبی شخص اس کے سامنے آکھڑا ہوا اور بڑی عاجزی سے بولا”جناب میں میٹرک پاس ہوں۔آپ کے کالج میں اگر کوئی نوکری ہو تو مجھے خدمت کا موقع دیں۔میں ساری زندگی آپ کا احسان مند رہوں گا۔“
یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔شاہ میر نے ایک نظر اس شخص کو دیکھا،جیسے کچھ پہچاننے کی کوشش کر رہا ہو۔اس شخص کے بال بکھرے ہوئے اور داڑھی بڑھی ہوئی تھی۔اس نے میلے کچیلے کپڑے پہن رکھے تھے اور چہرے سے مفلسی کے آثار نمایاں تھے۔شاہ میر نے اسے غور سے دیکھا اور پھر چونک اٹھا۔اس کے منہ سے حیرانی کے عالم میں نکلا”ارے شہیر!․․․․یہ تم ہو․․․․اور یہ کیا حال بنا رکھا ہے․․․․!آخر یہ سب کیا ہے؟“
استاد کے منہ سے اپنا نام سن کر شہیر چونک پڑا اور بوکھلا گیا۔وہ اپنے کلاس فیلو شاہ میر کو پہچان کر اپنی داستان سنانے لگا”شاہ میر تم نے ٹھیک پہچانا․․․․میں شہیر ہوں․․․․حالات کا مارا ہوا․․․․تم مجھے تعلیم کی اہمیت بتاتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ علم کے حصول کے لئے ساری عمر سر گرم رہنا چاہیے لیکن میں دولت کے غرور میں تمہاری بات سنی ان سنی کر دیتا تھا۔میں نے میٹرک کے بعد تعلیم کو خیر باد کہا اور اپنے والد کے کاروبار میں ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔پڑھائی سے تو میری شروع ہی سے جان جاتی تھی اور میں تمہیں بھی یہی کہا کرتا تھا کہ پیسے کے مقابلے میں تعلیم کی کوئی اہمیت نہیں۔یہ سراسر میری غلطی تھی۔ان ہی دنوں میرے ابا جان کاروبار کے سلسلے میں دوسرے شہر جا رہے تھے کہ کار کا حادثہ ہو گیا اور وہ ہمیں بے یار و مدد گار چھوڑ کر اس دنیا سے چلے گئے۔ہم پر بہت مشکل وقت آپڑا تھا۔میرے ابا جان کا شراکت کا کاروبار تھا۔ان کی وفات کے بعد خدا جانے ان کے شراکت دار نے کیا چکر چلایا کہ وہ سارے کاروبار کا خود ہی مالک بن گیا اور ہم اپنے حصے سے محروم ہو گئے ۔
میری والدہ نے گزر اوقات کے لئے ہمارا بڑا مکان بیچ کر نسبتاً چھوٹا مکان خرید لیا۔رفتہ رفتہ ساری رقم خرچ ہو گئی۔جب حالات نے نوکری کرنے پر مجبور کیا تو میٹرک پاس ہونے کی وجہ سے کوئی اچھی نوکری نہ مل سکی۔میرے پاس کوئی سفارش بھی نہ تھی جو میرے کام آسکتی۔ان حالات نے مجھے محنت مزدوری کرنے پر مجبور کر دیا۔یہ ایسے لمحات تھے جن کا میں تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔میں نے اچھے حالات میں آنکھ کھولی تھی ،میں خواب میں بھی ایسے بدترین حالات کا تصور نہیں کر سکتا تھا۔پچھلے چھ برسوں سے میں ایسے ہی حالات کا شکار ہوں اور آج مجھے تعلیم کی اہمیت کا اندازہ ہو گیا ہے۔
تم ٹھیک کہتے تھے کہ علم ایک روشنی ہے جو نہ صرف اندر کے اندھیرے دور کرتی ہے بلکہ صحیح راستے کی طرف رہنمائی بھی کرتی ہے۔میں نے اس سارے عرصے میں بہت مشکل حالات دیکھے ہیں اور اب میں جان گیا ہوں کہ پیسے ہی سے انسان بڑا آدمی نہیں بنتا۔“یہ کہہ کر شہیر چپ ہو گیا اس کی آنکھوں سے آنسورواں تھے۔
شاہ میر نے اسے حوصلہ دیا اور اس کی ہمت بڑھائی۔شاہ میر تدریس کے با عزت پیشے سے وابستہ تو تھا ہی،وہ مالی طور پر بھی قدرے مستحکم ہو چکا تھا۔لہٰذا اس نے شہیر کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا اور اسے شام کے وقت اپنی اکیڈمی میں کلرک کی نوکری دے دی۔شہیر فارغ وقت میں اپنے تعلیمی مراحل طے کرتا رہا۔آخر ایک دن اپنی محنت سے پرائیویٹ ایم اے کا امتحان پاس کر لیا۔اب وہ بھی نئی نسل کو اپنے علم کی روشنی سے منور کر رہا تھا۔اس نے بھی شاہ میر کے ساتھ مل کر طلبہ کو پڑھانا شروع کر دیا تھا۔یوں چراغ سے چراغ جلنے کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ اب شہیر کے پاس ہمیشہ موجود رہنے والی دولت آگئی تھی۔
Browse More Moral Stories
![Aqal Ka Aala](https://photo-cdn.urdupoint.com/show_img_new/kids/kids_article_images/2021/220x220/pic_05cc7_1612961967.jpg._1)
عقل کا آلہ
Aqal Ka Aala
![Na Shukri Ki Saza](https://photo-cdn.urdupoint.com/show_img_new/kids/kids_article_images/2016/220x220/pic_1474454319.jpg._1)
ناشکری کی سزا
Na Shukri Ki Saza
![Gumshuda Tota](https://photo-cdn.urdupoint.com/show_img_new/kids/kids_article_images/2023/220x220/pic_e98fd_1694696381.jpg._1)
گمشدہ طوطا
Gumshuda Tota
![Jaisa Kro Gay](https://photo-cdn.urdupoint.com/show_img_new/kids/kids_article_images/2018/220x220/pic_a83be_1521628053.jpg._1)
جیسا کرو گے
Jaisa Kro Gay
![Shehad Ki Aik Boond - Pehla Hissa](https://photo-cdn.urdupoint.com/show_img_new/kids/kids_article_images/2021/220x220/pic_16a59_1640264347.jpg._1)
شہد کی ایک بوند (پہلا حصہ)
Shehad Ki Aik Boond - Pehla Hissa
![Shararti Bandar](https://photo-cdn.urdupoint.com/show_img_new/kids/kids_article_images/2020/220x220/pic_e743e_1587052531.jpg._1)
شرارتی بندر
Shararti Bandar
Urdu Jokes
استاد شاگرد سے
Ustad Shagird se
مالی بچے سے
Maali bachy se
نکاح
Nikah
دفن
Dafan
بیٹے نے باپ سے
Bete ne baap se
منیجر صاحب
manager sahib
Urdu Paheliyan
ایک گھڑی قدرت نے بنائی
aik ghari qudrat ny banai
اس نے سب کے کام سنوارے
us ne sab ke kam sanwary
مفت کسی کا ہاتھ نہ آیا
muft kisi ke hath na aaya
سورج کے جانے پر تین
sooraj ke jane per teen
دن کو سوئے رات کو روئے
din ko soye raat ko roye
دھوپ کبھی نہ اسے سکھائے
dhoop kabhi na usy sokhaye