Chawani Ki Barkat - Article No. 1845

Chawani Ki Barkat

چونی کی برکت - تحریر نمبر 1845

اورنگزیب تمہاری اُس چونی میں بہت برکت تھی میں نے اس چونی سے کپاس کا بیج لیا (جسے بنولہ کہتے ہیں) اس سے کپاس کاشت کی اللہ نے اتنی برکت دی کہ بیان سے باہر،چند سالوں میں اللہ تعالیٰ نے بہت کچھ دیا بہت کرم کیا

منگل 8 دسمبر 2020

ساجد کمبوہ پھولنگر
ہمارے کرنسی نوٹوں کے پیچھے لکھا ہوتا ہے ”رزق حلال عین عبادت ہے“ اسلام نے رزق حلال کمانے والے محنت کش مزدور اور ان لوگوں کو خوشخبری سنائی ہے جو رزق حلال کما کر کھاتے ہیں اور اپنے بچوں کو کھلاتے ہیں جو ایسا رزق کماتا اور کھاتا ہے اللہ تعالیٰ کی اس پر بے شمار نعمتیں ،رحمتیں ہوتی ہیں۔
وہ صحت مند،تندرست،اس کی اولاد تابعدار،کامیاب زندگی گزارتی ہے ایسے بندے کو اللہ نے دوست کہا ہے۔ حدیث مبارکہ ہے کہ بہترین کھانا اپنے ہاتھ کی کمائی ہے۔بہت سے انبیاء نے بھیڑیں چرائیں،تجارت کی حضرت داؤد علیہ السلام بھی لوہے کی زریں بناتے تھے۔لوہا اُن کے ہاتھ میں نرم یعنی موم کی طرح ہو جاتا تھا جیسے چاہتے ویسے موڑ دیتے تھے۔

(جاری ہے)

حضرت عیسیٰ علیہ السلام بچپن میں ایک رنگساز (رنگریز) کے پاس رہے خود ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیڑیں چرائیں اور تجارت بھی فرمائی۔


گو پیشے الگ الگ ہوں مگر منافع جائز اور معقول ہو تجارت ہو یا فصلیں وغیرہ بوئے اور کاٹے کبھی دفتر،فیکٹری میں ہو یا مزدوری ہر جگہ رزق حلال ہی بہترین رزق ہے۔
آپ نے اورنگزیب عالمگیر کا نام سنا ہو گا۔بادشاہ وقت تھا وہ قرآن پاک کی کتابت کرکے،ٹوپیاں سی کر روزی کماتا تھا سرکاری خزانے سے اپنے لئے کچھ حاصل نہ کرتا تھا اُن کا ایک واقعہ حاضر خدمت ہے۔
اورنگزیب عالمگیر کے اُستاد محترم کا نام ملاں احمد جیون تھا۔آپ نے اُن سے دینی و دنیاوی فیض حاصل کیا تھا۔اورنگزیب جب بادشاہ بنا اُس نے اپنے اُستاد محترم کو پیغام بھیجا کہ شرف ملاقات بخشے ملاں جیون ایک بہت بڑا مدرسہ چلاتے تھے وہاں ہزاروں بچے قرآن پاک حفظ کرتے اور دینی تعلیم حاصل کرتے جب رمضان کا مہینہ آیا روزہ و اعتکاف کے لئے ملاں ایک مہینہ بچوں کو چھٹی دیتے تھے تاکہ وہ گھر میں آرام وسکون سے روزے رکھیں اور اعتکاف والے اعتکاف کریں۔
مدرسہ ایک ماہ بند رہتا تھا۔ملاں احمد جیون اپنے شاگرد کی دعوت پر بادشاہ سے ملنے اُن کے پاس تشریف لے گئے بڑے عرصہ بعد ملاقات ہوئی تھی اورنگزیب نے اُن کی خدمت کے ساتھ ساتھ اُن سے روحانی فیض بھی حاصل کیا۔ایک ماہ بعد ملاں نے جب واپسی کا ارادہ فرمایا تو اورنگزیب نے مزید رکنے کی استدعا کی۔
سادہ مزاج،خوش گفتار ملاں نے بتایا کہ اب مزید رُک نہیں سکتا کیونکہ بچوں کی تعلیم کا حرج ہو گا اورنگزیب نے اپنے استاد محترم کی خدمت میں ایک چونی ہدیہ پیش کی اور محل کے دروازے پر خدا حافظ کہا۔
اس کے بعد اورنگزیب ملکی معاملات،جنگ و جدل،رعایا کی خدمت میں مصروف ہوگیا یوں چودہ برس کا عرصہ بیت گیا۔ایک دن ایک آدمی نے اورنگزیب کو بتایا کہ بادشاہ سلامت اب آپ کے استاد محترم ملاں احمد جیون بہت بڑے زمیندار بن گئے اب بڑی سی حویلی میں رہتے ہیں شاہانہ انداز ہے،نوکر چاکر ہیں،سفر کے لئے بہترین گھوڑے ہیں اور ملاں اب پہلے والے ملاں نہیں رہے۔
اورنگزیب نے اپنا ایک ایلچی ملاں احمد جیون کے پاس بھیجا اور ملاقات کی خواہش ظاہر کی ملاں نے وعدہ کیا اور رمضان شریف جب مدرسہ بند ہوا اور تشریف لائے نہایت سادہ لباس،مزاج میں عاجزی لگتا نہیں تھا کہ وہ اتنے بڑے زمیندار ہیں اورنگزیب نے اُن کی خوب خدمت سیوا کی اور اُن سے کچھ نہ پوچھا جو اکثر لوگوں نے بتایا تھا کہ اتنے بڑے زمیندار ہو گئے ہیں۔

ایک دن باتوں باتوں میں ملاں جیون نے کہا”اورنگزیب تمہاری اُس چونی میں بہت برکت تھی میں نے اس چونی سے کپاس کا بیج لیا (جسے بنولہ کہتے ہیں) اس سے کپاس کاشت کی اللہ نے اتنی برکت دی کہ بیان سے باہر،چند سالوں میں اللہ تعالیٰ نے بہت کچھ دیا بہت کرم کیا۔ اس پر اورنگزیب نے عرض کی!استاد محترم وہ چونی رزق حلال سے کمائی تھی۔اس پر اورنگزیب نے ایک ایلچی چاندنی چوک میں ایک ہندو بنیا کے پاس بھیجا اور اُسے کہا کہ وہ فلاں سال کے حساب کتاب والا رجسٹر لیتا آئے۔
ایلچی نے جب اس ہندو بنیا جس کا نام اُتم چن تھا کو بادشاہ کا حکم سنایا وہ کھاتہ لئے ہانپتا کانپتا بادشاہ کے حضور حاضر ہو گیا۔اورنگزیب نے کہا کہ وہ فلاں سال کے فلاں مہینے اور فلاں دن کا کھاتہ دیکھے اور حساب کتاب کا بتائے اس پر اُتم چن کو کچھ حوصلہ ہوا اس نے کھاتہ کھولا اور درج تفصیل بتانے لگا۔ملاں احمد جیون اور بادشاہ اس کی تفصیل سننے لگے ایک جگہ پر آکر اُتم چن خاموش ہو گیا،کیا ہوا؟بادشاہ سلامت ایک چونی کسی کو مزدوری میں دی مگر مزدور کا نام نہیں پوچھ سکا۔
اگر اجازت ہو کچھ تفصیل یاد ہے وہ عرض کروں؟
بادشاہ نے اجازت دی اس پر اُتم چن نے کہا بادشاہ سلامت اُس رات موسلا دھار بارش ہوئی میرے گھر میں پانی بھر گیا میرے کمرے کی چھت ٹپکنے لگی تھی میں بہت پریشان ہوا اسی پریشانی میں باہر نکلا ایک آدمی لالٹین پکڑے نظر آیا میں نے اُس سے پوچھا بھائی مزدوری کرو گے؟اُس نے کہا ہاں کر لوں گا میں نے اُس سے مل کر کمرے کا سامان نکالا چھت پر مٹی ڈالی پھر سامان واپس رکھا اس کام میں چار پانچ گھنٹے لگ گئے اتنی دیر میں صبح کی اذان ہونے لگی اس پر اُس مزدور نے کہا سیٹھ صاحب آپ کا کام ہو گیا مجھے اجازت دیں۔
میں نے جلدی سے جیب میں ہاتھ ڈالا جیب میں صرف چونی تھی۔میری مجبور میرے پاس اگر روپیہ نہ سہی اٹھنی ضرور دیتا میرا ضمیر آج بھی کہہ رہا ہے کہ اسے مزدوری کم دی آج پندرہ برس ہونے کو آئے ہیں مجھے وہ عظیم شخص بھولتا نہیں میں نے اسے کہا بھی تھا کہ وہ صبح میری دکان پر آکر مزید مزدوری لے سکتا ہے مگر اس نے کہا مجھے اتنی مزدوری ہی ٹھیک ہے۔اس پر بادشاہ نے اسے جانے کی اجازت دے دی وہ آداب بادشاہی کرکے رخصت ہو گیا۔

جب سیٹھ اُتم چن چلا گیا تو اورنگزیب نے کہا۔استاد محترم میں بھیس بدل کر اکثر گلیوں بازاروں میں جاتا ہوں اور عوام کی خبر گیری کے لئے اُس دن بارش میں لالٹین لئے کھڑا تھاکہ سیٹھ اُتم چن نے مجھے مزدوری کے لئے کہا اور یہ چونی اس کی مزدوری تھی۔اس پر ملاں احمد جیون نے کہا مجھے یقین تھا کہ یہ رزق حلال ہے ورنہ اتنا پھل اتنی برکت کسی اور دولت میں کہاں۔اللہ تعالیٰ رزق حلال کمانے والوں پر کرم کرتا ہے۔اس پر بادشاہ نے کہا۔استاد محترم میری کوشش ہے کہ قرآن پاک کی کتابت کرکے مصلے بنا کر اور ٹوپیاں سی کر گزارہ کرتا ہوں اور شاہی خزانہ کو امانت سمجھتا ہوں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو رزق حلال دے۔(آمین)

Browse More Moral Stories