Gaoon Ka Doctor - Article No. 874

Gaoon Ka Doctor

گاوٴں کا ڈاکٹر - تحریر نمبر 874

”آج کی یہ اہم میٹنگ کچھ دن بعد جنت پورہ گاوٴں میں لگائے جانے والے میڈیکل کیمپ کے بارے میں ہے۔ ہم وہاں پھیلی ہوئی وبائی بیماریوں کے خاتمے کے لیے کوشش کریں گے

جمعرات 10 دسمبر 2015

”آج کی یہ اہم میٹنگ کچھ دن بعد جنت پورہ گاوٴں میں لگائے جانے والے میڈیکل کیمپ کے بارے میں ہے۔ ہم وہاں پھیلی ہوئی وبائی بیماریوں کے خاتمے کے لیے کوشش کریں گے۔“ ڈاکٹر خالد نے میٹنگ کا آغاز کرتے ہوئے کہا اور پھر انہیں تفصیل سے کیمپ کے بارے میں بتانے لگے۔
آخر میں انھوں نے ڈاکٹروں کو سوالات کی اجازت دی تو سب سے پہلے عبدالعزیز نے کہا : ”سر ! جنت پورہ سے کچھ دور ایک اور گاوٴں علی پور بھٹیاں واقع ہے۔
وہاں بھی کچھ بیماریاں پھیلی ہوئی ہیں۔ ہمیں وہاں بھی میڈیکل کیمپ لگانا چاہیے۔“
ڈاکٹر خالد نے دوسرے ساتھی ڈاکٹروں سے مشورہ کیااور جواب ہاں میں پا کر وہاں بھی میڈیکل کیمپ لگانے کا اعلان کر دیا۔ جنت پورہ میں ڈاکٹر خالد، ڈاکٹر وقار اور ڈاکٹر سمیع کی ڈیوٹی لگی تھی۔

(جاری ہے)

جب کہ علی پور بھٹیاں کے لیے ڈاکٹر عبدالعزیز اور ڈاکٹر عبدالمجید مقرر کیے گئے تھے۔


سلیم کے گاوٴں کا نام علی پور بھٹیاں تھا۔ وہاں گزشتہ دنوں کچھ وبائیں پھوٹ پڑی تھیں اور گاوٴں کے بہت سے لوگ ان کی لپیٹ میں آگے تھے،جن میں سلیم کے والدین بھی شامل تھے ۔ یہاں وبائی امراض پر قابو تو پایا جا سکتا تھا، مگر علاج میسر نہیں تھا، انھی بیماریوں نے گاوٴں کے لوگوں کو افلاس اور غربت کا شکار بھی کر دیا تھا۔
سلیم اپنے گھر کے صحت میں نیم کے درخت تلے بیٹھا تھا جب دروازہ کھلا اور اماں بشیراں اندر داخل ہوئیں۔
تیز چلنے کی وجہ سے ان کی سانس پھولی ہوئی تھی۔ سلیم نے پوچھا:” اماں! خیر تو ہے؟“
اماں نے کہا ! : ” ہاں بیٹا! اندر سے اپنے اماں ،ابا کو بلا لاوٴ۔ اسپتال والے (ڈاکٹر) آئے ہوئے ہیں۔ انھوں نے کیمپ لگایاہے جلدی چلو، نہیں تو پھر بھیڑ ہو جائے گی۔“
سلیم یہ سنتے ہی بھاگ کر اپنی امی اور ابا کو بلا لایا۔ کچھ دیر میں وہ سب بڑے میدان کی طرف روانہ ہو چکے تھے کہاں ڈاکٹروں نے کیمپ لگایا تھا۔

سلیم کے والدین کیمپ پہنچ کر معانئے کے لیے لائن میں لگ گئے تھے اور سلیم ان سے کچھ دور کھڑا سوچوں میں گُم ہو گیا تھا۔ شاید وہ اپنے گاوٴں کی خوش حالی کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ تبھی مریضوں کا معائنہ کرتے ڈاکٹر عبدالعزیز نے ایک لمحے کے لئے سر اُٹھایا تو ان کی نظر سلیم پر پڑی، ان کی کوئی اولاد نہیں تھی، نہ جانے کیوں انہیں اس لڑکے کے معصوم چہرے میں اپنے بیٹے کا عکس محسوس ہوا۔
انھوں نے سر جھٹکا اور دوبارہ مریضوں کا معائنہ کرنے میں مصروف ہو گئے۔ ان کا ایک ہی بیٹا تھا۔ جو ایک حادثے میں ہلاک ہو گیا تھا۔
سلیم اپنی سوچوں میں گُم کھڑا تھا کہ اسے اپنی امی کی آواز سنائی دی: ”سلیم بیٹا ! کہاں گُم ہو؟ گھر نہیں جانا کیا؟“ وہ چونکا اور ان کے ساتھ چل پڑا۔
سلیم اپنی ماں کے ساتھ صحت میں بیٹھا باتیں کر رہا تھا کہ اس کے ابا کے کراہنے کی آواز آئی۔
وہ اندر بھاگا، امی پیچھے آرہی تھیں۔ اس کے ابا کی حالت بہت خراب تھی۔ سلیم کے ذہن میں ایک خیال آیا، اس نے امی کو ابا کی دیکھ بھال کرنے کا کہا اور خود میڈیکل کیمپ کی طرف دوڑ لگا دی۔ ڈاکٹر عبدالعزیز سامنے ہی کھڑے تھے۔ اس نے انھیں ساری بات بتائی تو وہ فوراََ اپنی بریف کیس اُٹھا کر اس کے ساتھ روانہ ہو گئے۔ گھر پہنچتے ہی انھوں نے مختلف آلات سے اس کے ابا کا معائنہ کیا اور انہیں کچھ دائیں کھلائیں۔
پھر امی کو وہیں چھوڑ کر وہ سلیم کے ساتھ باہر صحن میں آبیٹھے۔ انھوں نے سلیم سے پوچھا:”تمہارا نام کیا ہے؟“
سلیم نے جواب دیا:”میرا نام سلیم ہے۔“
انھوں نے پوچھا:” تم کس جماعت میں پڑھتے ہو؟“
سلیم نے کہا:”میں آٹھویں جماعت میں پڑھتا ہوں:“
ڈاکٹر عبدالعزیز نے دوبارہ سوال کیا:”تم بڑے ہو کر کیا بنو گے؟“
سلیم بولا:” میں ڈاکٹر بننا چاہتا ہوں لیکن ابا کہتے ہیں کہ ڈاکٹر بننے کے لیے بہت پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
وہ تو ہمارے پاس نہیں ہیں۔“
ڈاکٹر عبدالعزیز نے ایک پل کو سوچا پھر کہا:” میں تمہیں ڈاکٹربناوٴں گا“
سلیم حیرت سے بے ہوش ہوتے ہوتے بچا:”آپ؟“
”ہاں ! میں۔ تم آج سے میرے بیٹے ہو۔ ہمارا کیمپ ایک ہفتے بعد ختم ہو جائے گا۔ پھر میں تمہیں تمہارے والدین کے ساتھ شہرلے جاوٴں گا۔ “ ڈاکٹر عبدالعزیز اسے خوش خبری سنا کر چلے گئے تھے اور وہ وہیں ساکت بیٹھا رہ گیا تھا۔

ڈاکٹر عبدالعزیز نے سلیم کو شہر میں ایک اچھ اسکول میں داخل کرادیا تھا۔ سلیم محنت کر کے ہر مرتبہ جماعت میں اول آتا تھا۔ پھر وہ دن بھی آیا جب اس کے اچھے نمبروں کی بدولت اس کا داخلہ ایک میڈیکل کالج میں ہو گیا تھا۔ ڈاکٹر عبدالعزیز اس کی قدم قدم پر رہ نمائی کرتے تھے اور اسے گھر پر پڑھاتے بھی تھے۔ دن گزرتے گئے۔ سلیم ڈاکٹر بن گیا اور شہر کے ایک بڑے سرکاری اسپتال سے منسلک ہو گیا۔

انھی دنوں اسے گاوٴں میں وبا پھوٹنے کی اطلاع ملی تو اس نے فوراََ اسپتال میں اپنے انچارج سے بات کی اور کچھ ہی دنوں میں اپنے ساتھی طبی عملے کولے کر گاوٴں روانہ ہو گیا۔ ڈاکٹر سلیم کے والدین بھی ساتھ تھے مگر ڈاکٹر عبدالعزیز مصروفیت کی وجہ سے ان سب کے ساتھ نہ جا سکے۔وہ اپنے گھر پہنچا تو اس کا پرجوش استقبال کیا گیا۔ آض وہ اپنے خواب کی تعبیر اور خدمت کے جذبے کے ساتھ ایک بار پھر اپنے پیاروں کے درمیان موجود تھا اب وہ ہفتے میں دو دن گاوٴں کے لوگوں کا مفت علاج کیا کرتا تھا۔

Browse More Moral Stories