Ghore Ka Sooda - Article No. 1535

Ghore Ka Sooda

گھوڑے کا سودا - تحریر نمبر 1535

کافی عرصہ پہلے کی بات ہے۔محلہ صوفی کے خواجہ سعد اللہ کے پاس یوں تو کافی گھوڑے اور گائے بھینسیں تھیں،جنھیں وہ بیچ چکے تھے۔اب صرف ایک گھوڑا رہ گیا تھا،جسے وہ فروخت کرنا چاہتے تھے۔

پیر 7 اکتوبر 2019

شکیل صدیقی
کافی عرصہ پہلے کی بات ہے۔محلہ صوفی کے خواجہ سعد اللہ کے پاس یوں تو کافی گھوڑے اور گائے بھینسیں تھیں،جنھیں وہ بیچ چکے تھے۔اب صرف ایک گھوڑا رہ گیا تھا،جسے وہ فروخت کرنا چاہتے تھے۔اس کی فروخت کے لیے انھوں نے خاص خاص لوگوں سے کہہ رکھا تھا،تاکہ معزز افراد آکر سودے بازی کر سکیں۔
مشہور مصنف اے ۔حمید کے والد چودھری صاحب کے پاس رئیسی ٹانگہ تھا۔

جس میں ان کے اہل خانہ سوار ہو کر سیر کرتے تھے ،لیکن گھوڑا نہیں تھا کہ جس پر وہ تن تنہا بیٹھ کر لوگوں پر رعب جماتے ۔چنانچہ انھوں نے سوچا خواجہ صاحب کا گھوڑا خریدلیتے ہیں۔ یہ بات انھیں اپنے ایک ملازم سے معلوم ہوئی تھی۔پہلے زمانے میں یہ اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا کہ معزز افراد اپنی چیزیں فروخت کریں۔

(جاری ہے)

وہ ایک روز دو تین افراد کو لے کر خواجہ صاحب کی حویلی پر پہنچ گئے۔


ملازم اللہ رکھا انھیں جانتا تھا۔اس نے پانچ چھے مونڈھے حویلی سے لاکردرختوں کے سائے میں رکھ دیے۔پھر وہ خواجہ صاحب کو خبر کرنے چلا گیا۔وہاں ایک گھوڑا بیری کے درخت کے نیچے کھڑا دکھائی دیا۔دور سے یہ لگا کہ گھوڑے کا ایکسرے لے کر اسے وہاں لٹکا دیا گیا ہے۔یعنی اس کی پسلیاں صاف نظر آرہی تھیں،جو چاہتا انھیں گن سکتا تھا۔چودھری صاحب اس کے پاس گئے ،تاکہ اس کا جائزہ لے سکیں۔
پتا چلا کہ گھوڑے کی کمر میں رسی ڈال کر درخت کی شاخ سے باندھ دی گئی ہے۔
چودھری صاحب نے سوال کیا:”اس کی کمر میں رسی کیوں باندھی گئی ہے؟“
ایک ملازم نے ہاتھ جوڑ کر جواب دیا:”جناب !اگر رسی کھول دی گئی تو گھوڑا گر پڑے گا ۔یہ سہارے کے لیے ہے۔“
چودھری صاحب اس کی بات بالکل نہیں سمجھتے۔اگر سمجھ گئے ہوں تو انھوں نے بات نظر انداز کردی ،اس لیے کہ انھوں نے نہ تو کسی سے سنا تھا اور نہ کسی کتاب میں پڑھا تھا کہ گھوڑے کی کمر میں رسی باندھی جاتی ہے ،تب وہ کھڑے ہو پاتے ہیں۔

خواجہ سعد اللہ صاحب کو بلایا گیا،تاکہ قیمت پر بات چیت شروع ہو سکے۔خواجہ صاحب حقہ گڑ گڑاتے ہوئے باہر آئے اور انھوں نے گرم جوشی سے چودھری صاحب سے مصافحہ کیا۔وہ اچھے موڈ میں تھے۔سہ پہر کا وقت تھا اور ٹھنڈی ہوا چلنے سے موسم خوش گوار ہو گیا تھا۔اس کے علاوہ خواجہ سعد اللہ نے اپنی کوٹھی کے آنگن میں برگد کے درخت لگوائے ہوئے تھے ،اس لیے سایہ تھا۔
خواجہ صاحب نے ملازم کو حکم دیاکہ لسی بنا کر لائے۔دونوں طرف کے آدمی ملا کر چھے افرادتھے،اس لیے ملازم تھوڑی سی دیر میں چھ گلاس لسی بنا کر لے آیا۔
چودھری صاحب نے بات شروع کی:”خواجہ صاحب!میں آپ کا گھوڑا خریدنے آیا ہوں ۔کیا دام ہوں گے اس کے؟“
”یہ ملک تقسیم ہونے سے کافی پہلے کا واقعہ ہے،جب دھیلے اور کوڑیاں چلا کرتے تھے ،یعنی ایک پیسے کی بھی قدروقیمت تھی۔

”پانچ روپے۔“خواجہ صاحب نے اپنی مونچھوں پر ہاتھ پھیر کر کہا۔
”پانچ روپے میں تو اونٹ مل جاتا ہے۔“چودھری صاحب نے چونک کر کہا اور گھوڑے کو جا کر ایک بار پھر نزدیک سے دیکھا:”ہمارے آپس کے تعلقات تو کافی پرانے ہیں ۔اس کا لحاظ تو کیجیے۔“
خواجہ صاحب کچھ اور کہنا چاہتے تھے کہ حویلی کے اندرونی دروازہ کھلا اور دو بچے وہاں شور مچاتے ہوئے آگئے۔
وہ دونوں خواجہ صاحب کے پوتے تھے۔شوخ اور شرارتی۔ایک کی عمر پانچ برس اور دوسرے
کی تین برس تھی۔بڑ الڑکا جس کا نام وحید تھا،ان کی گود میں سوار ہو گیا:”دادا!کیا آپ اسے بیچ رہے ہیں؟“اس نے سوال کیا۔
”ہاں بیٹا!“خواجہ صاحب نے جواب دیا۔”کیوں ؟“
”اسے بیچ ہی دیں،اس لیے کہ یہ گھوڑا نہیں گدھا ہے۔“
چودھری صاحب نے بے چینی سے پہلوبدلا۔
لسی انھیں بالکل اچھی نہیں لگ رہی تھی۔
‘تم یہ کیا کہہ رہے ہو؟“خواجہ صاحب نے غصیلے لہجے میں کہا۔“گھوڑا گدھا کیسے ہو سکتا ہے؟“
”یہ گدھے پن کی حرکتیں کرتاہے۔“ننھے وحیدنے کہا:”میں اس سے ادھر چلنے کو کہتا ہوں تو یہ اُدھر چلنے لگتا ہے۔چلتا ہے ،دوڑنا تو اسے آتا ہی نہیں۔“
”بس چپ رہو۔یہ تمھاری بات نہیں سمجھا ہو گا۔
“خواجہ صاحب نے اسے ڈانٹا۔
”خواجہ صاحب !یہ اتنا کمزور کیوں ہے؟“چودھری صاحب نے سوال کیا۔
”ارے بھئی!ہماری حویلی کے نزدیک ایک مسجد ہے۔وہ عظ وغیرہ غور سے سنتاہے ۔چنانچہ اس نے پچھلے ماہ روزے بھی رکھ لیے تھے،اس لیے اس کی طبیعت ڈھیلی ہو گئی۔انھوں نے بہانہ بنایا۔چودھری صاحب”ہوں“کر کے رہ گئے۔”میں اسے بادام پستے اور کشمش کھلاؤں گا تو طاقتور ہوجائے گا۔
ٹھیک ہے آپ مناسب دام تو بتائیے۔“
خواجہ صاحب نے چار روپے اور پھر تین روپے کہے،لیکن چودھری صاحب راضی نہیں ہوئے۔بہر حال سودا ایک روپے بارہ آنے پر ہو گیا۔چودھری صاحب نے گھوڑا خریدلیا ۔
اسے درخت سے کھولنے لگے تو خواجہ صاحب کا ملازم اللہ رکھا نزدیک جا کر بولا:”حضور !ایسے نہیں ۔“
”تو پھر کیسے؟“چودھری صاحب نے پوچھا۔

”ٹانگے میں جوت کرلے جائیں۔“اس نے جواب دیا۔
اس گھوڑے کو ٹانگے میں جوتا گی۔خواجہ صاحب کے ملازم اللہ رکھا نے پھر گھوڑے کی رسی کھول دی۔وہ کانپا ،جھر جھری سی لی اور لڑکھڑا کر گر پڑا۔مجبوراً چودھری صاحب اسے ریڑھی پر ڈال کر اپنی حویلی پرلے آئے اور اپنے ملازم رب نواز کو ہدایت دینے لگے کہ اسے صبح سے شام تک چائے کے علاوہ بادام پستے اور کشمش بھی کھلائی جائے ،تاکہ یہ ایک ہفتے میں طاقتور ہو جائے ۔
پھر وہ اس پر سوار ہو کر قصبے میں گھومتے پھریں۔
پتانہیں کیا ہواکہ رات کو گھوڑا مر گیا۔چودھری صاحب کو بہت افسوس ہوا۔ ان کے سارے خواب چکنا چور ہو گئے۔انھوں نے رب نواز کو حکم دیاکہ گھوڑے کو گلی میں پھنک دیا جائے۔رب نواز نے ایسا ہی کیا۔
صبح کار پوریشن والے آئے اور انھوں نے مردہ گھوڑا وہاں دیکھ کر چالان کر دیا۔گھوڑا ایک روپیہ بارہ آنے کا تھا اور میونسپلٹی نے پچاس روپے کا چالان کر دیا تھا۔

Browse More Moral Stories