Haqeeqi Khazana - Article No. 1866

Haqeeqi Khazana

حقیقی خزانہ - تحریر نمبر 1866

سہیل اسی خیال میں رہتا تھا کہ کسی دن کوئی بزرگ یا کوئی پری کسی خزانے کا پتا اسے بتا دے گی اور وہ دنیا کا امیر ترین آدمی بن جائے گا

جمعرات 7 جنوری 2021

مریم شاہ
سہیل اور سعدیہ بہن بھائی تھے۔سہیل نویں جماعت میں تھا اور سعدیہ گیارہویں میں پڑھتی تھی۔سہیل خوابوں کی دنیا میں رہنے والا لڑکا تھا، جب کہ سعدیہ بہت سمجھدار لڑکی تھی۔سست مزاج سہیل اسی خیال میں رہتا تھا کہ کسی دن کوئی بزرگ یا کوئی پری کسی خزانے کا پتا اسے بتا دے گی اور وہ دنیا کا امیر ترین آدمی بن جائے گا۔
ایک دن وہ بستے میں سے کتابیں نکال رہا تھا کہ ایک سنہرے رنگ کا پلاسٹک کا ایک چھوٹا سا گلدان نظر آیا،جس میں پھول کی جگہ ایک کاغذ اٹکا ہوا تھا۔وہ حیران تھا کہ یہ گلدان اس نے پہلے کہیں نہیں دیکھا۔اس نے کاغذ کھول کر دیکھا،لکھا تھا:”یہ بات ہمارے علم میں آئی ہے کہ آپ ایک خزانہ پانا چاہتے ہیں ،تاکہ آپ کی ساری مالی مشکلات حل ہو سکیں۔

(جاری ہے)

خزانہ ہر ایک کو نہیں ملتا،وہ صرف خاص لوگوں کو ملتا ہے۔

اگر آپ ان خاص لوگوں میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو اسی کاغذ پر ہاں لکھ کر اپنے گھر کے اسٹور روم میں رکھ دیں۔اُمید ہے کہ یہ سب ہمارے درمیان راز رہے گا۔“(پرستان)
سہیل کو یقین نہیں آرہا تھاکہ یہ سب سچ ہے۔اس نے اسی کاغذ پر ”ہاں“ لکھ کر اپنے گھر کے اسٹور روم میں ایک کونے میں رکھ دیا۔سارا دن وہ اسٹور روم کو تکتا رہا۔اگلے دن اسکول جانے سے پہلے وہ بھاگ کر اسٹور روم میں گیا۔
گلدان اسی طرح پڑا ہوا تھا۔کیا پرستان سے کوئی نہیں آیا؟اس نے مایوسی سے سوچا اور آگے بڑھ کر سنہرا گلدان اُٹھا لیا۔اس میں کاغذ اسی طرح تہہ کیا ہوا رکھا تھا۔اس نے کاغذ نکالا اور کھول کر دیکھا۔اگلے ہی لمحے وہ خوشی سے اُچھل پڑا تھا۔یہ کل والا کاغذ نہیں تھا۔یہ دوسرا کاغذ تھا جس پر دوسرا پیغام لکھا ہوا تھا:”ہاں“ لکھنے کا مطلب ہے کہ آپ خاص لوگوں میں شامل ہونا چاہتے ہیں،مگر’عام‘سے مختلف ہونے کے لئے کچھ شرائط پوری کرنا ضروری ہیں۔
کیا آپ تیار ہیں ان شرائط کو ماننے کے لئے؟’ہاں‘یا ’نہیں‘اسی کاغذ پر لکھ کر گلدان اسی جگہ رکھیے۔“(پرستان)
سہیل نے جلدی سے جیب سے قلم نکال کر ’ہاں‘لکھا۔کاغذ کو تہہ کیا اور گل دان اسی جگہ رکھ دیا۔سارا دن وہ انہی خیالوں میں ڈوبا رہا۔اگلے دن وہ پھر بھاگ کر اس کمرے میں گیا۔اس دفعہ’پرستان‘سے بھیجے گئے خط نے سہیل کو حیران کر دیا تھا۔
خط میں لکھا تھا کہ اگر وہ خاص لوگوں میں شامل ہونا چاہتا ہے تو پہلی شرط یہ تھی کہ اسے محنت کرنا ہو گی۔پڑھائی میں دل لگانا ہو گا۔اگر اس نے ایک خاص حد سے زیادہ نمبر نہ لیے اور سارے نصاب کو دل و دماغ میں نہ بیٹھایا تو پرستان اس سے رابطہ کرنا بند کر دے گا اور یوں اسے خزانہ نہیں ملے گا۔
سہیل شش و پنچ میں پڑ گیا تھا۔اسے پہلے ہی پڑھنا اچھا نہیں لگتا تھا اور اب پرستان نے پڑھائی میں محنت کرنے کی شرط رکھ دی ہے۔
اگر بات صرف زیادہ نمبر لینے کی ہوتی تو وہ رٹا لگا کر ڈھیر سارے نمبر لا سکتا تھا ،مگر پرستان نے صاف طور پر لکھا تھا کہ صرف نمبر نہیں حاصل کرنے ،بلکہ دل و دماغ سے سمجھنا بھی ہے،یعنی علم کو صحیح معنوں میں حاصل کرنے کی بات تھی۔سارا دن سہیل اس بات پر سوچتا رہا۔اس نے سوچا کہ پرستان سے حاصل ہونے والا خزانہ خاص لوگوں کو ملتا ہے اور وہ کوئی معمولی خزانہ نہیں ہو سکتا اور نہ خزانہ حاصل کرنے والے لوگ معمولی ہو سکتے تھے۔
اگر وہ دل لگا کر پڑھائی کرے تو نہ صرف اسے خزانہ ملے گا،بلکہ وہ پڑھائی سے فائدہ بھی حاصل کرے گا۔اس رات سہیل نے اسی کاغذ پر ’ہاں‘لکھا۔
اب سہیل نے پڑھائی میں محنت کرنی تو شروع کی،مگر وہ تو محنت کرنے کا عادی ہی نہیں تھا۔اس کا سارا دن پڑھائی میں گزر جاتا۔کبھی کبھار تو وہ اپنے معمول سے تنگ آجاتا،کیونکہ اس نے کبھی اتنے ذوق و شوق سے نہیں پڑھا تھا۔
خیر،دن گزرتے گئے۔اس دوران وہ ہر صبح اس کمرے میں رکھے سنہرے گلدان کے اندر جھانکنا نہ بھولتا۔کبھی کبھار اس کے لئے سنہرے گلدان کے اندر پرستان سے خط لکھا ہوا ملتا۔ جس میں اسے محنت کرنے پر شاباشی وغیرہ دی جاتی اور اس کا حوصلہ بڑھانے کے لئے کچھ سطور لکھی ہوتیں۔اگر کبھی وہ پڑھنے میں ذرا سی کوتاہی برتتا تو اسے خط میں تنبیہ کی جاتی کہ اگر وہ خزانہ حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے پڑھائی میں لاپرواہی چھوڑنی پڑے گی۔
(جاری ہے)

Browse More Moral Stories