Jamia Al-Azhar - Article No. 1884

Jamia Al-Azhar

جامعتہ الازہر - تحریر نمبر 1884

جامعتہ الازہر بھی ایسی ہی ایک جگہ ہے،جس کی تاریخ ایک ہزار سال سے بھی زیادہ پرانی ہے

جمعرات 28 جنوری 2021

اسد اسلم
”ارے بچو!آپ دونوں ابھی تک سوئے نہیں؟“دادا ابو نے مریم اور عبداللہ کو موبائل فون پر گیم کھیلتے ہوئے دیکھا تو کہا:”آپ دونوں تو اچھے بچوں کی طرح رات کو جلدی سو جاتے ہیں،پھر آج ایسا کیوں نہیں ہوا بھئی؟“دادا ابو نے دونوں سے سوال کیا۔
”دادا ابو!ہمیں نیند نہیں آرہی ہے اور کل ہمارے اسکول کی چھٹی بھی ہے،اس لئے ہم نے امی ابو سے تھوڑی دیر گیمز کھیلنے کی اجازت لی ہے۔
“مریم نے جواب دیا۔
”اچھا،تو یہ بات ہے۔“دادا ابو مسکرائے:”لیکن موبائل فون پر گیمز ہی کیوں؟آپ دونوں کوئی کتاب یا رسالہ بھی تو پڑھ سکتے ہیں۔“دادا ابو نے مشورہ دیا۔
”جی دادا ابو!آپ نے ٹھیک کہا،لیکن ہمارے پاس جتنی بھی کتابیں اور رسالے ہیں،وہ ہم پہلے ہی پڑھ چکے ہیں۔

(جاری ہے)

“اس بار عبداللہ نے جواب دیا۔
”اچھا،چلیے کوئی بات نہیں۔

آج کیوں نہ میں آپ کو ایک ایسی جگہ کے بارے میں بتاؤں،جس کے بارے میں شاید آپ نے پہلے سنا یا پڑھا نہ ہو؟“دادا ابو نے دلچسپ انداز میں سوال کیا۔
”ضرور دادا ابو!ضرور بتائیے۔ہم تو خود گیمز کھیل کھیل کر بور ہو رہے ہیں۔“مریم نے خوش ہو کر جواب دیا۔دونوں بچے موبائل فون ایک طرف رکھ کر دادا ابو کی طرف متوجہ ہو گئے۔”اچھا تو میں آپ دونوں کو دنیائے اسلام کی ایک ہزار سال پرانی درس گاہ’جامعتہ الازہر‘کے بارے میں بتاتا ہوں۔
یہ مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں واقع ہے۔“
دادا ابو نے بات شروع کی۔
”دادا ابو!یہ تو وہی ملک ہے نا،جہاں اہرام مصر بھی ہیں!ہماری استانی نے بتایا تھا کہ وہ دنیا کے ساتھ عجائبات میں سے ایک ہے۔“مریم نے جلدی جلدی کہا۔
”اور وہاں تو بہت بڑا دریا،دریائے نیل بھی ہے،ہمارے قاری صاحب نے بتایا تھا کہ اس کا ذکر قرآن مجید میں بھی آیا ہے۔
“عبداللہ نے بھی اپنی معلومات سے آگاہ کیا۔
”بالکل!آپ دونوں نے ٹھیک پہچانا،یہ وہی مصر ہے۔اس ملک کی تاریخ بہت ہی پرانی ہے اور یہی وجہ ہے کہ تاریخ دان اور سیاح یہاں کی یادگار عمارتوں میں خاص دلچسپی رکھتے ہیں ان عمارتوں سے قدیم تہذیب اور ثقافت کا پتا چلتا ہے۔“دادا ابو نے بچوں کی بڑھتی ہوئی دلچسپی دیکھی تو اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہنے لگے:”جامعتہ الازہر بھی ایسی ہی ایک جگہ ہے،جس کی تاریخ ایک ہزار سال سے بھی زیادہ پرانی ہے۔
ساتویں صدی عیسوی میں خلیفہ دوم حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں ہی مسلمانوں نے مصر فتح کر لیا تھا۔دسویں صدی عیسوی میں قاہرہ میں ایک مسجد کی بنیاد رکھی گئی۔ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحب زادی حضرت فاطمتہ الزہرہ رضی اللہ عنہا کے نام سے منسوب کرتے ہوئے اس مسجد کا نام”الازہر“رکھا گیا۔اس مسجد کے ساتھ ایک مدرسہ بھی بنایا گیا،جو ایک ہزار سال گزرنے کے بعد آج ایک یونیورسٹی یعنی جامعہ کی صورت میں موجود ہے۔
“دادا ابو نے بچوں کی طرف دیکھا جو بہت غور سے ان کی باتیں سن رہے تھے۔
”دادا ابو!اس یونیورسٹی میں کیا کیا پڑھاتے ہیں؟“
مریم نے سوال کیا۔
”بیٹا!ابتدا میں یہاں صرف سینتیس اساتذہ تھے جو قرآن مجید،اسلامی قوانین،عربی زبان و قواعد وغیرہ کی تعلیم دیتے تھے،مگر اب یہاں سینکڑوں معلمین ہیں جو جدید سائنسی علوم مثلاً فلکیات،طب،طبیعات،کیمیا،انجینئرنگ اور کامرس وغیرہ بھی پڑھاتے ہیں۔

”دادا ابو!یہ تو بہت ہی زبردست بات ہے کہ اس جامعہ سے پڑھنے والے عالم دین پوری دنیا میں موجود ہیں۔“عبداللہ نے کہا۔
”جی بیٹا!اور یہی وجہ ہے کہ اس درس گاہ کے فتوے پوری دنیا میں مستند سمجھے جاتے ہیں اور یہ دنیا میں سب سے زیادہ اثر و رسوخ کی حامل جامعات میں سے ایک ہے۔“دادا ابو نے جواب دیا۔
بچے بڑے انہماک سے ساری باتیں سن رہے تھے۔
دادا ابو نے اپنی بات جاری رکھی:”ناصرف مسلمان،بلکہ غیر مسلم بھی ا س کی عظمت کو مانتے ہیں۔1798ء میں جب فرانسیسی فوجوں نے نپولین بونا پارٹ کی سپہ سالاری میں مصر پر حملہ کیا تو وہ جامعتہ الازہر کے معیار تعلیم اور نظم و نسق کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔اس نے اپنی ڈائری میں جامعتہ الازہر کا خاص طور پر ذکر کیا اور وہاں کے اساتذہ اور طالب علموں کی بہت تعریف لکھی۔
بعد میں جب مصر پر حکومت کرنے کا معاملہ آیا تو نپولین نے ایک مشاورقی کونسل بنائی،جس میں جامعتہ الازہر کے بڑے امام بھی شامل تھے۔“
”دادا ابو!کیا ہم بھی جامعتہ الازہر جا سکتے ہیں؟“عبداللہ نے پوچھا۔
”جی بیٹا!نہ صرف اس قدیم درس گاہ کو دیکھنے جا سکتے ہیں،بلکہ تعلیم حاصل کرنے بھی جا سکتے ہیں۔“شکریہ دادا ابو!آپ نے آج ہمیں بہت ہی معلوماتی باتیں بتائیں۔“مریم نے خوش ہو کر کہا۔

Browse More Moral Stories