Khargosh K Karname - Article No. 1469

Khargosh K Karname

خرگوش کے کارنامے - تحریر نمبر 1469

بہت دن گزرے ایک جنگل میں سب جانور اکٹھے رہا کرتے تھے۔وہ سب ایک ہی تھالی میں کھانا کھاتے،ایک ہی چشمے میں پانی پیتے،گرمیوں میں مل جل کرکام کرتے اور سردیوں میں ایک ہی غار میں آرام کرتے۔

بدھ 10 جولائی 2019

بہت دن گزرے ایک جنگل میں سب جانور اکٹھے رہا کرتے تھے۔وہ سب ایک ہی تھالی میں کھانا کھاتے،ایک ہی چشمے میں پانی پیتے،گرمیوں میں مل جل کرکام کرتے اور سردیوں میں ایک ہی غار میں آرام کرتے۔اُن سب جانوروں کو مکھن کھانے کا بڑا شوق تھا۔اُن کے مکھن کا ذخیرہ بھی ایک ہی تھا۔جب کسی کو ضرورت ہوتی تو وہ تھوڑا سا مکھن نکال کر کھا لیتا۔
ایک دن انہوں نے دیکھا کہ کسی نے بہت سارا مکھن چرالیا ہے ۔

سب جانوروں کو بڑی تشویش ہوئی۔انہوں نے فیصلہ کیا کہ ہر روز ایک جانور ساری رات جاگ کر پہرادے۔پہلی باری ریچھ کی آئی۔وہ مکھن کے مرتبان کے سامنے بیٹھ گیا۔بیٹھے بیٹھے ریچھ کی ٹانگیں درد کرنے لگیں۔رات کے پچھلے پہر باہر کھُسر پھُسر کی آواز سنائی دی۔ریچھ کے کان کھڑے ہو گئے۔

(جاری ہے)

کوئی آہستہ آہستہ کہہ رہا تھا،
”بیری کے درخت والے چھتے میں سوراخ ہو گیا ہے۔

سارا شہد بہا جارہا ہے ،بھیار یچھ ہوتے تو انہیں بتا دیتا۔“
ریچھ کو شہد کھانے کا بڑا شوقین تھا۔وہ سب کچھ بھول بھال کر باہر کی طرف لپکا۔اُدھر خرگوش اندر آیا اور مکھن کا مرتبان نکال کر جی بھر کے مکھن کھایا اور ریچھ کے آنے سے پہلے باہر چلا گیا۔بے چارا ریچھ ناکام واپس لوٹا۔
اگلی صبح جانوروں نے مکھن کم پایا تو انہوں نے ریچھ کو بہت برا بھلا کہا اور سزا کے طور پر سال بھر کے لیے اس کا مکھن بند کر دیا۔
اگلے دن کتے کی باری تھی۔وہ دن بھر پہر ادیتے دیتے تھک گیا۔رات کو پھر خرگوش آیا۔اس نے کتے کو زور سے سلام کیا،
”ہیلو بھیا بھوں بھوں!کیسے مزاج ہیں․․․․؟“کتابولا،صبح سے بیٹھے بیٹھے تنگ آگیاہوں۔“
خرگوش بولا،”تو آؤ ذرا دوڑ لگائیں۔“
کتاکو دوڑ نے کا بہت شوقین تھا۔جھٹ تیار ہو گیا۔خرگوش نے کہا،”میں گھاس میں دوڑ تا ہوا لمبا چکر کاٹ کر پل تک جاتا ہوں، تم سڑک سے جاؤ،دیکھیں پہلے کون ہاتھ لگا کر واپس لوٹتا ہے۔

کتامان گیا۔دوڑ شروع ہوئی۔خرگوش گھاس میں کچھ دور دوڑا ،پھر دُبک کر بیٹھ گیا۔جب کتا کافی دور نکل گیا،تب وہ اطمینان سے باہر نکلا اور اس نے گودام میں جا کر جی بھر کے مکھن کھایا اور پھر گھاس میں چھپ گیا۔اتنے میں کتا دوڑ لگا کر واپس آگیا ۔اس نے ہانپتے ہوئے آواز دی،”اے خرگوش بھیا!کہا ہو تم․․․․؟“
خرگوش نے گھاس سے سرنکالا اور جھوٹ موٹ ہا نپتا ہوا باہر آیا اور کتے سے ہاتھ ملا کر گھر کو چل دیا۔
اگلے دن بے چارہ کتا بھی سال بھر کے لیے مکھن سے محروم کر دیا گیا۔
اب بھیڑیے کی باری تھی۔وہ بھی دن بھر مرتبان سامنے رکھ کر بیٹھا رہا۔رات کو خرگوش پھر آیا۔اس نے بھیڑیے کو گدگداتے ہوئے کہا،”کتنے چور پکڑلیے ہیں،بھیڑیے صاحب․․․․․؟“
بھیڑیا گدگدی کے مارے ہنسنے لگا ۔خرگوش نے اور زیادہ گدگداتے ہوئے کہا،”اتنا نہیں ہنسا کرتے بھیڑیے بھیا!“
بھیڑیا اور زور زور سے ہنسنے لگا۔
اسے گدگدی بہت ہوتی تھی۔خرگوش نے دونوں ہاتھوں سے گدگداتے ہوئے کہا،”جو زیادہ ہنستا ہے ،وہی زیادہ روتا بھی ہے۔“
بھیڑیا ہنستے ہنستے اپنی کرسی سے لڑھک گیا اور زمین پر لوٹنے پوٹنے لگا۔خرگوش نے اسے کرسی پر بٹھایا اور گرد جھاڑنے کے بہانے اس کی آہستہ آہستہ مالش کرنے لگا۔
مالش سے جو آرام ملا تو بھیڑیا سو گیا۔تب خرگوش اندر گیا۔
اس نے جی بھر کے مکھن کھایا اور اپنے گھر کی راہ لی۔اگلے دن بھیڑیے کا بھی وہی حشر ہوا۔سال بھر کے لیے مکھن بند!
اب لومڑ کی باری تھی۔رات کو پھر خرگوش آیا۔”اوہو!آج لومڑ بھیا کی باری ہے “خرگوش نے کہا،”کتنے چور پکڑ لیے ہیں بھیا جی․․․؟“
لومڑ نے بیزاری سے کہا،”صبح سے بیٹھے بیٹھے تنگ آگیا ہوں۔“
خرگوش بولا،”تو آؤ آنکھ مچولی کھیلیں۔

”اور اگر چور آگیا تب․․․․؟”
خرگوش بولا،”ہم دونوں اس کا بھرتا بنادیں گے۔“
لومڑمان گیا۔دونوں درختوں کے پیچھے آنکھ مچولی کھیلتے رہے ۔کچھ ہی دیر میں لومڑ اتنا تھک گیا کہ وہ آرام کرنے زمین پر لیٹا اور لیٹتے ہی سوگیا۔اگلے دن اس کو بھی سزا ملی۔سال بھر تک مکھن بند۔لومڑذرا ہو شیار جانور تھا۔اس نے اپنا شبہ خرگوش پر ظاہر کیا۔
اب تو سب جانور باری باری اپنی آپ بیتی بیان کرنے لگے۔سب کو یقین ہو گیا کہ خرگوش چالاکی سے مکھن چُرا لیتا ہے لیکن خرگوش کو مکھن چراتے دیکھا کسی نے نہیں تھا۔سب جانوروں نے اس دفعہ جنگل کے جاسوس بندر کو چور پکڑنے کے لیے مقرر کیا۔
بندر مکھن کا مرتبان نیچے رکھ کر اس پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا۔خرگوش وہاں آیا اور بندر سے پوچھا ”کیسے حال ہیں؟“
”بہت برے۔
“بندر نے رکھائی سے جواب دیا،”صبح سے سرد رد اور زکام ہے۔“
”تو آئیے سیر کو چلیں۔“خرگوش بولا۔
”نہیں بھیا!بالکل موڈ نہیں ہے۔“بندر رکھائی سے بولا۔”آنکھ مچولی بھی نہیں کھیلو گے․․․․؟“
خرگوش نے اشتیاق سے پوچھا۔
بندر بولا،”مجھے بچوں کے کھیل پسند نہیں آتے۔“خرگوش نے حیرانی سے پوچھا،”تو پھر کونسا کھیل پسند ہے تمہیں․․․․․؟“
بندر بولا،”رسا کشی۔

خرگوش مان گیا۔بندر نے جھٹ پٹ خرگوش کی دم سے رساباندھا۔اس کا دوسرا سرادرخت سے باندھا اور کہا،”کھینچے رسا۔“
اب خرگوش رسا کھینچنے میں مصروف رہا۔اُدھر بندر سب جانوروں کو بلا لایا۔خرگوش انہیں آتے دیکھ کر چونکنا ہوا اور ساری بات بھانپ گیا۔اس نے دم چھڑانے کی کوشش کی لیکن کا میاب نہ ہو سکا۔بے چارا خرگوش پکڑاہی گیا اور مکھن چرانے کا اعتراف کر لیا۔جانوروں نے سزا کے طور پر اس کی دُم کاٹ ڈالی اور اس کے کانوں کو زور زور سے کھینچا۔کہتے ہیں میاں خرگوش تب سے تنہا تنہا ہیں اور ان کے کان بھی لمبے ہیں ۔اس دن سے خرگوش جنگل کے جانوروں سے علیحدہ رہتا ہے۔

Browse More Moral Stories