Zindagi Ka Sabaq - Article No. 2377

Zindagi Ka Sabaq

زندگی کا سبق - تحریر نمبر 2377

میں احتشام صاحب کا معمولی ملازم تھا۔انہوں نے اپنے سفاکانہ رویے سے مجھے ایسا سبق دیا کہ میں اپنی میراث اور ورثے کی طرف لوٹ آیا۔اب میرا ذاتی کاروبار ہے جو روز روز بڑھ رہا ہے۔

ہفتہ 22 اکتوبر 2022

پروفیسر مسرت کلانچوی
رشید کو ڈرائیونگ کرتے چند ماہ ہو گئے تھے۔اس کے والد کا خط آیا تھا کہ وہ دو تین دن کی چھٹی لے کر گھر آجائے۔اس کی ماں اس کی منگنی کرنا چاہتی ہے۔رشید نے صاحب سے چھٹی مانگی تو انہوں نے دو دن کے لئے اسے چھٹی دے دی۔
رشید سڑک کے کنارے کھڑا بس کا انتظار کر رہا تھا۔اس نے دیکھا سامنے سے احتشام خان صاحب گاڑی چلاتے آرہے ہیں۔
ایک آدمی سڑک کراس کر رہا تھا۔صاحب گاڑی پر قابو نہ رکھ سکے اور وہ آدمی گاڑی کے نیچے آگیا لیکن صاحب نے گاڑی روکنے کے بجائے تیز چلا دی اور ایک جھٹکے سے گاڑی رشید کے قریب روکی۔بولے”رشید․․․․․فوراً بیٹھو۔“
صاحب نے ڈرائیونگ سیٹ رشید کے لئے خالی کر دی اور خود پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئے۔

(جاری ہے)


”مجھے ایئرپورٹ چھوڑ دو۔“
”لیکن صاحب“
”مجھے پتہ ہے تمہیں گھر جانے کی جلدی ہے۔

تم یہی گاڑی لے کر گاؤں چلے جاؤ۔“
”لیکن صاحب․․․․وہ حادثہ؟“
”جو کچھ تم نے دیکھا ہے اسے بھول جاؤ اور میرا حکم مانو۔“
رشید نے صاحب کو ایئرپورٹ پر چھوڑا اور تیزی سے گاڑی چلاتا اپنے گھر پہنچ گیا۔تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ دروازہ کھٹکا۔
رشید نے دروازہ کھولا۔موٹر سائیکل پر دو سپاہی آئے تھے۔انہیں دیکھ کر گاؤں کے لوگ بھی جمع ہو گئے تھے۔
ایک سپاہی بولا۔
”تم جس آدمی کو گاڑی سے ٹکر مار کر فرار ہوئے ہو اس کی حالت نازک ہے۔راہ گیروں نے تمہاری گاڑی کا نمبر نوٹ کر لیا تھا۔ہم تمہیں اس جرم میں گرفتار کرتے ہیں۔“
”لیکن یہ حادثہ میں نے نہیں کیا۔یہ گاڑی میری نہیں۔میں تو احتشام خان صاحب کا ڈرائیور ہوں۔“
”اپنے صاحب کا فون نمبر بتاؤ۔“سپاہی نے اپنے موبائل فون کا سپیکر آن کیا۔

رشید کے بتانے پر سپاہی نے فون نمبر ملایا۔
”ہیلو“۔دوسری طرف احتشام خان تھے۔
سپاہی بولا۔”جناب․․․․کیا آپ جانتے ہیں۔ایک آدمی آپ کی گاڑی کے نیچے آکر شدید زخمی ہو گیا۔“
”میں کچھ نہیں جانتا۔احتشام خان صاحب کی آواز آئی۔میں تو دو دن سے اسلام آباد میں ہوں۔میں اپنی گاڑی ڈرائیور رشید کو دے کر آیا تھا۔اسی نے حادثہ کیا ہو گا۔
بڑا لاپروا ڈرائیور ہے۔کوئی رعایت نہ کریں اس سے اور گاڑی میرے گھر بھجوا دیں۔“
رشید اپنے صاحب کی یہ باتیں سن کر سکتے میں آگیا۔پولیس نے اسے گرفتار کر لیا۔
حادثے میں زخمی ہونے والا شخص ایک ماہ ہسپتال رہنے کے بعد موت کے منہ سے نکل آیا لیکن رشید کو طویل عرصہ جیل کاٹنا پڑی۔اس کی اور اس کے ماں باپ کی جمع پونجی وکیل اور مقدمے پر خرچ ہو چکی تھی۔

رشید جیل سے نکل کر اپنے گاؤں میں آیا تو اس کا سر جھکا ہوا تھا۔وہ گھر میں داخل ہوا تو اس کے ماں باپ مٹی کے برتن بنا رہے تھے۔وہ بھاگ کر اس سے گلے ملے۔اس کی ماں نے اسے اس کی پسند کا کھانا بنا کر کھلایا۔اس کا باپ بولا۔
”چلو․․․․اب چارپائی پر لیٹ جاؤ۔آرام کرو۔“
”نہیں بابا۔مجھے آرام کی ضرورت نہیں۔مجھے برتن بنانا سکھائیں۔

رشید نے مٹی میں پانی ڈالا اور مٹی گوندھنے لگا۔نرم نرم گیلی مٹی کو اپنے ہاتھوں میں لے کر اس نے اس کی خوشبو کو محسوس کیا جس میں صدیوں سے اس کے ابا کی محنت اور محبت رچی بسی تھی۔
رشید مٹی کے برتن بنا کر انہیں رنگین نقش و نگار سے سنوارتا اور شہر جا کر بیچتا۔آہستہ آہستہ اس کے برتنوں کی مانگ بڑھتی گئی۔
آج سٹیڈیم میں ثقافتی میلہ تھا۔
رشید نے بھی اپنے برتنوں کا سٹال سجایا تھا۔اس کے سٹال کے گرد لوگوں کا ہجوم تھا جو اس کے فن کی داد دے رہے تھے۔ایک ٹی وی چینل کے اینکر نے اپنا مائیک اس کے آگے کیا۔
”یہ خوبصورت ہنر اور فن آپ نے آرٹ کے کس ادارے سے سیکھا؟“
”کسی ادارے سے نہیں۔رشید اپنے والد کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا۔”یہ میری خاندانی میراث ہے۔یہ فن میرے پردادا،دادا اور والد سے سفر کرکے مجھ تک پہنچا ہے۔
میں کمہار ہوں اور مجھے اپنے کمہار ہونے پر فخر ہے۔میں احتشام صاحب کا معمولی ملازم تھا۔انہوں نے اپنے سفاکانہ رویے سے مجھے ایسا سبق دیا کہ میں اپنی میراث اور ورثے کی طرف لوٹ آیا۔اب میرا ذاتی کاروبار ہے جو روز روز بڑھ رہا ہے۔احتشام صاحب کی بیٹی باجی لبنیٰ کا بے حد شکریہ جنہوں نے مجھے رنگ بھرنا سکھایا۔اب میں نے نہ صرف برتنوں جبکہ اپنی زندگی میں بھی خوبصورت حقیقی رنگ بھر لیے ہیں۔“

Browse More Moral Stories