Dars E Karbala
درسِ کربلا
اتوار 2 نومبر 2014
(جاری ہے)
غرضیکہ کہ قفس بھی اپنا قیدی بھی خود۔
مسائل کا منبع معاملات کو اجتماعی حالت میں دیکھنا ہے۔
صبر و برداشت کا جو درس کائنات کے راہبر صلی اللہ و علیہ و آلہ سلم نے پوری ظاہری زندگی میں دیا۔ اس کی تکمیل نواسہ رسول صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم ، جگر گوشہء بتول ، حسین ابن علی رضی اللہ تعالی عنہ نے کرب و بلا کے میدان میں کر دی ۔ اور دکھا دیا کہ صبرو برداشت ہی ہماری میراث ہے۔ لیکن صد افسوس! ہم میں آج یہ صبر و برداشت عملی طور پر ختم ہو گیا ہے۔
قیام مکہ میں جب کوفہ والوں کی طرف سے بے پناہ خطوط و پیغامات موصول ہوئے تو جناب مسلم بن عقیل رضی اللہ تعالی عنہ کو روانہ کیا ۔ لیکن جب ابن زیاد کوفہ کا گورنر بنا تو مسلم بن عقیل رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کے حواریوں کو، بمعہ فرزندان ِ مسلم ، بے دردی سے شہید کر دیا گیا۔ امام عالی مقام رضی اللہ تعالی عنہ کو راستے میں جب خبر ملی تو پھر بھی آپ نے کمال صبر و برداشت کا مظاہرہ کیا۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ چاہتے تو واپس لوٹ سکتے تھے۔ لیکن نانا کے دین کی آبیاری اپنی ذات سے زیادہ اہم تھی۔ فرزندِ شیر خدا رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حج کے دوران شہید کرنے کا ارادہ کیا گیا۔ لیکن شریعت کے روح رواں کیسے خانہء خدا کو لہو میں تر بتر دیکھ سکتے تھے۔ بندھے احرام کھول دیے۔ حج کو عمرے میں تبدیل کر دیا۔ کیا اس لمحے بھی تاریخ نوجوانانِ جنت کے سردار کے لبوں پر کوئی ایسا لفظ تلاش کر پائی جو صبر و برداشت کے منافی ہو؟ 2 محرم الحرام آمد سے لے کر 7 محرم الحرام تک فرات کے کنارے امام عالی مقام اور اہل و عیال کے خیمے نصب تھے۔ حسین ابن علی رضی اللہ تعالی عنہ کے صبر و برداشت کا اس سے بڑھ کے کیا مظاہرہ ہو گا کہ دشمن کے جانوروں تک کو پانی سے دور نہ رکھا گیا۔ 7محرم الحرام کو پانی کی بندش پہ بھی مظلوم کربلا رضی اللہ تعالی عنہ کے لبوں پہ شکوہ نہیں آیا۔ اور رب کی رضا پہ صبر کیا۔ تین دن کی پیاس، تپتا صحرا ، آگ برساتا سورج، آسمان دنگ ، زمین حیران۔۔۔ یہ صبر و برداشت سے بھی کچھ اوپر کا عمل تھا۔ شیطان کو شاید آج سجدہ نہ کرنے کا بھی افسوس ہوا ہو گا۔ جن کے لباس جنت سے آئیں۔ وہ تپتے صحرا کے مکین۔ ۔۔ الاماں۔۔۔ افسوس ہم نے صبر و برداشت کے اس عظیم مظاہرے کو بھلا دیا۔ اور عدم برداشت کو اپنا لیا۔ کیا کرب و بلا میں صبر کی انتہا نہیں تھی؟ تو پھر آج ہم کیوں صبر کو چھوڑ چکے ہیں؟ کیوں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے ہیں؟
72جان نثاروں کا مقابلہ9لاکھ فوج سے تھا۔ اسی لئے آپ نے روشنی بجھا دی تا کہ ہر کوئی سوچ لے لیکن جب دوبارہ چراغ روشن ہوا تو ہر ایک ثابت قدم تھا اور جناب مسلم ابن عوسجہ کے یہ الفاظ تاریخ کا حصہ بن گئے کہ "یہ ہمارے لئے ممکن نہیں کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو چھوڑ دیں۔ میں اپنے نیزے کو دشمنوں کے سینوں میں توڑ دوں گا۔ اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے قدموں میں اپنی جان نچھاور کر دوں گا"۔
کرب و بلا کی تپتی زمین سے اپنے پیاروں کے لاشے اٹھاتے ہوئے بھی امام عالی مقام رضی اللہ تعالی عنہ کے پایہ استقلال میں لرزش نہ آئی۔ اور صبر و برداشت کا ایسا نمونہ رہتی دنیا تک چھوڑا جس کا کوئی ثانی نہیں ہو گا۔
بیمار ِ کربلا جنابِ سجاد رضی اللہ تعالی عنہ نے بیبیوں کے ہمراہ کربلاء سے لے کر شام تک جوسفر طے کیا اس میں تقریباً 1445میل،36شہر، 72بازار، 144گلیاں،258موڑ،اور 3دریا شامل ہیں لیکن اس پورے سفر میں انہوں نے ایک بھی نماز قضا نہیں کی۔کہیں بھی لبوں پہ شکوہ نہیں آیا۔ صبر کی میراث کو نہ چھوڑا اور یہی وہ درس ہے جو کربلاء کے ذریعے ہمیں دیا گیا ۔ کیا ہم اس درس کو سمجھ پائے ؟ اگر ہم ابھی تک اس کو سمجھ نہیں پائے تو خدارا اپنی زندگیوں کو کربلا کے عملی درس کے مطابق ڈھالیں۔کربلا میں معرکہ ء حق و باطل تھا۔ جس کا پیغام صبر و برداشت تھا۔ کیا ہم آج اس پیغام کو سمجھ پا رہے ہیں؟ کیا آج ہم میں برداشت موجود ہے؟ کیا آج ہم صبر کو اپنی ذات کا حصہ بنا رہے ہیں؟ اگر نہیں تو ہمیں خود احتسابی کے عمل سے گزرنا ہو گا۔ مشکلات پہ صبر کرنا سیکھنا ہو گا۔ کسی دوسرے کی سوچ، عمل، طریق کو برداشت کرنا ہوگا۔ یہی کربلا کا درس ہے جس سے نہ صرف ہماری ذاتی زندگیا ں بہتر ہوں گی بلکہ امت مسلمہ اجتماعی طور پر بھی مسائل سے چھٹکارا حاصل کرسکتی ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
Urdu Column Dars E Karbala Column By Syed Shahid Abbas, the column was published on 02 November 2014. Syed Shahid Abbas has written 310 columns on Urdu Point. Read all columns written by Syed Shahid Abbas on the site, related to politics, social issues and international affairs with in depth analysis and research.
متعلقہ عنوان :
ملتان کے مزید کالمز :
ریلوے کیبن سے (محمد افضل شاغف)
Railway Cabin Se
چٹخارے (محمد ثقلین رضا)
Chatkhare
سیاسی معاملات میں عسکری اداروں کی شمولیت (ذبیح اللہ بلگن)
Siasi Muamlaat Main Askari Idaroon Ki Shamoliat
زندگی گزارنے کا فن !(مولانا شفیع چترالی)
Zindagi Guzarne Ka Fan
پھرکھڑاک ہونے کو ہے(پروفیسر رفعت مظہر)
Phir Kharak Hone Ko Hai
علامہ اقبال کا137 واں یوم ولادت(عبدالرحیم انجان)
ALLMA Iqbal Ka 137vaan Youm E Viladat
داعش پاکستان میں؟ پروپیگنڈے کے مقاصد۔۔۔۔(بادشاہ خان)
Daaish Pakistan Main
لمیٹڈ کمپنی(سید شاہد عباس)
Limited Company
محکمہ صحت کے حکام بالا کے لئے(حافظ ذوہیب طیب)
Mehkama Sehat K Hukam E Bala K Liye
تیر و ترکش(خامہ بدست کے قلم سے)
Teer O Tarkish 11-11-14
دامن کو ذرا دیکھ۔۔۔۔(پروفیسر مظہر)
Daman Ko Zara Dekh
اقبال ۔۔۔۔۔ ایک حقیقی عاشق رسول (محمد افضل شاغف)
Iqbal Aik Haqeqi Ashiq E Rashool SA
ملتان سے متعلقہ
پاکستان کے کالمز
-
رابطہ پلوں کی خستہ حالی حکومتی کارکردگی پر سوالیہ نشان
(ناصرعالم)
-
سوات میں ناقص سیوریج سسٹم عوام کے لئے وبال جان
(ناصرعالم)
-
پسرور کے قابل فخر سرجن ڈاکٹر میاں ولید انجم کا خصوصی اعزاز
(محمد صہیب فاروق)
-
ایک نہیں بہت سی بلڈنگیں گرنے کو ہیں
(سید عارف مصطفیٰ)
-
سوات کے عوام کو ریلیف ملے گا؟
(ناصرعالم)
-
ترقیاتی منصوبوں کا رخ ادھر بھی ہونا چاہیے
(فیاض محمود خان)
-
صحت سہولیات کیلئے ترستے عوام۔۔۔؟؟
(ناصرعالم)
-
سوات میں بدترین مہنگائی اور عوام کی دہائی
(ناصرعالم)