پاکستان ہر سال 110 ارب روپے کی دالیں درآمد کرتا ہے جو ملکی معیشت کیلئے ایک بوجھ ہے ،چیف سائنٹسٹ

جمعرات 25 اپریل 2024 12:10

فیصل آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 25 اپریل2024ء) ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ فیصل آباد کے چیف سائنٹسٹ ڈاکٹر خالد حسین نے بتایا کہ پاکستان ہر سال آسڑیلیا اور افریقہ سے110 ارب روپے سے زائد مالیت کی دالیں درآمد کرتا ہے جو ملکی معیشت کیلئے ایک بوجھ ہے لہٰذا پاکستان کے مشکل معاشی حالات میں دالوں کی درآمد پر خرچ ہونے والے قیمتی زرمبادلہ کی بچت ناگزیر ہے جس کیلئے ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ فیصل آباد کے شعبہ دالوں کے زرعی سائنسدانوں کی متعارف کردہ نئی اقسام کی کاشت وقت کی اہم کی ضرورت ہے۔

ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ فیصل آباد میں شعبہ دالو ں کے زیر اہتمام منعقدہ کسان میلہ کے افتتاح کے موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے جس میں چیف سائنٹسٹ شعبہ پلانٹ پتھالوجی سینئر سائنٹسٹ ڈاکٹر محمد کامران،پرنسپل سائنٹسٹ شعبہ چارہ جات ڈاکٹر قمر شکیل، پرنسپل سائنٹسٹ شعبہ سبزیات ڈاکٹر محمد اقبال، پرنسپل سائنٹسٹ شعبہ اگرانومی ڈاکٹر محمد ادریس، پرنسپل سائنٹسٹ شعبہ سائل فرٹیلٹی ڈاکٹر ضیا چشتی، سینئر سائنٹسٹ شعبہ سائل کیمسٹری ڈاکٹر عفرا سلیم اور سینئر سائنٹسٹ ڈاکٹر قدسیہ نذیرکے علاوہ ڈپٹی ڈائریکٹر ریسرچ انفارمیشن فیصل آباد محمد اسحاق لاشاری اور انچارج پنجاب سیڈ کارپوریشن فیصل آباد عبد الغفارسمیت کاشتکاروں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہاکہ مونگ اور ماش دالیں ہماری روزمرہ خوراک کا ایک اہم حصہ ہیں اور غذائی اعتبار سے ان دالوں کی اہمیت مسلمہ ہے،دالوں میں 20 فیصد سے زائد پروٹین ہوتی ہے اور ان میں آئرن کے علاوہ غذائی ریشہ بھی وافر مقدار میں پایا جاتاہے اسی لئے ان خصوصیات کے پیش نظر انکو گوشت کاسستا نعم البدل کہا جاتا ہے۔انہوں نے کہاکہ پھلی دار اجناس ہونے کی وجہ سے دالوں کے پودوں کی جڑوں میں مفید بیکٹیریا ہوتے ہیں جن پرنوڈیولز بنتے ہیں جو فضا سے نائٹروجن کو فکس کر کے پودوں کو مہیا کرتے ہیں، جڑیں گلنے سڑنے کے بعد زمین کی زرخیزی میں اضافہ کرتی ہیں لہٰذا دالوں کی کاشت سے زمین کی زرخیزی کو بحال رکھنے میں مدد ملتی ہے۔

انہوں نے کہاکہ دالیں کماد کی بہاریہ کاشت اور مونڈھی فصل میں مخلوط طور پر بھی کاشت کی جا سکتی ہیں اوراس ضمن میں کماد،چاول اور کپاس کے آبپاش علاقہ جات میں وٹوں پر کاشت سے کاشتکار بھرپور منافع کما سکتے ہیں۔مزید برآں دالیں بہار اور خریف دونوں موسموں میں کاشت کی جا سکتی ہیں۔انہوں نے کہاکہ دالوں کی فصل سے جڑی بوٹیوں کی بروقت تلفی سے پیداوارمیں نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ بہاریہ فصل پر خریف کی نسبت کیڑوں اور بیماریوں کا حملہ کم ہوتا ہے۔تقریب میں دالوں کی فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کیلئے کاشت سے لیکر برداشت تک کے عوامل اور اسکی ترقی دادہ اقسام کی کاشت کیلئے موزوں آب و ہوا، شرح بیج، وقت کاشت، زمین کی تیاری، طریقہ کاشت،کھادوں اور پانی کا استعمال، چھدرائی، گوڈی، جڑی بوٹیوں کی تلفی، کیڑوں اور بیماریوں سے تحفظ کے حوالے سے زرعی ماہرین نے کاشتکاروں کو زرعی تحقیقاتی اداروں میں دالوں پر کی جانے والی تحقیق کے نتائج اور سفارشات سے آگاہ کیا۔تقریب کے آخر میں ڈاکٹرخالد حسین، محمد اسحاق لاشاری، ڈاکٹر قمر شکیل اور دیگر زرعی سائنسدانوں نے کاشتکاروں میں مونگ اور ماش دالوں کی نئی اقسام کے بیج کے تھیلے تقسیم کئے۔

فیصل آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں