فیصل آباد پولیس سال 2021ء کے دوران بھی جرائم پیشہ افراد کو لگام ڈالنے میں ناکام رہی

پچھلے سال کی نسبت جرائم کی شرح میں کئی گنا اضافہ نے پولیس افسران وشہریوں کو چکرا کر رکھ دیا، مجموعی طور پر ضلع بھر میں مسروقہ مال کی برآمدگی میں بھی نمایاں کمی ناقص تفتیشی نظام کی بدولت تھانوں میں کرپٹ تفتیشی افسران کی طمع نفسانی کی وجہ سے جرائم میں ملوث بڑے بڑے مگرمچھ بچ نکلنے میں کامیاب

بدھ 8 دسمبر 2021 23:07

فیصل آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 08 دسمبر2021ء) فیصل آباد پولیس سال 2021ء کے دوران بھی جرائم پیشہ افراد کو لگام ڈالنے میں ناکام رہی، پچھلے سال کی نسبت جرائم کی شرح میں کئی گنا اضافہ نے پولیس افسران وشہریوں کو چکرا کر رکھ دیا، مجموعی طور پر ضلع بھر میں مسروقہ مال کی برآمدگی میں بھی نمایاں کمی ناقص تفتیشی نظام کی بدولت تھانوں میں کرپٹ تفتیشی افسران کی طمع نفسانی کی وجہ سے جرائم میں ملوث بڑے بڑے مگرمچھ بچ نکلنے میں کامیاب، ناقص تفتیش کی وجہ سے کئی ملزمان ضمانتوں پر نکل کر دیدہ دلیری سے جرائم میں سرگرم پائے گئے تھانوں میں جرائم پیشہ افراد کا ریکارڈ دستیاب ہونے کے باوجود متعلقہ افسران قابو کرنے میں ناکام، پولیس اصلاحات کے نام پر موجودہ حکومت کی طرف سے کروڑوں خرچ کرنے کے باوجود تھانہ کلچر میں تبدیلی خواب بن گئی، مقدمات درج کروانے کے لیے فرنٹ ڈیسک سے لیکر تفتیشی افسران تک رشوت لینے میں ملوث پائے جاتے ہیں، پولیس افسران پیٹی بند بھائیوں کو معمولی سزا جزاء کے بعد بحال کر دیتے ہیں متاثرہ شہری محکمہ اینٹی کرپشن میں ڈر وخوف کی وجہ سے جان سے کترانے لگے، افسران نے شہریوں کی طرف سے ہیلپ لائن پر داد رسی کی کالوں پر بھی جواب دہی کے لیے حل ڈھونڈ نکالے ہیں شہری انصاف کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور، شہری تھانوں ومتعلقہ چوکیوں میں شنوائی نہ ہونے پر سی پی او آفس درخواستیں گزارتے ہیں لیکن قابل ذکر امر ہے کہ یہاں پر بھی رجسٹرڈ ہونے والی درخواستیں دوبارہ متعلقہ ٹائون میں پہنچنے کے بعد انہی تھانوں وچوکیوں کے اہلکاروں کے پاس پہنچ کر ردی کی ٹوکری میں چلی جاتی ہیں جسکی واپسی کا خواب سی پی او آفس میں جمع ہی نہیں کروایا جاتا جبکہ تھانوں میں درخواستیں گزرنے کے بعد لوگ انصاف کے لیے مجبوراً عدالتوں کا رخ کرتے ہیں لیکن جو لوگ پولیس کو رشوت نہیں دیتے عدالتوں کا رخ کرنے کے بعد انہیں ذلیل وخوار کیا جاتا ہے انکے کمنٹس اکثر تفتیشی حضرات غلط دیتے ہیں اگر متاثرہ شخص عدالتی حکم پر مقدمہ درج کروانے میں کامیاب ہو جائے تو غلط دفعات لگا کر مقدمہ میں اسے ذلیل وخوار کیا جاتا ہے اکثر وبیشتر تفتیشی عدالتی احکامات کی بھی کھلے عام خلاف ورزی کرتے پائے جاتے ہیں کئی کئی ماہ میں طمع نفسانی کی خاطر مقدمات کے چالان پراسکیوشن برانچ میں جمع ہی نہیں کرواتے یا پھر جان بوجھ کر چالان ناقص تفتیش کے ذریعے جمع کروایا جاتا ہے جسکی وجہ سے تاخیر سے عدالت پہنچنے کے بعد چالان کی وجہ سے متاثرہ شہری انصاف کے حصول کیلئے ذلیل وخوار ہو جاتے ہیں ضلعی پولیس کی طرف سے جاری ہونیوالے رواں سال میں جاری ہونیوالے اعداد وشمار کے مطابق 132 شہریوں سے ڈاکوئوں نے موٹرسائیکلیں چھینی، 250 موٹرسائیکلیں چوری ہوئیں، 288 مقامات سے مویشی چوری ہوئے، 86مقامات پر نقب زنی ہوئی 346 مقامات پر عام چوری کے واقعات رونما ہوئے، مجموعی طور پر 6854 رپورٹ ہونے والے واقعات میں ڈکیتی اور ڈکیتی مزاحمت کے 238 واقعات رونما ہوئے، کار چھیننے کے 4واقعات ہوئے، مجموعی طور پر جرائم پیشہ افراد کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا جبکہ اس دوران مال مسروقہ کی برآمدگی نہ ہو سکی۔

(جاری ہے)

رواں سال ریسکیو15 پر شہریوں کی داد رسی کے لیے کی جانے والی کالوں کے باوجود اندراج مقدمات کی شرح انتہائی کم رہی، شہریوں کا حکومتی ممبران اسمبلی اور آئی جی پنجاب سے فوری نوٹس لینے کا مطالبہ تاکہ افسران اپنے دفاتر کی بجائے ریسکیو15 کی کالز پر بھی موقع پر پہنچیں اور بڑے واقعات کی موقع پر جاکر خود مانیٹرنگ کریں، عوام کے جان ومال کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے حقیقی معنوں میں اقدامات عمل میں آ سکیں۔

فیصل آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں