سپریم کورٹ نے سینیٹر فیصل واوڈا کی عدلیہ سے متعلق پریس کانفرنس پر ازخود نوٹس لے لیا

چیف جسٹس سپریم کورٹ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ ازخود نوٹس کیس کی کل سماعت کرے گا، متعلقہ فریقین کو نوٹسسز جاری کردیے گئے

Sanaullah Nagra ثنااللہ ناگرہ جمعرات 16 مئی 2024 19:58

سپریم کورٹ نے سینیٹر فیصل واوڈا کی عدلیہ سے متعلق پریس کانفرنس پر ازخود نوٹس لے لیا
اسلام آباد ( اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 16 مئی 2024ء) سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وفاقی وزیر اور سینیٹر فیصل واوڈا کی عدلیہ کے ججز سے متعلق پریس کانفرنس کرنے پر ازخود نوٹس لے لیا ہے۔ میڈیا کے مطابق چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ ازخود نوٹس کیس کی کل سماعت کرے گا، بنچ میں جسٹس عرفان سعادت اور جسٹس نعیم اختر شامل ہوں گے۔

عدالت نے فیصل واوڈا سمیت متعلقہ فریقین کو نوٹسسز جاری کردیے ہیں۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز نیشنل پریس کلب میں نیوز کانفرنس میں فیصل واوڈا کا کہنا تھا کہ دوہری شہریت والے عدالتوں میں بیٹھے ہوئے ہیں، کیا آپ کیلئے شراب حلال ہمارے لئے حرام ہے؟ دوسری جانب سابق وفاقی وزیر سینیٹر فیصل واوڈا نے ایکس پر اپنے ردعمل میں کہا کہ ہائیکورٹ کے جواب مجھے ملنے سے پہلے میڈیا کو مل گیا۔

(جاری ہے)

بہرحال یہ ثابت ہوگیا کہ جسٹس بابر ستار کیطرف سے اپنے گرین کارڈ ہولڈر ہونے کا معاملہ رپورٹ کرنے کا کوئی ثبوت اسلام آباد ہائیکورٹ کے پاس موجود نہیں(جبکہ پریس ریلیز میں لکھا تھا کہ جج صاحب نے یہ معاملہ اس وقت کے چیف جسٹس کو رپورٹ کیا تھا "Reported")۔ یاد رہے کہ میں نے جج بننے کی اہلیت پر تو سوال اٹھایا ہی نہیں تھا۔ میں نے تو اسلام آباد ہائیکورٹ کی پریس ریلیز میں درج حقائق کی حقانیت پر سوال پوچھا تھا۔

کیا چیف جسٹس اس بات پر انکوائری کریں گے کہ رجسٹرار ہائیکورٹ نے انصاف کے آئینی ادارے کی پریس ریلیز میں ایسی بات کیوں لکھی جس کا نہ انہیں علم ہے اور نہ ان کے پاس ثبوت؟ انہوں نے بغیر ثبوت یہ بات کسی کے کہنے یا کس کی مداخلت پر لکھی؟ اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اس بات کا سورس سپریم کورٹ کے ایک جج کے عدالتی کارروائی کے دوران ریمارکس ہیں، کیا کوئی وکیل یا "آئینی ماہر صحافی" بتائے گا کہ جج کے ریمارکس کی کوئی آئینی، قانونی یا evidentiary value ہوتی ہے۔

مکرر عرض ہے مسئلہ truthful ہونے کا ہے جج کی عہدے کی ابتدائی اہلیت کا نہیں۔ مزید برآں اسلام آباد ہائیکورٹ کے رجسٹرار آفس نے سینیٹر فیصل واوڈا کے خط کا جواب دے دیا۔ رجسٹرار آفس کی جانب سے جاری جواب میں کہا گیا ہے کہ آئین پاکستان میں جج بننے کے لیے کسی اور ملک کی شہریت یا رہائش رکھنا نااہلیت نہیں ہے، کسی بھی وکیل سے ہائیکورٹ کا جج بنتے وقت اس سے دہری شہریت کی معلومات نہیں مانگی جاتیں جب کہ ہائیکورٹ کی پریس ریلیز میں وضاحت کی گئی تھی کہ جسٹس بابر ستار نے اس وقت کے چیف جسٹس کو بتایا تھا کہ وہ گرین کارڈ رکھتے ہیں۔ 

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں