قیدیوں کی سیاسی بات چیت پر پابندی سے متعلق جیل رولز کی شک 265 کے خلاف درخواست قابل سماعت قرار

اگر ہمیں خیبر پختونخوا سے پانی لینا پڑ جائے تو کیا ہم یہ کہیں گے کہ خیبر پختونخوا کے پانی پر ہمارا دائرہ اختیار ہی جسٹس سردار اعجاز خان

جمعہ 17 مئی 2024 22:09

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 17 مئی2024ء) اسلام آباد ہائی کورٹ نے قیدیوں کی سیاسی بات چیت پر پابندی سے متعلق جیل رولز کی شک 265 کے خلاف درخواست قابل سماعت قرار دے دی۔جبکہ جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ریمارکس دیے کہ اگر ہمیں خیبر پختونخوا سے پانی لینا پڑ جائے تو کیا ہم یہ کہیں گے کہ خیبر پختونخوا کے پانی پر ہمارا دائرہ اختیار ہی یہ پنجاب حکومت کی مہربانی ہے کہ وہ ہمارے قیدیوں کو اڈیالہ جیل رکھ رہے ہیں، وہ خود ہمیں قیدی بھیجنے کا نہیں کہتے، یہ عدالت کی ذمہ داری نہیں ہے۔

انھوں نے یہ ریمارکس جمعہ کے روزدیے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان نے مقدمے پر سماعت کی، درخواست گزار شیر افضل مروت عدالت میں پیش ہوئے، ایڈووکیٹ جنرل ایاز شوکت اور عدالتی معاون زینب جنجوعہ بھی عدالت میں پیش ہوئیں۔

(جاری ہے)

دوران سماعت شیر افضل مروت نے مؤقف اپنایا کہ ایڈووکیٹ جنرل نے اس درخواست پر اعتراض اٹھایا تھا، سابق وزیر اعظم عمران خان کو اسلام آباد کی عدالت سے سزا ہوئی، جہاں سے سزا ہوئی وہ جوڈیشل ایریا بھی اسلام آباد کا ہے، اڈیالہ جیل پنجاب اور راولپنڈی میں آتی ہے لیکن قیدی اسلام آباد کا ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ مروت صاحب یہ ساری باتیں گزشتہ سماعت پر بھی ہو چکی ہیں، آپ ایڈووکیٹ جنرل کے اعتراضات پر دلائل دیں اور عدالت کی معاونت کریں، آپ نے ڈیکلریشن اور دائرہ اختیار سے متعلق عدالت کو بتانا ہوگا۔شیر افضل مروت نے جواب دیا کہ آرٹیکل 199 کی شق سے واضح ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے آرڈرز بھی موجود ہیں، ڈیکلیریٹری ججمنٹ سے متعلق سپریم کورٹ نے بھی واضح احکامات دیے۔

عدالت نے کہا کہ آپ پنجاب حکومت کو پارٹی بنانے سے متعلق دلائل دیں، آپ جو کہہ رہے ہیں وہ آرٹیکل 199 ون سی میں بھی موجود ہے، آپ نے حکومت پنجاب کو فریق بنایا ہے، کیا میں حکومت پنجاب کو ہدایات دے سکتا ہوں ہم پہلے یہ دیکھیں گے کہ درخواست قابل سماعت ہے بھی یا نہیں۔جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ریمارکس دیے کہ اگر ہمیں خیبر پختونخوا سے پانی لینا پڑ جائے تو کیا ہم یہ کہیں گے کہ خیبر پختونخوا کے پانی پر ہمارا دائرہ اختیار ہی یہ پنجاب حکومت کی مہربانی ہے کہ وہ ہمارے قیدیوں کو اڈیالہ جیل رکھ رہے ہیں، وہ خود ہمیں قیدی بھیجنے کا نہیں کہتے، یہ عدالت کی ذمہ داری نہیں ہے۔

شیر افضل مروت نے مؤقف اپنایا کہ عدالت کی نہ صحیح ریاست کی ذمہ داری تو ہے نا، جس پر عدالت نے کہا کہ ریاست میں اور بھی4 ہائی کورٹس ہیں اور ریاست ان کو بھی جواب دہ ہے۔اس موقع پر عدالتی معاون زینب جنجوعہ نے مؤقف اپنایا کہ میں کچھ تحریری معروضات پیش کرنا چاہوں گی، ملزم یا قیدی جس کی جوڈیشل کسٹڈی میں ہوتا ہے اس کو دیکھنا ہوگا۔بعد ازاں عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل کے درخواست پر دائرہ اختیارات سے متعلق اعتراضات مسترد کرتے ہوئے جیل رولز کی شک 265 کے خلاف شیر افضل مروت کی درخواست قابل سماعت قرار دے دی۔

عدالت نے اگلے جمعہ کو جیل رولز کی شک 265 کے خلاف درخواست پر دلائل بھی طلب کر لیے۔شیر افضل مروت نے بتایا کہ اگلے جمعہ کو میں دستیاب نہیں ہوں گا، میں تحریری معروضات جمع کروا دوں گا جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ اگر اپ کے پاس کوئی اضافی مواد ہے تو ٹھیک ہے، اگر آپ معاون وکیل سے مطمئن ہیں تو تحریری معروضات کی بھی ضرورت نہیں۔بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت اگلے جمعہ تک ملتوی کر دی۔

واضح رہے کہ 26 اپریل کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے اڈیالہ جیل میں قیدیوں کی سیاسی گفتگو پر پابندی کی شق کالعدم قرار دینے کی درخواست پر سماعت ملتوی کردی تھی۔یاد رہے 25 اپریل کو اسلام آباد کی احتساب عدالت نے بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور ان کی اہلیہ بشری بی بی کو ریاستی اداروں اور ان کے افسران کے خلاف بیان بازی سے روک دیا تھا۔

عمران خان کی فیئر ٹرائل کی درخواست پر احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا نے بڑا حکم جاری کیا تھا۔حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ میڈیا سیاسی اشتعال انگیز بیانیے جو ریاستی اداروں اور ان کے افسران کو ہدف بناتے ہوں انہیں شائع کرنے سے پرہیز کریں، الزام ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے ریاستی اداروں کی قابل عزت شخصیت کے خلاف سیاسی ، اشتعال انگیز ، متعصبانہ بیانات دیے، عدلیہ ، پاک آرمی اور آرمی چیف کے حوالے سے بیانات عدالتی ڈیکورم میں خلل ڈالنے کے مترادف ہیں۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں