بینک دولت پاکستان نے ’’برابری پر بینکاری پالیسی‘‘ پر مشاورت کا آغاز کردیا

پالیسی کا مسودہ اسٹیٹ بینک کی ویب سائٹ پربھی اپ لوڈ کر دیا گیا عنقریب لاگو ہونیوالی برابری پر بینکاری پالیسی کے تحت مالی شعبے میں شناخت کردہ شعبوں اور مخصوص اقدامات کے ذریعے ایک صنف نقطہ نگاہ متعارف کرایا جائے گا

بدھ 24 فروری 2021 22:41

بینک دولت پاکستان نے ’’برابری پر بینکاری پالیسی‘‘ پر مشاورت کا آغاز کردیا
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 24 فروری2021ء) بینک دولت پاکستان نے دسمبر 2020ء میں اپنی ’’برابری پر بینکاری پالیسی ‘‘کے حوالے سے مختلف قومی اور بین الاقوامی فریقوں سے مشاورت کا آغاز کیا۔ پالیسی کا مسودہ اسٹیٹ بینک کی ویب سائٹ پربھی اپ لوڈ کر دیا گیا ہے ۔بینک دولت پاکستان کے مطابق عنقریب لاگو ہونیوالی برابری پر بینکاری پالیسی کے تحت مالی شعبے میں شناخت کردہ شعبوں اور مخصوص اقدامات کے ذریعے ایک صنفی نقطہ نگاہ متعارف کرایا جائے گا تاکہ مالی شعبے میں خواتین کے لیے آسانیاں پیدا کی جاسکیں۔

متعدد شعبوں کے ملکی فریقوں کے ساتھ متعدد مذاکراتی نشستیں (فوکس گروپ ڈسکشنز) ہوچکی ہیں۔ مشاورتی عمل میں اسٹیٹ بینک کی شراکت کے ساتھ عالمی بینک نے ایک ویب نار بعنوان 'اسٹیٹ بینک کی برابری پر بینکاری پالیسی پر مشاورتی مذاکرات' کا انعقاد کیا تاکہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے تناظر میں صنفی مالی شمولیت کے حوالے سے عالمی رہنمائوں کی صنفی پالیسیوں اور ان کے تجربات سے استفادہ کیا جاسکے۔

(جاری ہے)

اس ویب نار کو اسٹیٹ بینک اور عالمی بینک پاکستان کے فیس بک پیجز پر براہِ راست نشر کیا گیااور بڑے پیمانے پر دیکھا گیا۔ ویب نار کے دوران اسٹیٹ بینک کے گورنر ڈاکٹر رضا باقر نے بین الاقوامی شرکا کے ساتھ پینل ڈسکشن کی میزبانی کی، جس میں عالمی بینک کی گلوبل ڈائریکٹر جینڈر کیرن گرائون، ویمنز ورلڈ بینکنگ کی صدر اور سی ای او میری ایلن اسکنڈرین، اور انڈونیشیاس کے او سی بی سی ط این آئی ایس پی بینک کی صدر ڈائریکٹر پاروتی سرجودجا شامل تھیں۔

اس نشست میں اس شعبے کے معروف ماہرین کو صنفی مین اسٹریمنگ کے حوالے سے اپنے تجربات پر روشنی ڈالنے کا موقع ملا جس سے اسٹیٹ بینک کی صنفی پالیسی کے مشاورتی عمل کو تقویت ملی۔ گورنر رضا باقر نے کہا کہ مالی شمولیت کی حکمت ہائے عملی میں یہ مفروضہ مضمر ہے کہ قومی ترقی کے اہداف کے حصول کی خاطر ہر شہری ، مرد و زن دونوں، کو متحرک طور پر استعمال کیا جائے۔

تاہم خواتین وسائل اور مواقع سے غیرمتناسب طور پر دور ہیں اور اس سلسلے میں ہدفی اقدامات درکار ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ بہت خوشی کی بات ہے کہ اسٹیٹ بینک کی ٹیم نے یہ اقدام کیا ہے، جس سے مالی شعبے میں عمداً صنفی طرز عمل کے ذریعے اس فرق کو ختم کرنے کے لیے عملی اقدامات بتائے گئے ہیں۔بات چیت کے دوران گرائون نے اجاگر کیا کہ صنفی غیرجانبداری عملی طور پر ایک لاشعوری صنفی تعصب بن جاتی ہے جس کی وجہ سے خواتین کو نظرانداز کیا جاتا ہے لہٰذا مالی مصنوعات اور خدمات پر ایک صنفی نقطہ نظر کا اطلاق ہونا چاہیی

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں