ہم سسٹم کے تابع ہوئے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے‘ جسٹس منصور علی شاہ

آئین کہتا ہے آزاد عدلیہ ہونی چاہیے جو سستا انصاف دے، ترقی کے لئے فرد سے نکل کر سسٹم میں آنا ہوگا

ہفتہ 27 اپریل 2024 18:02

ہم سسٹم کے تابع ہوئے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے‘ جسٹس منصور علی شاہ
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 27 اپریل2024ء) سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ ہم سسٹم کے تابع ہوئے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے،عدلیہ مکمل آزاد ہونی چاہیے، ترقی کے لئے فرد سے نکل کر سسٹم میں آنا ہوگا، دنیا میں ہماری عدلیہ کے بارے میں ڈیٹا قابل تشویش ہے،ہمیں کرپشن اور کام نہ کرنے والے ججز سے متعلق کسی صورت بھی کمپرومائز نہیں کرنا چاہیے ،پاکستان میں 2.4ملین کیسز زیر التواء ہیں، جنوری 2023 سے دسمبر 2023 تک 1.39ملین کیسوں کے فیصلے دیئے ،زیر التوا کیسسز کو کم کرنے کے لئے جدید اصلاحات کی ضرورت ہے، ہمیں سمارٹ ٹیکنالوجی کو ڈسٹرکٹ کی سطح تک لے کر جانا ہو گا ۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے مقامی ہوٹل میں میں 2روزہ 5ویں عاصمہ جہانگیر کانفرنس سے بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

(جاری ہے)

مسٹر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ عاصمہ جہانگیر کی انسانی حقوق کے لیے بڑی خدمات ہیں، عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں شرکت کرنا میرے لیے اعزاز کی بات ہے، میں آج مستقبل کی بات کروں گا۔جب تک ہم ایک سسٹم کے تابع نہیں ہونگے تب تک ہم بہترین جوڈیشل سسٹم قائم نہیں کر سکتے ،آئین ہمیں یہ کہتا ہے کہ ایک آزاد عدلیہ ہونی چاہیے جو سستا انصاف دے، ہماری جوڈیشری میں کالے دھبے بھی ضرور ہیں ، ہماری جوڈیشری میں ہزاروں فیصلے ہرسال ہوتے ہیں اس میں سے کچھ فیصلے تنقید کا نشانہ بھی بن سکتے ہیںلیکن میں جوڈیشری کو کریڈٹ دینا چاہتا ہوں یہ بہت سارے فیصلے کرکے کام بھی کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت ہمارے پاکستان میں 2.4ملین کیسسز زیرء التوا ہیں، ، جنوری 2023 سے دسمبر 2023 تک 1.39 ملین کیسوں کے فیصلے دیئے ،اس وقت دنیا میں ہماری جوڈیشری کا 132 واں نمبر ہے، میں دنیا میں ہماری جوڈیشری کے اس نمبر کو بہتر نہیں کہونگا۔انہوں نے کہا کہ میں عدلیہ کی تاریخ سے بہت خوش نہیں ہوں، کچھ ایسا ہو جاتا ہے جس پر عدلیہ پر تنقید ہوتی ہے، زیر التوا کیس کے لیے ٹیکنالوجی کا سہارا لینا ضروری ہے، اپنیسسٹم میں آئی ٹی نہیں لائیں گے تو 24 لاکھ کیس نمٹانا مشکل ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ کسی سیشن جج سے پوچھوں تو وہ کیس کے بارے میں نہیں بتا سکتے، ہمیں اسمارٹ ٹیکنالوجی ڈسڑکٹ لیول تک لے کر جانی ہے، دنیا میں ہماری عدلیہ کے بارے میں ڈیٹا قابل تشویش ہے۔جسٹس منصور نے کہا کہہمیں کرپشن اور کام نہ کرنے والے ججز سے متعلق کسی صورت بھی کمپرومائز نہیں کرنا چاہیے ۔ جو جج صحیح کام نہیں کررہا تو نکال باہر کریں، یہ نہیں ہو سکتا کہ جو جج کام نہ کرے وہ مزید جوڈیشری کا حصہ رہے اور یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ ہم فیصلہ لینے کے لئے اپنی مرضی کا جج لگائیں ۔

میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسی کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے لیے بہترین اقدامات کیے، ایسا سسٹم لانا چاہتے ہیں جس میں کیس اور بینچ کی تشکیل آٹومیٹک ہو، بینچز کی تشکیل کے آرٹفیشل انٹلیجنس کو استعمال کرنا ہو گا ، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ ایک بہترین جانب جانے کا ذریعہ بنا ہے، ہمیں دنیا کی پریکٹس کو دیکھنا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ کرپشن پر زیرو ٹالرنس ہونی چاہیے، عدلیہ میں کرپشن کو مکمل ختم ہونا چاہیے، جس جج کوسلیکٹ کر رہے ہیں سفارش کے بجائے اس کا کام دیکھیں اور میرٹ پر بنائیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پاکستان میں 4ہزار ججز ہیں اور 3ہزار کام کر رہے ہیں، پاکستان کی آبادی 231ملین ہے، اس تناسب سے فی ملین 13جج ہیں، دنیا میں اوسطاً فی ملین آبادی پر 90جج ہیں، عالمی معیار فی ملین آبادی پر 90جج کو اپنایا جائے تو پاکستان کو21ہزار جج درکار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بات بات پر ہڑتال ہوتی ہے، کرکٹ میچ ہار گئے تو اسٹرائیک ہو جائے گی، لوگ بکریاں بھینس بیچ کر عدالتوں میں آتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ برازیل میں بجٹ میں سب سے اہم جوڈیشری ہے، ورلڈ بینک کی رپورٹ کے تحت 80فیصد کیس ملتوی کرا دیئے جاتے ہیں، جہاں عدلیہ کی جانب سے کچھ ہوتا ہے وہاں وکلاء بھی کیسوں میں تاخیر کرتے ہیں، ہڑتال میں کسی شخص کو عدالت آنے کے لئے کیا قیمت ادا کرنی پڑتی ہے اس کا احساس کریں۔

انہوں نے کہا کہ برطانیہ میں 203لوگوں کے لئے ایک وکیل ہے، پاکستان میں ایک ہزار لوگوں کے لیے ایک وکیل ہے، پاکستان میں وکلاء کی تعداد بڑھنی چاہیے لیکن وکلا صحیح ہوں، دنیا بھر میں کمرشل کورٹس کو اہمیت دی جاتی ہے ہمیں اس پر توجہ دینی ہوگی، پاکستان میں کمرشل کوریڈور بنے گا اس سے معیشت کے معاملات حل کرنے میں آسانی ہوگی۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پاکستان کی آبادی کا 50فیصد خواتین ہیں لیکن ہم خواتین جج نہیں لا رہے، 562جج خواتین ہیں اس کے لئے ہمیں اہم اقدامات کرنا ہوں گے، جب تک ٹریننگ نہیں ہوگی سسٹم نہیں چل سکتا، ٹریننگ اور اصلاحات چھوڑ دیں تو سسٹم میں بہتری نہیں آسکے گی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جسٹس سسٹم کمزور ہوگا تو کوئی سسٹم نہیں چلے گا، مضبوط جسٹس سسٹم دیگر اداروں کو بھی مضبوط کرے گا۔انہوں نے کہا کہ سب سے زیادہ ضروری ہے کہ ٹیکنالوجی سسٹم کو لائیں، زیر التوا کیسسز کو کم کرنے کے لئے جدید اصلاحات کی ضرورت ہے، ہمیں سمارٹ ٹیکنالوجی کو ڈسٹرکٹ کی سطح تک لے کر جانا ہوگی، ہمیں ایسا سسٹم بنانا ہے جس سے معلوم ہوسکیں کہ کیس کیوں التوا کا شکار ہے، ایسا الارم بیل بنانا چاہتے ہیں جو بتا دے کہ فلاں کیس کو 3سال ہوچکے ہیں، سرخ، گرین اور یلیو کی بنیاد کر کام شروع کر دیا ہے، ایک وقت آئے گا تمام کیسسز گرین ہوں گے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہمارا سب سے اہم کام ججز کی تعیناتی کا طریقہ کار ہے، اس وقت جوڈیشل کمیشن کے پاس رولز کا معاملہ زیر التوا ہے، ہم نے دیکھنا ہے کہ جج کو تعینات کیسے کرنا ہے، کیوں کہ ایک جج نے 20سال سسٹم میں رہنا ہوتا ہے، ایک جج سسٹم بیٹھا سکتا ہے اور اٹھا بھی سکتا ہے، ایسا سسٹم لانا ہے کہ جج کا بیٹا جج اور اسکا بیٹا جج ناں بن سکے۔انہوں نے مزید کہا کہ ہمارا کمرشل کورٹ ہی کوئی نہیں، پاکستان میں پورا کمرشل کوریڈور بننا چاہیے، ریونیو کے کیسز اور اکانومی کے معاملات کمرشل کورٹ میں ہی دیکھے جاتے ہیں، ہمیں اپنا کمرشل کوریڈور شروع کرنا ہے جس پر کام جاری ہے، جب تک مستقبل ٹریننگ نہیں ہوگی،سسٹم نہیں چل سکتا۔

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں