پنجاب اسمبلی نے بھارتی جارحیت کیخلاف مذمتی قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی،،معاملے کو بین الاقوامی سطح پر اٹھایا جائے ‘ مطالبہ

بھارت کشمیرکے مسئلے سے توجہ ہٹانے کیلئے بزدلانہ کارروائیاں کر رہا ہے ،ایوان بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے پر پاک فوج کو خراج تحسین پیش کرتا ہے ‘ متن/حکومت جراتمندانہ موقف پیش نہیں کر رہی ‘ ڈاکٹر وسیم اختر کا ٹوکن واک آئوٹ مولانا فضل الرحمن کو کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بنا کر نوازا جا رہا ہے ،کسی اور طرح سے نواز دیا جائے لیکن انکی جگہ کسی اور شخص کو چیئرمین بنا یا جائے ‘ محمود الرشید پی ٹی آئی کے چیئرمین لندن میں اپنی شادی کی تو بات کرتے ہیں لیکن کشمیر پر کچھ نہیں بولتے ‘ ڈاکٹر فرزانہ نذیر کے ریمارکس پر حکومتی ، اپوزیشن اراکین کی مخالفانہ نعرے بازی صرف لاہور نہیںپورے پنجاب کا ہر فرد غیر محفوظ ہے ‘ اپوزیشن کا امن و امان کی صورتحال کو ابتر قرار دیتے ہوئے ایوان کی کارروائی سے ٹوکن واک آئوٹ امن و امان پر بحث کرنے کیلئے تیار ہیں ،ثابت کریں گے پنجاب میں ناصرف دہشتگردی میں کمی ہوئی ہے کرائم ریٹ بھی نیچے آیا ہے ‘ وزیر قانون

جمعرات 24 نومبر 2016 21:40

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 24 نومبر2016ء) پنجاب اسمبلی کے ایوان نے لائن آف کنٹرول پر بھارتی جارحیت کیخلاف مذمتی قرارداد متفقہ طور پرمنظور کر تے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ اس معاملے کو بین الاقوامی سطح پر اٹھایا جائے اور عالمی برادری کے ذریعے بھارتی جارحیت اور اس کے جارحانہ عزائم کا نوٹس لے کر اسے بین الاقوامی قوانین کی پابندی پر مجبور کیا جائے ،اپوزیشن نے امن و امان کی صورتحال کو ابتر قرار دیتے ہوئے ایوان کی کارروائی سے ٹوکن واک آئوٹ کیا ،کورم پورا نہ ہونے کے باعث سپیکر نے اجلاس آج جمعہ صبح نو بجے تک کیلئے ملتوی کردیا ۔

پنجاب اسمبلی کا اجلاس اپنے مقررہ وقت دو بجے کی بجائے 2گھنٹی25منٹ کی تاخیر سے سپیکر رانا محمد اقبال کی صدارت میں شروع ہوا ۔

(جاری ہے)

صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اللہ خان نے بھارتی جارحیت کیخلاف مذمتی قرارداد پیش کرنے کیلئے قواعد کی معطلی کی تحریک کی منظوری کے بعد ایوان میں قرارداد پیش کی جس کے متن میں کہا گیا کہ صوبائی اسمبلی کا یہ ایوان لائن آف کنٹرول پر جاری حالیہ بھارتی جارحیت کی پرزور الفاظ میں مذمت کرتا ہے ۔

تحریک آزادی کشمیر میں نئی جان پڑنے کے بعد سے بھارتی حکومت بدحواسی کا شکار ہے اور اس کی ظالم فوج کے ہاتھوں درجنوں بے گناہ کشمیری شہید ہو چکے ہیں اور بے شمار کو بیلٹ گن کے استعمال سے نابینا اور زخمی کیا جا چکا ہے ۔ اب بھارتی سکیورٹی فورسز ان واقعات سے عالمی توجہ ہٹانے کے لئے اپنی روایتی بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شہری آبادی پر مسلسل بلا اشتعال فائرنگ کر رہی ہیں اور پاک فوج کے ساتھ ساتھ معصوم بچوں سمیت عام شہریوں کو اپنی جارحیت کا نشانہ بنا کر بین الاقوامی قوانین کی مسلسل خلاف ورزی کی مرتکب ہو رہی ہیں ۔

یہاں تک کہ بسوں اور ایمبولینس پر بھی حملے کئے جا رہے ہیں ۔ یہ ایوان بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے پر پاک فوج کو خراج تحسین پیش کرتا ہے اور شہید ہونے والے فوج افسران اور جوانوں کی شجاعت کو سلام پیش کرتا ہے ۔ یہ ایوان بھارتی جارحیت کے نتیجے میںہونے والی سول اور فوجی شہادتوں پر اظہار غم کرتا ہے اور شہداء کی بلندی درجات کے لئے دعا گو ہے ۔

یہ ایوان وفاقی حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ اس معاملے کو بین الاقوامی سطح پر اٹھایا جائے اور عالمی برادری کے ذریعے بھارتی جارحیت اور اس کے جارحانہ عزائم کا نوٹس لے کر اسے بین الاقوامی قوانین کی پابندی پر مجبور کیا جائے ۔ ایوان نے قرارداد کی متفقہ طور پر منظوری دی ۔ جماعت اسلامی کے رکن اسمبلی ڈاکٹر وسیم اختر نے کہا کہ ہم کب ایوانوں میںمذمتی قرار دادیں منظور کرتے رہیںگے ،وفاقی حکومت کو ایک جراتمندانہ پالیسی بنانا ہو گی، بھارت کی طرف سے جارحیت کرکے ہمارے فوجی جوانوں اور شہریوں کو گولیوں کا نشانہ بنا کر شہید کیا جا رہا ہے، بھارت روازنہ کی بنیاد پر لائن آف کنٹرول پر بربریت کا مظاہرہ کر رہا ہے، میرا وفاقی حکومت سے یہ مطالبہ ہے کہ وہ قوم کو اعتماد میں لے کر ایک جراتمندانہ پالیسی مرتب کرے اور بھارت کو منہ توڑ جواب دیا جائے ۔

صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے کہا کہ حکومت پہلے ہی جراتمندانہ پالیسی رکھتی ہے جس کے نتیجے میں بھارتی فوج کے 13اہلکاروں کو جوابی کارروائی میں ہلاک کیا گیا ہے ۔ بھارتی فوج ہمارے شہریوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کرتی ہے جبکہ ہماری بہادر فوج شہریوں کی بجائے ان کے اہلکاروں کو نشانہ بناتی ہے ۔اسی طرح سفارتی سطح پر بھی اس اقدام کو اجاگر کرنے کے لئے پالیسی مرتب کی جا رہی ہے ۔

ڈاکٹر وسیم اختر نے کہا کہ وفاقی حکومت باضابطہ طور پر وزیر خارجہ کا تقرر کرے تاکہ سفارتی سطح پر کشمیریوں کی نمائندگی کی جا سکے ۔انہوںنے کہا کہ میں وفاقی حکومت کی طرف سے جراتمندانہ اقدام نہ کرنے پر ٹوکن واک آئوٹ کرتا ہوں اور وہ ایوان سے باہر چلے گئے ۔ قائد حزب اختلاف میاں محمود الرشید نے کہا کہ وفاقی حکومت کشمیر کمیٹی کے لئے جو فنڈز مختص کرتی ہے اس کو استعمال میں لایا جائے ۔

مولانا فضل الرحمن کو کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بنا کر نوازا جا رہا ہے انہیں کسی اور طرح سے نواز دیا جائے لیکن ان کی جگہ کسی اور شخص کو چیئرمین بنا کر کشمیر کی تحریک کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے ۔ حکومتی رکن اسمبلی ڈاکٹر فرزانہ نذیر نے کہا کہ پی ٹی آئی والے کشمیر کی بات کرنے کی بجائے مسئلے کو خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ان کے چیئرمین لندن میں اپنی شادی کی تو بات کرتے ہیں لیکن کشمیر پر کچھ نہیں بولتے ، ہم کیسے سمجھیں کہ یہ کشمیریوں کے حق میں ہیں ۔

جس پر اپوزیشن کی طرف سے نعرے بازی شروع کر دی گئی اور مودی کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے کے نعرے لگائے گئے ۔اس کے جواب میں حکومتی بنچوں سے بھی مخالفانہ نعرے شروع ہو گئے ۔ اس دوران (ق) لیگ کی خدیجہ عمر نے نقطہ اعتراض پر بات کرنا چاہی تو حکومتی خواتین ارکان اسمبلی نے انہیں ’’ لوٹی لوٹی ‘‘ کہنا شروع کر دیا ۔ اس دوران خدیجہ عمر احتجاجاً اسپیکر چیئر کی طرف بڑھیں کہ مجھے بولنے کا موقع نہیں دیا جا رہا لیکن اسی دوران پی ٹی آئی کے عارف عباسی نے کورم کی نشاندہی کر دی ۔

جس پر سپیکر نے گنتی کرائی تو کورم پورا نہ تھا ۔ جس کے بعد اجلاس آج ( جمعہ ) صبح 9بجے تک ملتوی کر دیا گیا ۔قبل ازیں اجلاس میں گزشتہ روز صوبائی وزیر ذکیہ شاہنواز نے تحفظ ماحول، صوبائی وزیر چوہدری شیر علی نے کان کنی و معدنیات اور پارلیمانی سیکرٹری محمد ثقلین انور سپرا نے اوقاف و مذہبی امور سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ۔ ذکیہ شاہنواز نے ایوان کو بتایا کہ جدید ترین ٹیکنالوجی کے استعمال کے باعث ساہیوال میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے منصوبے سے ماحولیاتی آلودگی پیدا ہونے کا کوئی امکان نہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ لاہور کے لئے ایک ائیر مانیٹرنگ اسٹیشن خرید لیا گیا ہے جبکہ دیگر اضلاع کے لئے مزید پانچ خریدے جارہے ہیں ۔ یہ موبائل اسٹیشنز ہوں گے جنہیں کہیں بھی لے جایا جا سکے گا۔قائد حزب میاں محمود الرشید نے صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ کی طرف سے دئیے گئے توجہ دلائو نوٹس کے جواب پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت نہ صرف لاہور بلکہ پورے پنجاب کا ہر فرد غیر محفوظ ہے ، لاہور کے ہر چوراہے میںڈکیتی کی وارداتیں ہو رہی ہیں ۔

اس سال بھی پولیس کے بجٹ میں 20ارب روپے کا اضافہ کیا گیا ، نت نئی فورسز قائم کی جا رہی ہیں لیکن وہ اپنے مقاصد پورے نہیں کر رہیں ۔ امن و امان کی ابتر صورتحال پر اپوزیشن اراکین نے ایوان سے ٹوکن واک آئوٹ کیا ۔ صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے کہا کہ اگر اپوزیشن نے شور شرابا کر کے بائیکاٹ ہی کرنا ہوتا ہے تو یہ ان کانامناسب اور غیر سنجیدہ رویہ ہے ، ہم امن و امان پر بحث کرنے کے لئے تیار ہیں جو بھی دن مقرر کریں ہم اعداد و شمار اور حقائق پر مبنی رپورٹ ایوان میں پیش کرکے ثابت کریں گے کہ پنجاب میں ناصرف دہشتگردی میں کمی ہوئی ہے بلکہ کرائم ریٹ بھی بہت نیچے آیا ہے ۔

اگر کوئی نیا گینگ ابھرا ہے تو اسے بھی بہت جلد گرفتار کر کے ناصرف سزا دیں گے بلکہ عوام کے سامنے بھی پیش کریں گے ۔اسی دوران اپوزیشن اراکین ایوان میں واپس آگئے ۔ اجلاس کے دوران قائمہ کمیٹی برائے تعلیم ، لائیو سٹاک اور محکمہ قانون کی رپورٹس ایوان میں پیش کی گئیں ۔ اجلاس کے دوران پی ٹی آئی کے رکن خرم شہزاد نے اپنے گھر فیصل آباد میں پولیس کی طرف سے کی جانے والی ریڈ کے بارے میں بتایا کہ 31اکتوبر کو پولیس کی دس گاڑیاں میرے گھر آئیں اور پولیس زبردستی میرے بیڈ روم میں گھس گئی اور چار دیواری کے تقدس کو پامال کیا گیا جس کی مذمت کرتا ہوں اور مطالبہ کرتا ہوں کہ ایسا کرنے والے پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی جائے ۔

جس کے جواب میں وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے کہا کہ دو نومبر کے دھرنے کے حوالے سے ان کی نظر بندی کے احکامات جاری ہوئے تھے لیکن اگر پولیس نے کوئی زیادتی یا چا درچار دیواری کے تقدس کو پامال کیا ہے تو وہ ایوان میں تحریک پیش کریں ہم اس پر ایکشن لیں گے اگر نہیں تو جیسا وہ کہتے ہیں ویسے کرنے کو تیار ہیں ۔ اس موقع پر بھی اپوزیشن اور حکومتی ارکان کی طرف سے ایک دوسرے کے خلاف نعرے بازی کی گئی۔

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں