عدالتی اصلاحات کیلئے اکیڈیمیا، بارز اور عدلیہ کو مل کر کام کرنا ہوگا، مقررین

جمعرات 28 مارچ 2024 16:53

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 28 مارچ2024ء) معروف قانونی ماہرین نے کہا ہے کہ پاکستان میں لوگوں کو سستا اور فوری انصاف فراہم کرنے کیلئے عدالتی نظام میں اصلاحات ناگزیر ہیں جس کے لیے اکیڈیمیا، بارز اور عدلیہ کو مل کر کام کرنا ہو گا۔ وہ پنجاب یونیورسٹی لا کالج اورانسٹیٹیوٹ فار لیگل ریسرچ اینڈ ایڈووکیسی کے زیر اہتمام پاکستان میں انصاف تک رسائی اور ثالثی کا کردار پرگول میز کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔

اس موقع پر پر نسپل پنجاب یونیورسٹی لا کالج پروفیسر ڈاکٹر شازیہ قریشی، نائب چیئرمین پنجاب بار کونسل کامران بشیر مغل، چیئرمین بورڈ آف ڈائریکٹرانسٹیٹیوٹ فار لیگل ریسرچ اینڈ ایڈووکیسی سید شہباز بخاری، چیئرمین بورڈ آف ایڈوائزری انسٹیٹیوٹ فار لیگل ریسرچ اینڈ ایڈووکیسی ظفر اقبال کلانوری، ایسوسی ایٹ پروفیسرڈاکٹر نعیم اللہ خان اور طلبا وطالبات نے شرکت کی۔

(جاری ہے)

معروف قانون دان ظفر اقبال کلانوری نے کہا کہ پاکستان میں وٹہ سٹہ کی شادی، جہیز، زر، زن اور زمین کے جھگڑے ہیں جن کے حل میں ثالثی کا نظام کردار ادا کر سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر عدالتی نظام میں اصلاحات نہ کی گئیں تو پاکستان کی عدالتوں میں کیسز نمٹانے میں کئی سال لگ جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور دیگر ممالک میں جتنے بڑے وکلا ہیں ان سب کا تعلق پنجاب یونیورسٹی سے ہے۔

کامران بشیر مغل نے کہا کہ بار کونسلز کو تعلیمی اداروں سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ سید شہباز بخاری نے کہا کہ پاکستان میں فیملی لا موجود ہیں لیکن درست طریقے سے عمل نہ ہونے کے باعث طلاق کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر شازیہ قریشی نے کہا کہ تعلیمی اورقانونی ماہرین کو ایک پلیٹ فارم پرقانونی بحث کیلئے اکٹھا کرنے پر منتظمین مبارکباد کے مستحق ہیں۔

ڈاکٹر نعیم اللہ خان نے کہا کہ آئین سے پہلے لوگ آپس میں معاملات کو طے کر لیا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ثالثی کے نظام کیلئے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ برطانیہ کے عدالتی نظام میں مداخلت پر بار کونسلز نے کردار ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ کمرشل اور گھریلوں جھگڑوں سے معیشت کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں