آئینی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہوئے عدل و انصاف کی فراہمی جاری رکھیں گے، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ

جمعہ 24 مئی 2024 22:50

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 24 مئی2024ء) چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس ملک شہزاد احمد خان نے کہا ہے کہ ایک جج اپنی نوکری، مراعات یا تنخواہ کی پرواہ کئے بغیر سب سے زیادہ اہمیت لوگوں کو انصاف کی فراہمی پر دیتا ہے ۔اس امر کا اظہار انہوں نے جمعہ کے روز پنجاب جوڈیشل اکیڈمی میں پری سروس ٹریننگ کورس مکمل کرنے والے جوڈیشل افسران کے اعزاز میں تقسیم اسناد کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

اس موقع پر رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ عبدالرشید عابد، ڈی جی جوڈیشل و کیس مینجمنٹ تنویر اکبر، سیشن جج ہیومن ریسورس ساجد علی اعوان اور ڈی جی ڈسٹرکٹ جوڈیشری عبہر گل خان سمیت دیگر افسران بھی موجود تھے۔ ڈی جی پنجاب جوڈیشل اکیڈمی عبدالستار نے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ اور دیگر معزز مہمانوں کا استقبال کیا۔

(جاری ہے)

اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے کہا کہ عدل کرنا اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور ایک جج اللہ کی جانب سے چنا جاتا ہے اس لئے جج بے خوف، جرات مند اور دانشمند ہوتا ہے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے کہا کہ یہ بات باعث اطمینان ہے کہ نئے ججز میں خواتین کی تعداد بھی موجود ہے،پری سروس ٹریننگ مکمل ہونے کے بعد آپ عملی انصاف کی جانب گامزن ہونگے۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ ملک شہزاد احمد خان نے بتایا کہ اس وقت پنجاب کی ضلعی عدلیہ میں 14 لاکھ کے قریب مقدمات زیرالتوا ہیں اور پنجاب کی ضلعی عدلیہ میں نئے ججز کو شامل کرکے 1760 ججز تعینات ہیں۔ اس وقت پنجاب کی ضلعی عدلیہ میں 800 جوڈیشل افسران کی کمی ہے۔ صوبے کی ضلعی عدلیہ میں گزشتہ تین مہینوں میں 8 لاکھ 16 ہزار سے زائد نئے مقدمات دائر ہوئے جبکہ اسی عرصہ میں 8 لاکھ 25 ہزار سے زائد مقدمات کے فیصلے ہوئے۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ محدود وسائل کے باوجود دنیا کے ساتھ مقابلے میں ہمارے ججز سب سے زیادہ کام کرتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ لاکھوں کی تعداد میں زیرالتوا مقدمات میں کمی لانے کے لئے ویڈیو لنک سے استفادہ وقت کی اہم ضرورت ہے اور پنجاب میں بہت جلد شہادتوں کے ریکارڈ اور عدالتی کارروائی کے لئے بہت جلد ویڈیو لنک کا آغاز ہو جائے گا۔ اس کے لئے ججز کو چاہیے کہ وہ جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی پر مکمل عبور حاصل کریں۔

چیف جسٹس ملک شہزاد احمد خان نے کہا کہ پاکستان میں اے ڈی آر سے مکمل طور پر استفادہ نہیں کیا جارہا ہے۔ وقت کی ضرورت ہے کہ انصاف کے متبادل نظام سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہوا جائے۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ ملک شہزاد احمد خان کا مزید کہنا تھا کہ مقدمات میں تاخیر کی بڑی وجہ ہڑتال کلچر ہے۔ صوبائی دارلحکومت میں جنگل کا قانون نافذ کردیا گیا تھا، عوام کے انصاف تک رسائی کے حقوق کو ختم کردیا گیا تھا۔

لیکن ہم نے فیصلہ کیا کہ عوام کو حقوق کو سلب نہیں ہونے دیا جائے گا۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کے تمام ججز نے یک زبان ہوکر اب مزید تالہ بندی برداشت نہیں کی جائے گی۔ ہمارا یہ ماننا ہے کہ پاکستان کے 90 فیصد سے زائد وکلا پروفیشنل ہیں اور انہی پروفیشنل وکلا نے ہڑتال کلچر کو ختم کرنے میں ہمارا ساتھ دیا۔ اس سارے معاملے میں چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ اور سپریم کورٹ کے ججز نے مرکزی کردار ادا کیا جنہوں نے ہڑتال کلچر کی مکمل طور پر حوصلہ شکنی کی۔

9 مئی 2024 کو ہڑتال کی کال کے باوجود چیف جسٹس پاکستان اور سپریم کورٹ کے باقی ججز نے مقدمات کی سماعت کی اورہڑتال کو یکسر مسترد کیا۔ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے قریبی ساتھی قاضی عیسیٰ کے بیٹے ہیں، انہوں نے ہمیشہ آئین اور قانون کی بالادستی کو مقدم رکھا ہے، انہوں نے اپنے ایک فیصلے میں قرار دیا کہ پاکستان بار کونسل کے مروجہ قوانین کے تحت ایک وکیل عدالت میں پیش ہونے کا پابند ہے اور وکلا ہڑتال کو بہانہ بنا کر عدالت میں پیش ہونے سے انکار نہیں کرسکتے۔

چیف جسٹس لاہور ملک شہزاد احمد خان نے کہا کہ یہ امر باعث مسرت ہے کہ کسی بھی ہائی کورٹ بار اور ضلعی اور تحصیل بار ایسوسی ایشنز کی اکثریت نے ہڑتال کی کال نہیں دی۔ انشااللہ عدالتوں کا تقدس برقرار رہے گا اور یہ ہڑتال کلچر ختم ہوگا۔ یہ عدالتی نظام کسی طاقتور کے لئے نہیں بنا ہے، بلکہ یہ عدالتی نظام مظلوم کی دادرسی کے لئے بنایا گیا ہے۔ ہم اپنی آئینی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہوئے عدل و انصاف کی فراہمی جاری رکھیں گے۔ اس قبل ڈی جی پنجاب جوڈیشل اکیڈمی عبدالستار نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ تقریب کے اختتام پر چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے ٹریننگ کورس مکمل کرنے والے جوڈیشل افسران میں اسناد بھی تقسیم کیں۔

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں