حکومتی حکمت عملی سے متعلق چیف سیکرٹری بلوچستان سے رپورٹ طلب

شورومز کو شہر سے باہر منتقل کرنے ، جنوبی بلوچستان کی اصطلاح سے متعلق توجہ دلائو نوٹسز نمٹا دئیے گئے

بدھ 21 اپریل 2021 00:02

کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 20 اپریل2021ء) اسپیکر بلوچستان اسمبلی نے کوئٹہ شہر میں واقعہ شو رومز کو شہر سے باہر منتقل کرنے کے عدالتی فیصلے کی روشنی میں حکومتی حکمت عملی سے متعلق چیف سیکرٹری بلوچستان سے رپورٹ طلب کرلی جبکہ شورومز کو شہر سے باہر منتقل کرنے ، جنوبی بلوچستان کی اصطلاح سے متعلق توجہ دلائو نوٹسز نمٹا دئیے گئے، جمعیت کے رکن اصغر علی ترین کو تحریک التواء پیش کرنے کی مطلوبہ تعداد نہ مل سکی، لیبر اینڈ مین پاور کے قوانین کمیٹی کے سپرد کردئیے گئے۔

بلوچستان اسمبلی کا اجلاس منگل کے روز ایک گھنٹہ پینتیس منٹ کی تاخیر سے سپیکر میر عبدالقدوس بزنجو کی زیر صدارت شروع ہوا ۔ اجلاس کے آغاز پر انجینئر زمرک خان اچکزئی اور نصراللہ زیرئے کی استدعا پرمختلف سابق صوبائی وزیر عبیداللہ بابت کے صاحبزادے ، چمن اور اسلام آباد میں قتل ہونے والے افراد کے ایصال ثواب کے لئے فاتحہ خوانی کی گئی جبکہ وقفہ سوالات میں کوئٹہ شہر میں شورومز شہر سے باہر منتقل کرنے سے متعلق سوال پر سپیکر نے رولنگ دی کہ سیکرٹری اسمبلی چیف سیکرٹری کو مراسلہ ارسال کریں جس میں وہ شورومز کو شہر سے باہر منتقل کرنے کے حوالے سے بلوچستان ہائیکورٹ کے فیصلے کی تفصیلات اور حکومت کی پالیسی پر رپورٹ اسمبلی میں جمع کرائیں ۔

(جاری ہے)

ایک موقع پر سپیکر نے ازراء مذاق کہا کہ اپوزیشن ارکان سوال کرکے غائب ہوجاتے ہیں آج حکومت اپنی کارکردگی دکھارہی ہے وزیر خوراک چاک وچست نظر آرہے ہیں اس موقع پر سردار عبدالرحمان کھیتران نے پوائنٹ آف آرڈر پر وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ سترہ اپریل کے اخبارات میں ایک خبر شائع ہوئی ہے کہ گندم کی خریداری پر تین سو روپے فی بوری لئے جارہے ہیں یہ بات ایک حد تک درست ہے لیکن دراصل محکمہ خوراک باردانہ دینے کے عیوض گندم کے فی بیگ تین سو روپے لیتا ہے اور جب یہ گندم واپس خریدی جاتی ہے تو زمیندار وں کو واپس کردی جاتی ہے میں چیلنج کرتا ہوں کہ میرے محکمے میں کہیں پر بھی بد عنوانی ہو اس کی نشاندہی کی جائے ہم کارروائی کریں گے اخبارات بے بنیاد باتوں کو شائع نہ کریں ۔

اجلاس میں محکمہ سماجی بہبود کے زیرانتظام چلنے والے انڈوومنٹ فنڈ سے متعلق اپوزیشن اراکین نے سوال اور اعتراض اٹھائے جس پر سپیکر نے کہا کہ حکومت کا یہ احسن اقدام ہے بہت سارے لوگوں کا مفت علاج ہوا ہے اگر اس پروگرام میں بہتری کی گنجائش ہے تو اراکین اسمبلی کی آراء کو مد نظر رکھتے ہوئے مزید بہتری لائی جاسکتی ہے ۔اجلاس میں پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے نے توجہ دلائو نوٹس پیش کرتے ہوئے وزیر برائے محکمہ مائنز اینڈ منرل کی توجہ 11مارچ2021ء کو مارواڑ کرد مائننگ کارپوریشن کے کوئلہ کان میں ہونے والے دھماکے کی جانب مبذول کراتے ہوئے کہا کہ اس دھماکے میں چھ لیبر جاں بحق ہوئے اور ساتھ ہی ہرنائی سے منسلک طور غر کے کوئلہ کان میں بھی دھماکہ ہوا جس میں سات مزدور جاں بحق ہوئے حکومت نے مذکورہ جاں بحق افراد لیبرز کے لواحقین کی مالی امداد کی بابت اب تک کیا اقدامات اٹھائے ہیں اس کی تفصیل فراہم کی جائے ۔

جس پر مشیر محنت و افرادی قوت محمدخان لہڑی نے بتایا کہ کوئلہ کانوں میں کام کرنے والے رجسٹرڈ کان کنوں کے ہلاکت پر تین لاک روپے متعلقہ مائن اونر اور چھ لاکھ روپے محکمہ ادا کرتا ہے تاہم نصراللہ زیرئے نے وزیر کی بات سے اتفاق نہ کرتے ہوئے کہا کہ کان کن ہمارے معاشرے کا سب سے پسا ہوا طبقہ ہے متعلقہ محکمے نے کان کنوں کو کسی قسم کی سہولیات فراہم نہیں کیں اور نہ ہی حادثات کی روک تھام کے لئے کوئی اقدام اٹھایاگیا ہے بعدازاں توجہ دلائو نوٹس نمٹادیا گیا۔

اجلاس میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے ثناء بلوچ نے توجہ دلائو نوٹس پیش کرتے ہوئے وزیر منصوبہ بندی و ترقیات سے استفسار کیا کہ جنوبی بلوچستان کن اضلاع پر مشتمل ہے اور کیا یہ فیصلہ صوبائی اسمبلی یا کسی قانونی فورم پر کیا گیا ہے نیز بلوچستان کے جن اضلاع میں600ارب روپے کے ترقیاتی سکیمات رکھے گئے ہیں اس کی منظوری کس فورم پر لی گئی ہے ان سکیمات کی مکمل تفصیل فراہم کی جائے ۔

وزیرخزانہ میر ظہور بلیدی نے کہا کہ2008ء کے بعد بلوچستان میں شروع ہونے والی انسر جنسی سے ترقیاتی عمل رک گیا تھا تعمیراتی کمپنیوں پر حملے ہوتے رہے مزدور مارے گئے جس سے تربت ، کیچ ، گوادر ، پنجگور ،آوران ، خضدار سمیت صوبے کے دیگر اضلاع میں ترقی نہیں ہوئی ان اضلاع کی سوشیواکنامک ڈویلپمنٹ رک گئی تھی موجودہ حکومت نے ان اضلاع کو باقی علاقوںکے برابر لانے کے لئے اقدامات کا فیصلہ کیا اور اس حوالے سے وفاقی حکومت اور اسٹیک ہولڈرز کو ساتھ لے کر وزیراعظم عمران خان کے زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں اس حوالے سے پیکج لایا گیاانہوںنے کہا کہ 199سکیمات آن گوئنگ سکیمات ہیں اور ان میں متعدد شاہراہوں کے منصوبے بھی شامل ہیں جن پر کافی عرصے سے کام بند پڑا تھا ۔

انہوںنے کہا کہ بارڈر ٹریڈ کے لئے خصوصی سٹیشن اور بارڈر مارکیٹس بنائی جائیں گی تاکہ لوگوں کو روزگار کے متبادل ذرائع فراہم کئے جاسکیں انہوں نے کہا کہ یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ جنوبی بلوچستان پیکج سے صوبے کا ایک حصہ ترقی کرجائے گا جبکہ یہ بھی تاثر دیا جارہا ہے کہ بلوچستان کو سائوتھ ،نارتھ یا سینٹرل میں تقسیم کیا جارہا ہے یہ درست نہیںہے ۔

انہوںنے کہا کہ حکومت کو احساس تھا کہ یہ علاقے ترقی کے عمل میں پیچھے رہ گئے تھے ان علاقوں کی ترقی کے لئے یہ خصوصی پیکج لایا گیا جس کے خاطرخواہ نتائج برآمد ہوں گے اور ان علاقوں میںترقیاتی اہداف کا حصول ممکن ہوگا۔جس پر ثناء بلوچ نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل تین میں صوبوں کے نام لکھے گئے ہیں اور اگر آئین کی خلاف ورزی کی جائے تو آرٹیکل چھ بھی موجود ہے انہوںنے کہا کہ اگر مان بھی لیا جائے کہ حکومت صرف ایک پیکج کو جنوبی بلوچستان پیکج کا نام دے رہی ہے تو یہ بھی غلط ہے کیونکہ جن اضلاع میں یہ پیکج دیا جارہا ہے وہ صرف جنوبی نہیں بلکہ جنوب مغربی علاقے بنتے ہیں ہم نے چالیس سال تک بلوچستان اور اس کا نام بچانے کی جدوجہد کی ہے کسی کو بھی بلوچستان کا نام تبدیل کرنے نہیں دیں گے ۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان ایک ہے یہاں کوئی شمالی یا جنوبی نہیں جو پیکج وزیراعظم نے دیا ہے ارکان اسمبلی کو اس کا معلوم ہی نہیں چھ سو ارب روپے کے پیکج میں پرانی سکیمات شامل کی جارہی ہیں شرم کی بات ہے کہ آواران کی انسانی ترقی کا انڈکس دنیا میں کم ترین ہے اس کے بعد دو درجے اوپر ڈیرہ بگٹی اور اسی طرح خاران سمیت دیگر علاقوں کا بھی انسانی ترقی کا معیار انتہائی کم ہے بلوچستان کے شورش اور جنگ زدہ علاقوں میں چھ سو ارب روپے کا پیکج دیا جارہا ہے کیا اس کا سروے ہوا کہ اس کے معاشی اور معاشرتی اثرات کیا ہوں گے بعدازاں توجہ دلائو نوٹس نمٹا دیا گیا ۔

اجلاس میں پوائنٹ آف آرڈر پر اظہارخیال کرتے ہوئے سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ محکمہ موسمیات بھی جب پیشگوئی کرتا ہے تو وہ کہتا ہے جنوب ، مشرق ، شمال بلوچستان تو کیا محکمہ موسمیات بھی بلوچستان کو تقسیم کردیتا ہے اپوزیشن پارٹیوںکو2023ء میں اپناصفایا نظر آرہا ہے ان جماعتوں کا بھی پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی جیسا حشر ہوگا ۔

اجلاس میں جے یوآئی کے رکن اصغر علی ترین نے پشین میں بدامنی کے واقعات سے متعلق تحریک التواء ایوان میں پیش کرنی چاہی تاہم تحریک کو مطلوبہ ارکان کی حمایت حاصل نہ ہوسکیں ۔ بعدازاںاجلاس میں وزیر برائے محکمہ لیبر اینڈ مین پاور بلوچستان محمدخان لہڑیکم سے کم اجرت کا مسودہ قانون مصدر 2021( مسودہ قانون نمبر09مصدرہ2021ء ) ، بلوچستان گروی مشقت کا نظام ( خاتمہ ) کا مسودہ قانون مصدر2021(مسودہ قانون نمبر10مصدرہ2021ء )،بلوچستان بچوں کی ملازمت ( ممانعت اور ضابطہ کاری ) کا مسودہ قانون مصدر2021(مسودہ قانون نمبر11مصدرہ2021ء )، ادائیگی اجرت کا مسودہ قانون مصدر2021(مسودہ قانون نمبر12مصدرہ2021ء )ایوان میں پیش کیا جنہیں متعلقہ کمیٹی کے سپرد کیا گیا بعدازاں اجلاس جمعہ21اپریل دوپہر بارہ بجے تک ملتوی کردیا گیا ۔

کوئٹہ میں شائع ہونے والی مزید خبریں