Filmi Shaksiaat Aur 1965 Ki Jung

Filmi Shaksiaat Aur 1965 Ki Jung

فلمی شخصیات اور 1965ء کی جنگ

5 اور 6 ستمبر 1965کی درمیانی شب بھارتی فوج نے لاہور شہر پر قبضہ کی خاطر اچانک اور زور دار حملہ کیا۔ بمباں والی راوی بیدیاں کنال المعروف بی آر بی پر تعینات ہمارے سپاہیوں نے نا ممکن کو ممکن بنانے کی ایک نئی تاریخ رقم کی اور دشمن کو وہیں روک کر اُس کے دانت کھٹے کر دیے۔

جمعہ 7 ستمبر 2018

شاہد لطیف
5 اور 6 ستمبر 1965کی درمیانی شب بھارتی فوج نے لاہور شہر پر قبضہ کی خاطر اچانک اور زور دار حملہ کیا۔ بمباں والی راوی بیدیاں کنال المعروف بی آر بی پر تعینات ہمارے سپاہیوں نے نا ممکن کو ممکن بنانے کی ایک نئی تاریخ رقم کی اور دشمن کو وہیں روک کر اُس کے دانت کھٹے کر دیے۔ مٹھی بھر سپاہیوں کا یہ یہ ملکی دفاع ہماری سنہری تاریخ ہے۔


دنیا نے اِس جنگ میں ایک بالکل ہی نیا ہتھیار دیکھا۔ وہ تھا قومی ولولہ ! یہ ہتھیار ریڈیو پاکستان سے جب جب بھی داغا گیا کامیابی کے 100 فی صد نتائج حاصل ہوئے۔پہلی مرتبہ اس ہتھیار کا استعمال کچھ یوں ہے: جب صبح ریڈیو پاکستان لاہور سے بھارتی حملہ کی خبر نشر ہوئی تو اُس کے فوراََ بعد فلم ’’ چنگیز خان‘‘ ( 1958 ) کے رزمیہ گیت ’ اے مردِ مجاہد جاگ زرا اب وقتِ شہادت ہے آیا ‘ کا گراموفون ریکارڈ لگایا گیا۔

(جاری ہے)

طفیل ؔہوشیارپوری کے اس گیت کو رشید عطرے کی موسیقی میں عنایت حسین بھٹی ا ور ساتھیوں نے بہت ولولے سے صدا بند کروایا تھا۔ اِس کے بعد تو پھر پاکستان کے تمام ریڈیو اسٹیشنوں سے اسی قسم کے فلمی ترانوں کے گراموفون ریکارڈ نشر ہونے لگے۔یہ ایسے ہے گویا گئے زمانے میں جیسے لشکر میں رِجز پڑھنے والے ہوتے تھے۔ اب وہی کام پاکستانی فوج کے لئے شعرائ، موسیقار، سازندوں اور گلوکاروں نے اپنی بہترین صلاحتیں استعمال کر کے کیا۔
اور جنگ میں بھر پور حصہ لیا…وہ بھی ایسا کہ آج تک ہمارے سامنے ماضی قریب و بعید میں ایسی کوئی اور مثال نظر نہیں آتی۔یہی حربیہ موسیقی کا آغاز ہے۔
6 ستمبر کو صبح صدرِ پاکستان ایوب خان کی تقریر نشر ہوئی جس میں بھارتی حملہ کے بارے میں بتایا گیا اور جنگ کا اعلان کیا گیا۔ اس تقریر کے فوراََ بعد گلوکارہ منور سلطانہ، دھنی رام اورغلام فرید قادر فریدی کی آواز میں تنویر ؔنقوی کا لکھا ہوا فلمی گیت نشر ہوا:
آواز دے رہا ہے زمانہ بڑھے چلو
بڑھے چلو، بڑھے چلو، بڑھے چلو
گلوکار سلیم رضا وہ پہلے شخص ہیں جو خود ریڈیو پاکستان لاہور آئے اور ملک و قوم کے لئے بلا معاوضہ اپنی خدمات پیش کر دیں۔
یہ بھی ان کا اعزاز ہے اس جنگ میں سب سے زیادہ نغمات انہوں نے ریکارڈ کروائے۔مثلاََ : ’ اے ہوا کے راہیو بادلوں کے ساتھیو پَر فَشاں مجاہدو…‘ اس کے نغمہ نگار محمود شام تھے یہ پاکستان ائیر فورس کو خراجِ تحسین ہے، ’ میرے لاہور شہر دیاں خیراں…‘ نغمہ نگار اُستاد دامن، ’ جُگ جُگ نگری داتا کی…‘ نغمہ نگار قیوم نظر، ’ توحید کے متوالو ! باطِل کو مٹا دیں گے…‘ نغمہ نگار حبیب جالبؔ، ’زندہ رہے گا زندہ رہے گا سیالکوٹ تو زندہ رہے گا، زندہ قوموں کی تارخ میں نام تیرا تابندہ رہے گا…‘ موسیقار سلیم حسین، نغمہ نگار ناصرؔ کاظمی، ’ تو ہے عزیزِ ملت نشا ن ِحیدر…‘ نغمہ نگار ناصرؔ کاظمی۔
یہ قومی نغمہ عزیز بھٹی شہید نشان ِ حیدر کو اِس کے موسیقار، شاعر ناصرؔ کاظمی اور سلیم رضا کا خراجِ تحسین ہے۔سلیم رضا کے اِن کے علاوہ بھی بہت سے جنگی نغمات ہیں۔
جنگ کے پہلے روز ہی پہلا حربیہ گیت ریڈیو پاکستان لاہور میں تیار ہوا۔اس کا پس منظر یہ ہے کہ صدرِ پاکستان نے ریڈیائی تقریر میں کہا تھا ’’ ہندوستانی حکمران ابھی نہیں جانتے کہ اُنہوں نے کس قوم کو للکارا ہے‘‘ اسی جملے کو بنیاد بنا کر حمایتؔ علی شاعر نے موسیقار خلیل احمد کے ساتھ بیٹھ کر یہ گیت تیار کیا: ’ اے دشمنِ دیں تو نے کس قوم کو للکارا، لے ہم بھی ہیں صف آرا…‘ گلوکار مسود رانا اور شوکت علی نے زبردست جوش اور ولولے کے ساتھ ریکارڈ کرایا۔
اِس قومی نغمے کو جنگِ ستمبر کے پہلے ریڈیو جنگی نغمہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔ یہ نغمہ 6 ستمبر 5:30 بجے شام فوجی بھائیوں کے پروگرام میں نشر ہوا۔
جمعہ 10 ستمبر کو عین جنگ کے زمانے میں فلمساز ریاض بخاری اور ہدایتکار جمیل اختر کی فلم ’’ مجاہد ‘‘ نمائش کے لئے پیش ہوئی۔ کہانی نگار ریاض شاہد تھے۔اس فلم کا مرکزی جنگی نغمہ خلیل احمد کی موسیقی میں حمایتؔ علی شاعر نے لکھا تھا: ’ ساتھیو مجاہدو جاگ اُٹھا ہے سارا وطن…‘پاکستان کے تمام ریڈیو اسٹیشنوں سے یہ دن میں کئی کئی مرتبہ نشر ہوا کرتا تھا۔

جہاںبھی اور جب بھی جنگِ ستمبر کا ذکر ہو گا وہاں ایک نام لازماََ لیا جائے گا… نورجہاں۔ یہ اُس دور میں سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی گلوکارہ تھیں لیکن سلیم رضا کی طرح انہوں نے بھی ریڈیو پاکستان لاہور کو ہی اپنا ٹھکانہ بنا لیا اور تمام جنگی ترانے بلا معاوضہ ریکارڈ کروائے۔میری تحقیق کے مطابق جنگِ ستمبر میں ریڈیو پاکستان سے نشر ہونے والے نورجہاں کے نغمات میں ایک کے علاوہ تمام اِن ہی کے کمپوز کیے ہوئے ہیں۔
چند مثالیں:
’ میریا ڈھول سپاہیا تینوں رَب دیاں رکھاں… ‘ شاعر صوفی غلام مصطفیٰ تبسم۔یہ نغمہ 8 ستمبر کو نشر ہوا۔
’ ایہہ پُتر ہٹاں تے نیئں وِکدے…‘ شاعر صوفی غلام مصطفیٰ تبسم۔یہ نغمہ 10 ستمبر کو نشر ہوا۔
’ یہ ہوائوں کے مسافر یہ سمندروں کے راہی…‘ شاعر صوفی غلام مصطفیٰ تبسم۔یہ نغمہ 11 ستمبر کو نشر ہوا۔

’ اے وطن کے سجیلے جوانو میرے نغمے تمہارے لئے ہیں…‘ موسیقی میاں شہر یار اور نغمہ نگار جمیل الدین عالیؔ۔تحقیق کے مطابق یہ نغمہ ’ رَن کَچھ ‘ جنگ کے دوران بنا تھا لیکن نا معلوم وجوہات کی بنا پر نشر نہیں کیا گیا تھا۔یہ نغمہ 12 ستمبر کو نشر ہوا۔
’ اُمیدِ فتح رکھو اور علَم اُٹھائے چلو…‘ شاعر احسانؔ دانش۔
یہ نغمہ 13 ستمبر کو نشر ہوا۔
’ جاگ اے مجاہدِ وطن…‘ نغمہ نگار مظفر وارثی۔یہ جنگی ترانہ 14 ستمبر کو نشر ہوا۔
ـ ’ ماہی چھیل چھبیلا ہائے نی کر نیل نی جرنیل نی …‘ شاعر صوفی غلام مصطفیٰ تبسم۔یہ نغمہ16 ستمبر کو نشر ہوا۔
’ ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن…‘ کلام علّامہ اقبالؒ۔یہ نغمہ17 ستمبر کو نشر ہوا۔

ان تمام جنگی نغمات لکھنے کے لئے ایک پس منظر ہوتا تھا جیسا کہ اولین ریڈیائی جنگی نغمہ کو لکھنے کا محرک صدر ایوب کی تقریر کا ایک جملہ تھا۔اسی طرح پاک بھارت کے نامور فلمی گیت نگار تنویرؔ نقوی کا مندرجہ ذیل نغمہ بھی ہے:
رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو
یہ لہو سُرخی ہے آزادی کے افسانے کی
یہ شفق رنگ لہو رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو
شہادتوں کی عظمت سے پُر اس لازوال نغمے کو لکھنے کے لئے شاعر تنویرؔ کاظمی خود اگلے مورچوں پر گئے تھے۔
جہاں انہوں نے غازیوں اور شہیدوں کو دیکھا۔یہ 18 ستمبر کو نشر ہوا۔
نورجہاں کی اِن خدمات کے صلے میں حکومتِ پاکستان نے 18جنوری 1966 کو تمغہء خدمت سے نوازا اور ملکہ ء ترنم کا خطاب بھی دیا۔
جنگِ ستمبر کے جنگی نغمات میں فلمی گلوکار عنایت حسین بھٹی کابھی اہم کردار ہے ۔بھٹی صاحب کے قریبی ساتھی جنگ کے دوران عنایت حسین بھٹی کا ایک واقعہ بتلاتے ہیںکہ انہوں نے ایک قلیل رقم چھوڑ کر اپنی تمام جمع پونجی دفاعی فنڈ میں جمع کروا دی ۔
جب ان کی بیگم نے جنگ کے طول پکڑ جانے کا خدشہ ظاہر کیا تو عنایت حسین بھٹی نے یہ تاریخی جملہ ادا کیا ــ ’’ اگر میرا پیارا وطن ہی نہ رہا تو کیا ہو گا؟ لہٰذا میرا سب کچھ پاکستان کا ہیــ‘‘۔
1965 کی جنگ ہو یا 1971 کی۔محاذِ جنگ کو توپ و تفنگ کے ساتھ ساتھ عنایت حسین بھٹی کے اِس رزمیہ گیت ’ اے مردِ مجاہد جاگ زرا اب وقتِ شہادت ہے آیا…‘ نے خوب گرمایا۔

جنگِ ستمبر میں پاکستانی ہوائی فوج کے اہم مرکز سرگودھا کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا اعزازبھی اِن ہی کو حاصل ہے۔ شاعر ناصر ؔ کاظمی کا نغمہ : ’ زندہ دلوں کا گہوارہ ہے سرگودہا میرا شہر… ‘ ۔یہ اس پوری جنگ میں سرگودھا پر واحد نغمہ تھا۔
فلمی گلوکار منیر حسین نے بھی اپنی آواز کے ساتھ دفاعِ پاکستان میں حصہ لیا:
’ دشمن اج للکاریاساڈے دیس دے جاں نثاراں نوں…‘ شاعر خواجہ عطا۔

’ مجاہدینِ صف شکن بڑھے چلو بڑھے چلو…‘ شاعر احسان دانش
’ زندہ ہے لاہور پائندہ ہے لاہور…‘ شاعر قیوم نظر
گلوکارہ نسیم بیگم نے بھی جنگِ ستمبر میں کئی ایک نغمے ریکاڑد کروائے۔انٹر نیٹ پر ایک سائٹ میں نسیم بیگم کا ممتاز ترین قومی اور جنگی نغمہ: ’’ اے راہِ حق کے شہیدو وفا کی تصویرو، تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں…‘‘ کو جنگِ ستمبر کے جنگی گیتوں میں شامل کیا ہے۔
پھرجنگی نغموں پر تحقیق کرنے والے ابصار احمد کا کہنا ہے کہ شاعر مشیرؔ کاظمی کا لکھا ہوا یہ نغمہ میاں شہریار کی موسیقی میں13 ستمبر کو ریڈیو پاکستان لاہور سے نشر بھی کیا گیا تھا۔ جبکہ 1965 کی پاک بھارت جنگ کے پس منظر میں بننے والی فلم ’’ مادرِ وطن‘‘ جمعہ 28 اکتوبر 1966کو نمائش کے لئے پیش ہوئی۔ اِس فلم کے مصنف، فلمساز اور ہدایتکارسیف الدین سیفؔ خود تھے۔
مذکورہ فلم میںگیت نگار مشیر کاظمی کے نام کو دوام بخشنے والا یہی معرکۃ الآرا نغمہ ہے۔ اس گیت نے مشیرؔ کاظمی اور اِس گیت کی گلوکورہ نسیم بیگم کو لازوال شہرت بخشی۔ اِس دوام میں موسیقار بھائیوں سلیم اقبال کا بھی برابر کا حصہ ہے۔
دوسری عالمی جبگ کے بعد ٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ چونڈہ کے میدان میں لڑی گئی۔ہمارے گنتی کے ٹینکوں نے 600 بھارتی ٹینکوں کو نہ صرف روکا بلکہ اللہ کی مدد سے پسپا بھی کیا۔
کتنے ہی پاکستانی سپاہی یہاں شہید ہوئے ہوں گے اس پر قتیلؔ شفائی نے ایک اثر انگیز نغمہ لکھا جو نسیم بیگم کی آواز میں ریکارڈ ہوا:
لائی ہوں میں تمہارے لئے پیار کا پیار کا پیام
اے پھول سے مجاہدو تم کو میرا سلام
اے مادرِ وطن اونچا ہو تیر ا نام
اُستاد امانت علی خان نے بھی جنگی نغمات ریکارڈ کروائے: ’ اے شہیدانِ وطن تم پر سلام…‘ شاعر اثرؔ ترابی۔
اس قومی نغمہ پر استاد امانت علی خان کو تمغہء خدمت دیا گیا۔احمد ندیم قاسمی نے بھی اِن کے لئے نغمہ لکھا:
وطنِ پاک کی عظمت کے سہارے تم ہو
مجھ کو اپنے نغموں سے بھی پیارے تم ہو
ملکہ ء موسیقی روشن آرا بیگم نے حمایتؔ علی شاعر کا نغمہ : ’ اے بھائی تیرے ساتھ بہن کی ہیں دعائیں…‘ مقبول ہوا ۔ اُس وقت کے تمام جنگی نغمات سے ہٹ کر ملکہء موسیقی روشن آرا بیگم نے پاک فضایہ کے سیبر طیارے کے لئے ایک نغمہ ریاکرڈ کروایا: ’ اے پاک فضایہ تیرے سیبر کی خیر ہو…‘
لوک فنکار عالم لوہار کی ’ جگنی پاکستان دی اے…‘ مقبول ترین جنگی نغمہ تھا ۔
اسے ڈاکٹر رشید انور نے لکھا تھا۔عالم لوہار کا گیت : ’ دنیا جانے میرے وطن کی شان …‘ بھی بہت مشہور ہوا ۔اسے صہباؔ اختر نے لکھا تھا۔
ریڈیو پاکستان کراچی نے بھی جنگِ ستمبر میں بھر پور حصہ لیا۔ بلیک آئوٹ میں موم بتی کی روشنی میں مسرورؔ انور نے یہ لازوال نغمہ لکھا ’ اپنی جاں نذر کروں اپنی وفا پیش کروں…‘‘ اِس کو مہدی حسن نے اپنی موسیقی میں ریکارڈ کروایا۔
اِن دونوں کا یہ نغمہ 9 ستمبر کو نشر ہوا۔شاعر رئیس ؔ امروہوی روزانہ ایک جنگی گیت لکھتے تھے۔جیسے :
اللہ کے وعدے پہ مجاہد کو یقین ہے
اب فتح مبین فتح مبین فتح مبین ہے
اس نغمہ کو مہدی حسن کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا۔
ریڈیو پاکستان کراچی کے پروڈیوسر اور براڈکاسٹر عظم سرور کا کہنا ہے کہ دورانِ جنگ سوچا گیا کہ لاہور اور اس کے شہریوں کو خراجِ تحسین پیش کرنا چاہیے لہٰذا ہم نے رئیسؔ صاحب کو فون کیا۔
امروہوی صاحب نے فی البدیہہ اپنا تاریخی نغمہ فون پر لکھوا دیا جو مہدی حسن اور ساتھیوں نے ریکارڈ کروایا:
خطہء لاہور تیرے جان نثاروں کو سلام
شہریوں کو غازیوں کو شہسواروں کو سلام
ریڈیو پاکستان کراچی سے سب سے زیادہ جنگی ترانے گلوکار تاج ملتانی نے ریکارڈ کروائے ۔ادہر جنگ چھڑی اُدھر محشر ؔ بدایونی کا نغمہ نتھو خان کی موسیقی میں ریکارڈ کروایا جو 6 ستمبر سے ہی نشر ہونے لگا :
اپنی قوت اپنی جاں
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
ہر پل ہر ساعت ہر آن
جاگ رہا ہے پاکستان
تاج ملتانی کا سب سے یادگار ترانہ ہے:
اج ہندوواں جنگ دی گل چھیڑی اکھ ہوئی حیران حیرانیاں دی
مہاراج اے کھیڈ تلوار دی اے ! جنگ کھیڈ نئیں ہندی زنانیاں دی
رشید انور کے نغمے کی موسیقی استاد نتھو خان نے دی۔

ریڈیو پاکستان کراچی سے پاک فضایہ کے لئے پہلا نغمہ ریکارڈ کیا گیا جس کو رئیسؔ فروغ نے لکھا اور غیر منقسم ہندوستان میں فلم کی مشہور شخصیت رفیق غزنوی نے اس کی موسیقی دی: ’ شاہیں صفت یہ تیرے جواں اے فضائے پاک…‘
مشرقی پاکستان کے لئے سہیل رعنا کی موسیقی میں ابو سعید قریشی کا نغمہ : ’ آئو چلیں اُس پار مانجھی…‘ بھی تاج ملتانی نے ریکارڈ کروایا۔

جنگِ ستمبر کے یادگار گیتوں میں تاج ملتانی کا یہ بھی مقبول ترین تھا: ’ ہم اپنے صف شکنوں کو سلام کہتے ہیں…‘ جس کو جون ایلیا نے لکھا تھا۔
’’ تم نے جیت لی ہے جنگ یہ ، اے جوانو اے جیالو…‘‘۔ سندھی لوک گیت ہو جمالو کی دھن پر شاعر تراب نقوی کا گیت تاج ملتانی، عشرت جہاں کے ساتھ کورس میں بہت مشہور ہوا تھا۔
فلمی پلے بیک سنگر احمد رشدی نے بھی کراچی میں ریڈیو اسٹیشن میں بہت سے نغمات ریکارڈ کروائے جیسے:
لالہ جی جان دیو لڑنا کیہہ جانو تسی مرلی بجاون والے جنگ تہاڈے وس دی نئیں
اس کو سلیم گیلانی نے لکھا تھا۔

پاک بحریہ نے اِس جنگ میں بھارت کے مضبوط بحری اڈے دوارکا کا ہلواڑہ کر دیا تھا۔ اس پر اُستاد نتھو خان کی موسیقی میں جون ایلیا کے گیت کو احمد رشدی نے ریکارڈ کروایا :
فرماں روا ئے بحرِ عرب پاک بحریہ
بھارت میں تیرا نام ہے بے باک بحریہ
جنگِ ستمبر میں پاک فضایہ کے عالمی شہرت یافتہ غازی مجاہد ایم ایم عالم کو مشہور فلمی شاعر مظفرؔ وارثی نے خراجِ تحسین پیش کیا: ’ ناز ہے پاکستان کو تجھ پہ اے مشرق کے لال…‘ اس کو ریکا رڑ کرنے کا اعزاز بھی احمد رشدی کے سر ہے۔

ان کے علاوہ بھی فنکار ، موسیقار اور گلوکار ہیں لیکن جگہ کی تنگی کے سبب تمام کا احاطہ ممکن نہیں۔بہرحال حربیہ موسیقی جنگِ ستمبر میں بہت کامیاب رہی۔ اور دنیا کو دکھا دیا کہ فوج اور قوم دونوں ملک کے دفاع میں اپنی بہترین صلاحتیں کیسے سامنے لاتے ہیں۔
پاک فوج زندہ باد پاکستان پائندہ باد

Browse More Articles of Lollywood