Riwaiti O Jadid Fashion Ka Haseesn Imtezaaj

Riwaiti O Jadid Fashion Ka Haseesn Imtezaaj

روائتی وجدید فیشن کا حسین امتزاج

لوک ورثہ آرٹس کونسل اور پی این سی اے میں رنگوں کی بہار اسلام آباد مُلکی غیر مُلکی اسلامی ممالک کے سفارتخانے اپنی ثقافتی نمائشوں کا انعقاد کرتے ہیں

اتوار 31 مارچ 2019

 صائمہ عمران
حکمرانوں ،سفیروں، وزیروں ،اور بیوروکریٹس کا شہر اسلام آباد پاکستان ہی نہیں ،دنیا بھر میں اپنی منفرد پہچان رکھتا ہے ۔کراچی ولاہور کے برعکس یہاں فیشن شوز اور ڈرامہ وفلم انڈسٹری ایکٹویٹزنہ ہونے کی وجہ سے بظاہر تاثر یہی ملتا ہے کہ شہر خاموشاں کی خواتین کے لباس میں جدت، روایت ،ثقافت کا امتزاج کم ہی دیکھنے کو ملے گا۔لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے یہاں کے ہوٹلز ،تعلیمی وثقافتی اداروں سفارتخانوں اور موسم بہار میں تو ایف نائن پارک جیسے مقامات پر بھی آئے روز کوئی نہ کوئی صوبائی ،ملکی وغیر ملکی ثقافتی شو،نمائش اور بعض اوقات تو فیشن شوز بھی دیکھنے کو ملتے ہیں ۔

وفاقی دارالحکومت ہونے کی وجہ سے یہاں آزاد جموں وکشمیر اور گلگت بلستان سمیت چاروں صوبوں کی نمائندگی کے لیے وسیع وعریض رقبہ پر ہاؤسز بنائے گئے ہیں ۔

(جاری ہے)

ان ہاؤسز کے عملے کے ارکان کے ساتھ ساتھ اپنے اپنے صوبے کی نمائندگی کرتے مرد و خواتین صوبائی لباس زیب تن کئے،روایتی لہجے میں ہر ایک کو کھلے دل سے ویلکم کرتے ہیں ۔
قومی لباس دوپٹہ،شلوار قمیض ہونے کے باوجود بلوچستان سندھ ،کے پی کے اور شمالی علاقوں کی خواتین روز مرہ زندگی میں نہ سہی تو تقریبات میں اپنے علاقائی لباس پہن کر ہی شریک ہوتی ہیں ۔

صوبائی لباس کے ساتھ ساتھ اسلام آباد کی خوبصورتی کو بڑھانے میں غیر ملکیوں کا کردار بھی بہت اہم ہے پہاڑوں کے دامن میں گھرے ا س شہر میں ہم دنیا بھر کے قومی ملبوسات کی جھلک دیکھ سکتے ہیں ۔اس وقت دنیا کے ممالک کو ہم کلچرل و ثقافت کے حوالے سے دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں ،ایک تو ترقی یافتہ ممالک کی فہرست ہے جیسے یورپین ممالک،امریکہ وجاپان وغیرہ ان ممالک سے تعلق رکھنے والی خواتین تقریبات میں لونگ شارٹ شرٹس ،ڈریس کوٹ اور مختلف سٹائل کی بیکنیز ہی زیب تن کرنے کے ساتھ ہلکی پھلکی جیولری ضرور پہنتی ہیں ترقی یافتہ ممالک کے برعکس ترقی پذیر ممالک کی خواتین اپنے ملک کے ڈریس اور اپنی مٹی سے مضبوطی سے جُڑی ہوتی ہیں جیسے افریقی مڈل ایسٹ ،انڈونیشیا ،ملائیشیا ،برونائی ،مالدیپ،
آذربائیجان ،تاجکستان ،ایران وعراق وغیرہ کی خواتین ہمیشہ اپنا قومی لباس ہی پہنتی ہیں ۔

ہر ایمبیسی اپنے قومی دن کے موقع پر جس خصوصی تقریب کا انعقاد کرتی ہے اس میں نہ صرف سفیر اپنی اہلیہ کے ہمراہ قومی لباس پہنتا ہے بلکہ اسلام آباد میں مقیم دیگر اس ملک کے شہری بھی اپنے قومی لباس میں ہی محفل میں جلوہ افروز ہوتے ہیں ۔عرب ممالک کی خواتین تو زیادہ تر جدید کٹس وکڑ ھائی کی ہوئی عبایاہی پہنتی ہیں لیکن عرب آدمی اپنے مخصوص روایتی لباس کے ساتھ پاکستانیوں کو اپنی طرف زیادہ متوجہ کرتے ہیں ایران وعراق کی خواتین خوشی وغمی کے ہر فنکشن میں بڑی سی چادر اوڑھے شریک ہوتی ہیں ۔

اسلامی ممالک کی ایمبیسیز اپنی ثقافت کو اُجا گر کرنے کے لیے جن نمائشوں کا انعقاد کرتی ہیں انہیں ہر ملک کی روایتی وقومی لباسوں اور جیولری کے خصوصی سٹالز لگائے جاتے ہیں ۔ملائیشین،سنگاپور اور برونائی وغیرہ کی خواتینKebayaپہنتی ہیں ۔بھوٹانی مردوخواتین کا لباس بھی الگ تھلگ دکھائی دیتا ہے ۔
مردقومی لباس پہنتے ہیں جو ghoجبکہ خواتین کا لباس Kiwaکہلاتا ہے ۔
جاپانی سفارتخانہ تو اپنے روایتی لباس اور کھانے کی تقریبات کے حوالے سے الگ پہچان رکھتا ہے ۔
جاپان کے قومی لباس کو Kimonoکہتے ہیں ۔مرد اور عورت دونوں کے لباس کو اسی نام سے پکارا جاتا ہے لیکن عورتوں کا Kimonoزیادہ کلر فل اور اقسام کا ہوتا ہے جبکہ مردوں کا نسبتاً سادہ ہوتا ہے اگر جاپانی ایمبیسی کا کوئی فرد کسی فارمل فنکشن میں بلایا جائے تو Kimonoالگ انداز میں باندھے گا اور اگر ان فارمل فنکشن ہو گا تو پھر اسے باندھنے کا طریقہ مختلف ہو گا ۔
اپنے لباس اور نشست وبرخاست کے طریقوں سے دیگر ممالک خاص طور پر پاکستانی بھائیوں کو آگاہ کرنے کے لیے جاپانی سفارتخانہ خصوصی تقریبات کا انعقاد کرنے کے ساتھ اپنے ثقافتی لباس کو روشناس کرانے کے لیے سالانہ کلینڈرز شو کا اہتمام بھی کرتا ہے ۔
چین کی ایمبیسی اپنے ملک کی روایات اور ثقافت کے فروغ کے لیے بہت ایکٹو ہوتی ہے ۔فارمل فنکشنز میں چائنیز خواتینqipaoکیپاؤ پہن کر ہی شرکت کرتی ہیں ۔
اسلام آباد کے سفارتی حلقوں میں ہونے والی خواتین کی تقریبات میں جہاں غیر ملکی خواتین اپنے ممالک کے قومی لباس پہنتی ہیں وہاں پاکستانی خواتین میں اپنے ملک کی نمائندگی کرتے ہوئے فارمل یا ان فارمل پاکستانی لباس پہننا بھی پسند کرتی ہیں۔ کشمیری حریت رہنما یاسین ملک کی اہلیہ مشعال حسین ملک جو پیس اینڈ کلچر آرگنائزیشن کی چےئرپر سن بھی ہیں انہوں نے ”کشمیر کور“(کشمیری لڑکی)کے نام سے برانڈ متعارف کروا کے اب جڑواں شہروں میں مقبوضہ کشمیر کی روایتی جیولری‘فیرن‘شال‘کشیدہ کاری‘پیپر ماشی وغیرہ جیسی کشمیر ی اشیاء تک رسائی کو ممکن بنادیا ہے ۔

کشمیری خواتین کے پسندیدہ لباس اور زیورات کے ٹرینڈز کے متعلق مشعال ملک کہتی ہیں کہ کشمیری عمر رسیدہ خواتین تو کبھی بھی اپنی علاقائی جیولری پہنے بغیر نظر نہیں آتیں ۔ہاتھ سے بنے کشمیری روایتی زیورات ‘چاندی‘سونے اور مختلف قسم کے پتھروں سے بڑی مہارت سے بنائے جاتے ہیں ،انہیں ہنر مند نسل درنسل بناتے چلے آرہے ہیں۔ ہاتھ کے بنے (hand made)بالے ”ٹیکہ ‘جھومر اور نیکلس لڑکیوں میں بے انتہا مقبول ہیں ۔

ان زیورات کو زیادہ تر روایتی کشمیری ٹوپی(woman skull cap) کے اوپر پہنا جاتا ہے ،کشمیری بالے لمبائی کی وجہ سے چہرے سے آگے کی طرف نکلے ہوتے ہیں اسی انہیں پہننے کے بعد گلے میں کچھ پہننے کی ضرورت نہیں رہتی ۔پھر اس جیولری کو ٹوپی میں لگانے کے بعد اوپر سکارف یا شال لی جاتی ہے ۔
ویسے تو بڑی انگوٹھیوں کو پہننے کا فیشن پاکستان میں بھی ہے لیکن کشمیری چھلا خوبصورتی میں بے مثال ہے ۔

سائز میں بڑا ہونے کی وجہ سے ہاتھ میں ایک ہی چھلا پہنا جاتا ہے ۔
کشمیری روایتی جیولری لینے کے ساتھ ساتھ اگر فیرن(کرتا)نہیں پہنیں گیں تو کشمیری دو شیزہ جیسی لک نہیں آئے گی ۔فیرن کشمیری مرد وعورت دونوں ہی پہنتے ہیں ۔19 ویں صدی میں فیرن کی لمبائی ٹخنوں تک ہوتی تھی لیکن اب گھٹنوں تک کا فیرن فیشن میں ہے ۔پاکستان میں جس طرح شارٹ کرتے پسند کئے جاتے ہیں ان کے متبادل کے طور پر فیرن بھی بہت Elegantلک دیتا ہے ۔

کشمیری فیرن پر آر کی کڑھائی اور سونے اور چاندی کا کام اور ہیوی ایمبر ائیڈری بہت گریس فل لک بنا دیتی ہے ۔اس کے علاوہ کڑھائی کے علاوہ پر نٹڈ فیرن کے مختلف Stuffمیں بھی ملتے ہیں بغیر Slits
کے فیرن کے ساتھ لڑکیاں جینز ‘ٹراؤزر اور بڑی عمر کی خواتین شلوار پہنتی ہیں ۔پشمینہ ودل کے کشمیری فیرن اور شالز کی مانگ تو دنیا میں ہے ان شالز کی خوبصورتی یہ ہے کہ یہ موسم گرما اور سرما دونوں میں اوڑھی جا سکتی ہیں ۔
ایک گلاب کار اور قلم کار شال بنانے میں تو ہنر مندوں کو ایک سال کی محنت درکار ہوتی ہے
۔
گلاب کار شال بنانے میں اصل سونے اور چاندی کی تار اور تلا کی کڑھائی میں کی جاتی ہے ۔اس کے علاوہ سوزنی ‘سوئی اور آر کی کڑھائی کی شال بھی اپنی انفرادیت میں یکتا ہیں ۔کشمیری شال کی کڑھائیاں اور رنگوں کا امتزاج اس قدر خوبصورت اور کھلا کھلا ہوتا ہے کہ ہاتھوں کے کام پر بھی ڈیجیٹل ورک کا شبہ ہوتا ہے ۔
پاکستانی خواتین بھی فیسٹیول اور شادی بیاہ کے تقاریب میں کشمیری زیورات ،فیرن اور شالز پہن سکتی ہیں مشعال ملک کی انفرادیت یہ کہ وہ نہ صرف کشمیری زیورات ،فیرن وشال کو عوام سے روشناس کر وارہی ہیں بلکہ خود اپنی والدہ اور بیٹی کیساتھ اسی لباس و جیولری کیساتھ شرکت کرتی ہیں۔
ڈپلومیٹک انکلیو کے باسیوں کا طرز لباس
زیادہ تر سفارتخانے ڈپلومیٹک انکلیو کی اونچی صفیلوں کے پیچھے چھپ چکے ہیں ریڈزون سے متصل یہ انکلیو غیر ملکی افراد کی نمائندگی کا گڑھ ہے ۔
کچھ ممالک کے سفارتخانے اور پائی کمیشن دیگر اسلام آباد کے سیکٹرز میں بھی موجود ہیں ۔اسلام آباد کے باسی جانتے ہیں کہ امن کے دنوں میں یہاں گہما گہمی اور رونق ہوتی تھی ہر ملک کے خواتین اور بچے اپنے قومی لباس میں واکنگ ٹریکس کے ساتھ ساتھ شاہراؤں اور پارکس میں ہر جگہ دیکھنے اور بات کرنے کو ملتے تھے لیکن سکیورٹی کی وجہ سے اب فارمز اور پاکستانی خواتین کے درمیان سیمنٹ کی اونچی دیواروں نے اپنی جگہ بنالی ہے ۔

پی این سی اے کی نمائش اور لوک ورثہ کے رنگا رنگ سٹالز
اسلام آباد میں پاکستان کے فن وثقافت اور لباس کی پہچان پی این سی اے اور لوک ورثہ میں ہر صوبے کے لباس وکڑھائیوں کو دنیا کی خواتین سے متعارف کروانے کے لیے یہاں کوئی نہ کوئی نمائش یا تقریب سجی ہی رہتی ہے جس میں شمالی علاقوں کی خوبصورت خواتین اپنے روایتی لباس و جیولری پہننے پر خاتو ن کو کچھ نہ کچھ خریدنے پر مجبور کر ہی دیتی ہیں غیر ملکی خواتین لوک ورثہ کی ان نمائشوں سے نہ صرف پاکستانی صوبائی وعلاقے کی نمائندگی کرتے ملبوسات خریدتی ہیں بلکہ سٹالز پر موجودخواتین سے ان ملبوسات کے متعلق رہنمائی بھی لیتی ہیں یہاں پر لگنے والے روایتی کھسوں اور چپلوں کو غیر ملکی خواتین بہت پسند کرتی ہیں ۔

پی این سی اے پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹ میں تو آئے روز کسی نہ کسی ملک کا ثقافتی طائفہ اپنے ملک کے روایتی لباس پہنے شریک ہوتا ہے ۔سی پیک پروجیکٹ کے آغاز کے بعد سے چین نے پاکستانیوں کو اپنے لباس و کلچر سے آگاہ کرنے کے لئے پی این سی میں خصوصی چائنا سنٹر کھول دیا ہے رنگا رنگ کپڑوں میں ملبوس چینی خواتین دیکھنے کو ملتی ہیں۔
قومی اسمبلی کی خواتین ارکان صوبائی وعلاقائی لباس کی ترجمان
قومی اسمبلی کے فلور پر جہاں ہر علاقے کی نمائندگی ہوتی ہے وہی مخصوص نشستوں اور جنرل سیٹوں پر منتخب ہونے والی خواتین زیادہ تر اپنے علاقے کے لباس اور پہن کر شریک ہوتی ہیں۔
کے پی کے کی ارکان اسمبلی کڑھائی کی قمیض شلوار کے ساتھ چادر جبکہ وفاقی وزیر زبیدہ جلال سمیت بلوچستان کے خواتین ممبران بلوچی لباس عموماً پہنتی ہیں ۔سندھ کی زیادہ تر سینیٹرز اور ایم این ایز سندھی اجرک کی چادر ضرور پہنتی ہے ۔اجرک بعض اوقات سندھی مرد بھی لیتے ہیں۔
اسلام آباد کے تعلیمی ادارے مختلف النوع ملبوسات کی پہچان
اسلام آباد کے تعلیمی اداروں کی تقریبات میں جہاں مہمان خصوصی کے طور پر مختلف ممالک کے سفیروں کی بیگمات اور صوبوں کی نمایاں شخصیات روایتی ملبوسات میں شریک ہوتی ہیں وہیں چند تعلیمی ادارے ملکی وغیر ملکی طالب علموں کی وجہ سے اپنی مخصوص شہرت بھی رکھتے ہیں ۔
انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی کی طالبات کے لباس پر عرب ممالک کی کافی چھپ نظر آتی ہے دوسرا اس یونیورسٹی میں خصوصی فیسٹیول کے ذریعے عرب کھانوں اور لباس کے متعلق بھی شہریوں کو آگاہ کیا جاتا ہے ۔
نمل ،نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوئج)میں دنیا کی اہم ترین زبانوں میں تعلیم تدریس کے لئے الگ شعبہ جات قائم کئے گئے ہیں جہاں جہاں ملکی وغیر ملکی طالب علموں کی بڑی تعداد موجود ہوتی ہے اس پلیٹ فارم پر بھی ہمیں کئی ممالک کے طالب علم روایتی کپڑوں میں ملبوس دیکھنے کو ملتے ہیں ۔
امریکی ممالک کی خواتین اپنے مخصوص لباس اور بالوں کے سٹائل کی وجہ سے بازاروں ،تعلیمی اداروں غرضیکہ ہر جگہ نمایاں ہوتی ہیں۔
فورسز کے یونیفارم میں خواتین آفیسرز
پاک اےئر فورس ،نیوی کے ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد میں جبکہ جی ایچ کیور اولپنڈی میں ہونے کی وجہ سے آرمی کے خوبصورت اور پُر وقار لباس کی خواتین آفیسر بھی جڑواں شہروں کی پہچان ہیں ۔اےئر فورس کی فائٹر پائلٹس اور میڈیکل کورنیلی ساڑھی اور نیوی کی آفیسرز فی میل اور میڈیکل کور کی خواتین سفید ساڑھی پہنے الگ ہی چھاب دکھاتی ہیں۔ ایف آئی اے سمیت دیگر ایجنسیوں کی خواتین کے یونی فارم بھی الگ پہچان وشناخت رکھتے ہیں آرمی کی میڈیکل کور کی خواتین خاکی ساڑھی میں نمایاں نظر آتی ہیں۔

Browse More Articles of Fashion