Fan Ko Umar De Di Kuch Tu Sila Diya Jaye

Fan Ko Umar De Di Kuch Tu Sila Diya Jaye

فن کو عمردے دی کچھ تو صلہ دیاجائے

ٹیونر لگانے والوں نے اچھا گانے والوں کا حق مارا ہے معروف گلوکار اُستاد علی رضا خان سے خصوصی گفتگو

ہفتہ 25 مئی 2019

 وقار اشرف
فن کار کی ناقدری کی جائے تو فنون لطیفہ دم توڑنے لگتے ہیں۔پاکستان میں موسیقی جس تیزی سے روبہ زوال ہے خدشہ ہے کہ ہماری آنے والی نسلیں اچھی موسیقی سے محروم ہوجائیں گی۔موسیقی کی زبوں حالی کا اندازہ گلوکاروں کی حالت سے بخوبی لگایا جا سکتاہے۔اُستاد علی رضا خان کا شمار اُن گنے چنے حقیقی گلوکاروں میں ہوتا ہے جو پچھلی تین دہائیوں سے موسیقی کی خدمت کررہے ہیں ۔
ریڈیو اور ٹی وی کیلئے سینکڑوں گانے گا چکے ہیں،فلموں کیلئے پلے بیک گلوکاری بھی کی ہے لیکن اسے قدر ناشناسی کہیں یا کچھ اور مگر حقیقت یہی ہے کہ اس گلوکار سے فائدہ نہیں اُٹھیا گیا۔
انہیں شکوہ ہے کہ ان کے فن کی قدر نہیں کی گئی،ان کی موسیقی کے لئے طویل خدمات کے عوض ان کا بھی حق ہے کہ ان کے وجود کو نہ صرف تسلیم کیا جائے بلکہ فن کو زندہ رکھنے کے لئے ان کی ہر ممکن مدد کی جائے کہ ایسے حقیقی گلوکارروز روز پیدا نہیں ہوتے۔

(جاری ہے)

فن نئی نسل کو منتقل کرنے کے لئے وہ ایک میوزک اکیڈمی بھی چلا رہے ہیں۔ ان سے طویل قنی کیرےئر ،پاکستان میں موسیقی کی صورتحال اپنے آئندہ پر اجیکٹس کے حوالے سے ایک طویل نشست میں جو گفتگو ہوئی وہ ذیل میں پیش کی جارہی ہے۔
اُستاد علی رضا نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے بتایا کہ میرا گائیکی کا سفر طویل عرصے سے جاری ہے اور مکمل نہیں ہورہا۔دسویں جماعت میں تھا کہ ماسٹر عنایت حسین کا شاگردہو گیا ،وہ بہت بڑے میوزک ڈائریکٹر تھے۔
ریڈیو،ٹی وی اور اسٹیج ہر جگہ گایا۔ریڈیو کیلئے میرے گانوں کی تعداد ہزاروں میں ہوگی۔ٹی وی پر بھی لاتعداد پروگراموں میں گایا ہے ۔رات گئے ،ورثہ ،فردوس گوش سمیت ایک طویل فہرست ہے ۔”فردوس گوش“ایک اصلاحی پروگرام تھا ،محسن جعفر اس کے پروڈیوسر تھے ،یہ پورا پروگرام ایک ہی راگ پر مبنی ہوتا تھا،کئی ٹریبیوٹس میں بھی گایا۔پنجابی کے بھی کئی پروگرام کئے۔
کراچی میں بھی پر فارم کیا اور اللہ نے ہر جگہ بہت عزت دی ۔
ماسٹر عنایت حسین میرے گنڈا بندھ استاد تھے جبکہ اُستاد نذر حسین کو اپنا روحانی اُستاد مانتا تھا۔ماسٹر عنایت حسین سخت ہونے کیساتھ ساتھ بہت شفیق بھی تھے۔مجھے اکثر کہا کرتے تم گانا چھوڑ دو یہ تمہارے بس کا روگ نہیں ۔آج مجھے یہ بات سمجھ آرہی ہے کہ وہ مجھے ایسا کیوں کہتے تھے ،وہ جب گانا چھوڑنے کیلئے کہتے تو میں اور محنت کرتا تھا۔
آج سوچتا ہوں اگر وہ اس وقت میری تعریف کر دیتے تو میں شاید وہیں رُک جاتا اور مزیدسیکھنے کی جستجو بھی نہ ہوتی۔
سوال:فیملی میں کوئی اور میوزک کے ساتھ وابستہ تھا؟
جواب:میرا بیک گراؤنڈ میوزک کا نہیں،میں اکیلا ہی اس طرف آیا۔گانا شروع کیا تو فیملی کی طرف سے اچھا رسپانس نہیں تھا۔میری ماں بھی دوسری ماؤں کی طرح یہی چاہتی تھی کہ اس کا بیٹا انجینئر اور ڈاکٹر بنے۔
میرے ایک انکل نے میری ماں سے کہہ دیا تھا تم جو مرضی کرلو اس نے ڈاکٹر بننا ہے نہ انجینئر بلکہ گویا ہی بننا ہے ۔میری پہلی شاگردی بھی انہوں نے ہی فیملی سے چوری چوری کروائی تھی۔تقریباً ساڑھے تین سال میں نے گھر سے کھانا بھی چھوڑ دیا تھا کہ میں نے صرف گانا ہے ۔
شروع میں مہدی حسن کو غزل گائیکی میں فالو کیا پھر اس نتیجے پر پہنچا کہ میں لاکھ کوشش کے باوجود مہدی حسن کو ان سے اچھا نہیں گا سکتا۔
آج مجھ پر مہدی حسن یا غلام علی کی چھاپ نہیں ہے ۔لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ میں نے ان دونوں شخصیات سے نفرت کی بلکہ ان سے سبق سیکھا۔جب میں نے مہدی حسن،روشن آراء بیگم،فریدہ خانم ،غلام علی،طفیل نیازی کو سُنا اور تجزیہ کیا تو ان سب سے تھوڑا تھوڑا لے کر اپنا انداز بنالیا۔
سوال:تلفظ کی بھی باقاعدہ تربیت حاصل کی؟
جواب:سب لوگ مجھ سے کہتے ہیں کہ آ پ لفظوں کی ادائیگی کا حق ادا کرتے تھے ۔
یہ سبق مجھے میرے استاد جی نے دیا تھا کہ جب بھی کوئی گانا گاؤ تو پہلے اس کو سمجھو کہ اس کا تھیم اور ماحول کیا ہے۔اگر شاعری چار سوسال پہلے کی ہے تو چار سو سال پہلے لکھنے والے کی جو کیفیت تھی اس کو تم نے خود پر طاری کرنا ہے اور اپنے موڈ کو وہاں پر لے کر آنا ہے۔میں نے بہت سے ٹی وی پروگراموں میں غالب کی شاعری گائی ہے جن میں ایک پروگرام”گلاب“بھی تھا۔

میاں یوسف فلاح الدین کی حویلی میں ہونے والے اس پروگرام میں میرے علاوہ بھی کچھ اور گلوکاروں نے گایا،پروگرام ختم ہوا تو وہاں موجود مہمانوں میں بھارتی اداکار نصیر الدین شاہ بھی موجود تھے ،امجد اسلام امجد سمیت کئی نامور شعراء بھی تھے ۔ان سب نے میاں یوسف صلاح الدین کو گھیر لیا کہ تم نے ان گلوکاروں کا تلفظ ٹھیک نہیں کروایا ،میں بھی وہاں کھڑا تھا میں نے کہا کہ اگر مجھ سے کوئی شکایت ہے تو بتائیں جس پر امجد اسلام امجد نے مجھے گلے لگا لیا کہ آپ سے ہمیں کوئی شکایت نہیں ہے ،آپ نے تو بہت خیال رکھا ہے ۔
شاعری کو سمجھنا اور لفظوں کی صحیح تلفظ کے ساتھ ادائیگی بھی گانے کا ایک خاص حصہ ہے۔
سوال :غزل گائیکی کا انتخاب اپنا فیصلہ تھا؟
جواب:اصل گائیکی کلاسیکل ہے ۔اگر غزل گائیکی میں بھی کلاسیکل انگ نہیں تو وہ غزل نہیں ہوتی بلکہ صرف ترنم رہ جاتاہے۔برکت علی ،اُستاد مہدی حسن،اُستاد نذر حسین،نور جہاں اور دیگر نے جو گایا وہ کلاسیکل ہی تھا۔

سوال:شاعری کا انتخاب کیسے کرتے ہیں؟
جواب:اچھی شاعری میری ترجیح ہوتی ہے۔جون ایلیا،فراز ،ناصر کاظمی ،قتیل شفائی کا مجھے ڈیزائن پسند ہے ۔ایسی شاعری جو دل کے تاروں کو چھیڑے اس کا ہی انتخاب کرتا ہوں۔میں آج کل ایک البم ریلیز کرنے کی تیاریوں میں ہوں۔آجکل لوگ البم کو سُنتے کم اور دیکھتے زیادہ ہیں ۔علی زاہد نے میرے البم کی غزلوں پر ماڈلنگ کی ہے ۔
یہ مکمل طور پر میوزک ویڈیو ہے جس میں کل 5غزلیں ہوں گی۔علی زاہد تمام غزلوں میں ماڈلنگ کررہے ہیں ۔البم کی دُھنیں میری ہیں ۔مبشرقادر نے ارینجمنٹ کی ہے نور خان میوزک البم کے ڈائریکٹر ہیں۔
سوال: کس گیت یا غزل سے پہچان ملی؟
جواب:پروگرام ”ورثہ“سے میری پہچان بنی،وہ پروگرام ٹی وی پر بہت زیادہ چلا تھا جس کا سہرا میا ں یوسف صلاح الدین کے سر ہے ۔
اس کے علاوہ سچل سٹوڈیو میں بھی بہت گایا ،وہاں میرے گانوں کی تعداد100سے زیادہ ہوگی۔میاں عزت مجید تک پہنچنے کی بھی ایک دلچسپ داستان ہے ،میں انہیں نہیں جانتا تھا۔ایک دن ایک صاحب نے مجھے کہا کہ اللہ کرے آپ کسی طرح میاں عزت مجید تک پہنچ جائیں۔
ایک روز میں گھر میں تھا کہ پی ٹی وی کے ایک پروڈیوسر صوفی مشتاق کا فون آیا کہ کل آپ فلاں وقت پر سچل سٹوڈیو آجائیں ،مجھے نہیں پتہ تھا کہ یہ سچل سٹوڈیو کس کا ہے اورکہاں واقع ہے ؟خیر میں بتائے ہوئے پتے پر وارث روڈ پہنچ گیا۔
سٹوڈیو کے اندر داخل ہوا تو وہ ایک فائیو سٹار ہوٹل سے کم نہ تھا،اوپر گیا تو صوفی صاحب ملے اور انہوں نے میاں عزت مجید سے ملاقات کروائی لیکن یہ نہیں بتایا کہ یہ صاحب عزت مجید ہیں۔
شفقت سلامت ،حمیرا چنا،فریحہ پرویز اور مجھے اس سپیل میں گانا تھا،مجھے ریہر سل کروائی گئی اور کہا گیا کہ پرسوں میاں عزت مجید ریہر سل سُنیں گے ،ہمیں تو فوری یاد کرکے فوری گانے کی عادت تھی اس لئے حیرانی ہوئی یہ کون سا اسٹودیو ہے جو کل پھر ریہر سل کے لئے بلا رہے ہیں۔
وہاں قادر علی شگن نے مجھے دُھن یاد کروائی تھی انہوں نے کہا کہ خاموش رہو یہاں جو بھی ہوتا ہے میاں عزت مجید کی مرضی سے ہوتا ہے ۔خیر میں نے اگلے دن ریہرسل کی اور میاں صاحب نے ریہرسل سنی تو اگلے دن مجھے ریکارڈ نگ کیلئے فون آگیا،میں بھولتا کم ہوں اور ذواجلدی گالیتا ہوں اس لئے دس پندرہ منٹ میں ہی یاد کیا ہوا گانا گالیا۔وہ بابا بلھے شاہ کی کافی تھی ۔
ریکارڈنگ ہوگئی تو میاں یوسف صلاح الدین کا مجھے فون آیا کہ علی تمہیں مبارک ہو میاں عزت نے کہا ہے کہ یہ تو بڑی پاکیزہ آواز ہے ۔
میں نے ان سے استفسارکیا کہ عزت مجید کون ہیں؟تو میاں یوسف صلاح الدین نے بتایا کہ جن کے سامنے تم نے گانا ریکارڈ کروایا وہی تو میاں عزت مجید ہیں ،س طرح سے مجھے ان کا پتہ چلا۔انہوں نے مجھے بہت پیار کیا اور آج بھی میں ان کا فیورٹ سنگر ہوں۔اس طرح میاں یوسف صلاح الدین اور میاں عزت مجید میری زندگی میں آئے تو مجھے پہچان ملی ۔ان کے توسط سے مجھے ذرائع مل گئے اور میں ہٹ ہو گیا۔اس کے ساتھ ساتھ میری محنت کا بھی میری کامیابی میں بڑا ہاتھ ہے ،میں نے آٹھ آٹھ گھنٹے تک مسلسل ریاض کیا ہے۔

Browse More Articles of Music