Actor Rehman

Actor Rehman

اداکار رحمان

مشرقی اور مغربی پاکستان میں یکساں مقبول تھے

پیر 18 جولائی 2022

وقار اشرف
پاکستان فلم انڈسٹری کے معروف اداکار رحمان کو مداحوں سے بچھڑے 17 برس بیت گئے،وہ 18 جولائی 2005ء کو ڈھاکہ میں انتقال کر گئے تھے اور وہیں سپرد خاک ہیں۔ان کا اصل نام عبدالرحمن تھا لیکن فلموں میں رحمان کے نام سے ہی شہرت حاصل کی۔مجموعی طور پر 25 فلموں میں کام کیا جن میں ان کی پہلی فلم ”چندا“ 1962ء میں ریلیز ہوئی تھی۔
ان کی دیگر نمایاں فلموں میں ملن،ایندھن،درشن،جہاں باجے شہنائی،کنگن،چلو مان گئے،چاہت،بہانہ،دو ساتھی اور گوری شامل تھیں۔”ہنڈرڈ رائفلز“ ان کی آخری فلم تھی جو 1981ء میں ریلیز ہوئی۔فلمی کیریئر کے دوران کبھی معیار پر سمجھوتہ نہیں کیا تھا۔
پاکستان اور بھارت میں رحمان نام کے دو اداکاروں نے شہرت حاصل کی تھی۔

(جاری ہے)

بھارتی اداکار رحمان پاکستان کے معروف اداکار فیصل رحمان کے چچا تھے،وہ پہلے ہیرو اور پھر کریکٹر ایکٹنگ کرتے رہے۔

27 فروری 1937ء کو مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) پنچ گڑھ کے گاؤں روزیا میں پیدا ہونے والے رحمان نے بنگالی اور اردو دونوں زبانوں کی فلموں میں کام کیا۔سب سے پہلے انہوں نے ہدایتکار احتشام کی بنگالی فلم ”ایہہ دیش تمارامر“ میں ولن کا کردار نبھایا تھا جو 1959ء میں نمائش کیلئے پیش ہوئی تھی۔اس کے بعد وہ بنگالی اور اردو فلموں میں ہیرو کے طور پر جلوہ گر ہوئے۔
اگرچہ انہوں نے کئی ہیروئنز کے ساتھ کام کیا لیکن اداکارہ شبنم کے ساتھ ان کی جوڑی بہت پسند کی گئی تھی۔1958ء سے 1970ء کے آخر تک انہوں نے کراچی،ڈھاکہ اور لاہور کی فلموں میں کام کیا،کچھ فلموں کی ہدایت کاری بھی کی۔
رحمان کی سپر ہٹ اردو فلموں میں چندا (1962ء)،تلاش(1963ء)،بہانہ(1965ء)،درشن(1967)،دوستی(1971ء) اور چاہت (1974ء) شامل ہیں۔وہ مشرقی اور مغربی پاکستان میں یکساں طور پر مقبول تھے۔
انہوں نے ایسے دور میں خود کو منوایا جب محمد علی،وحید مراد اور ندیم کا فلم انڈسٹری میں طوطی بولتا تھا۔انہوں نے رومانوی اور میوزیکل فلموں میں کام کیا۔احمد رشدی اور اخلاق احمد کے شاہکار گیت ان پر عکس بند ہوئے،وہ خود بھی موسیقی کے اسرار و رموز سے واقف تھے اسی لئے ان کی فلموں کے گیت بہت متاثر کن ہوتے تھے،ان کی بیشتر فلموں کی موسیقی روبن گھوش کی ہوتی تھی۔

1974ء میں انہوں نے ایک سسپنس فلم میں کام کیا جس کا نام ”دھماکہ“ تھا یہ فلم ابنِ صفی کے ناول سے ماخوذ تھی اور اس میں جاوید شیخ نے بھی کام کیا تھا لیکن یہ فلم بری طرح فلاپ ہوئی اور ثابت ہو گیا کہ رحمان صرف رومانوی اور میوزیکل فلموں کے لئے ہی موزوں ہیں۔”دھماکہ“ رحمان کی ناکام ترین فلم تھی۔60ء کی دہائی میں جب وہ اداکار اور ہدایتکار کی حیثیت سے کامیابیاں سمیٹ رہے تھے تو انہیں ایک حادثے سے دوچار ہونا پڑا۔
فلم ”پریت نہ جانے ریت“ کی شوٹنگ کے دوران ایک حادثے میں انہیں اپنی ایک ٹانگ سے محروم ہونا پڑا جس کے بعد انہوں نے مصنوعی ٹانگ لگوائی اور ان کی کامیابیوں کا سفر پھر سے شروع ہو گیا۔1971ء میں سقوط ڈھاکہ کے بعد رحمان نے پاکستان میں رہنے کو ترجیح دی،شبنم نے بھی پاکستان میں رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔رحمان اپنی فلموں میں ایسے ہیرو کا کردار ادا کرتے تھے جو اپنے مخالفین سے مار کھاتا رہتا تھا لیکن آخری فتح رحمان کی ہی ہوتی تھی وہ ایکشن فلموں میں کام کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔
انہوں نے کیریئر کے دوران بڑے قابل ہدایتکاروں کے ساتھ کام کیا جن میں شریف نیئر،نذر السلام،احتشام،ظہیر رحمان،مستفیض اختر یوسف اور اقبال اختر شامل ہیں۔
رحمان کی اداکاری کی سب سے بڑی خوبی فطری پن تھا،وہ بڑے دھیمے انداز میں مکالمے بولتے تھے شاید ہی کسی فلم میں انہوں نے اونچی آواز میں کوئی مکالمہ بولا ہو،یہ محسوس ہی نہیں ہوتا تھا کہ وہ اداکاری کر رہے ہیں،وہ گانے بھی بڑی عمدگی سے عکس بند کراتے تھے ان کی فلموں کے جتنے گیت ہٹ ہوئے شاید ہی کسی اور اداکار کے ہوئے ہوں۔
ان پر فلمائے گئے نغموں کی ایک طویل فہرست ہے جن میں یہ موسم یہ مست نظارے (درشن)،دن رات خیالوں میں (درشن)،چل دیے تم جو دل توڑ کر (درشن) تمہارے لئے اس دل میں (درشن)،اچھا کیا دل نہ دیا(پیاسا)،پیار بھرے دو شرمیلے نین (چاہت)،ایسے وہ شرمائے (دو ساتھی)،دیکھو یہ کون آ گیا(دو ساتھی) شامل ہیں۔1975ء میں ان کی فلم ”دو ساتھی“ کے گیتوں نے ہر طرف دھوم مچا دی تھی لیکن یہ فلم باکس آفس پر کامیاب نہیں ہو سکی جس کا رحمان کو بہت دکھ ہوا،اس سے پہلے 1974ء میں ان کی فلم ”چاہت“ سپر ہٹ ہو چکی تھی۔
رحمان 90ء کی دہائی میں بنگلہ دیش واپس چلے گئے جہاں انہوں نے بنگالی فلموں میں کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ان کی دیگر اردو فلموں میں گوری،ایندھن اور کنگن بھی شامل ہیں۔رحمان 20 جولائی 2005ء کو طویل علالت کے بعد ڈھاکہ میں انتقال کر گئے تھے۔

Browse More Articles of Lollywood