Jaan Rambo Se Jaan Mango Tak Kamyabi Ka Safar

Jaan Rambo Se Jaan Mango Tak Kamyabi Ka Safar

جان ریمبو سے جان منگو تک ،کامیابی کا سفر

افضل خان کو فنِ اداکاری سے عشق ہے افضل خان ریمبو کے فن اور زندگی پر گفتگو

بدھ 19 ستمبر 2018

عاشق چوہدری ستارہ امتیاز
پاکستان کی شوبز انڈسٹری میں 1991 میں ایک مکالمہ زبان زد عام ہوا اور وہ مکالمہ تھا“ریمبو،ریمبو جان ،ریمبو ،مائی نیم ازجان ریمبو ،کاکروچ کلر“۔اس مکالمے کے ساتھ ایک انداز اور اداکار بھی مقبول ہوا اور اس اداکار کا نام ہے افضل خان جو کہ افضل خان ریمبو کے نام سے جانے پہچانے جاتے ہیں ۔افضل خان کی اداکاری ،انداز، مکالمے اور شخصیت ٹی وی کے مشہور ترین ڈرامہ گیسٹ ہاؤ س کی جان تھی۔

افضل چند اقساط کے بعد ہی پاکستان بھر میں ایک معروف ترین نام بن گئے ۔ بچے بڑے سب افضل ریمبو کی اداکاری اور انداز کو پسند کرتے اور اسی وجہ سے گیسٹ ہاؤس کو تاریخی کامیابی حاصل ہوئی ۔آج قریباََ ستائیس سال بعد اداکار افضل خان کے ایک مکالمہ نے پھر سے مقبولیت کے نئے ریکارڈز قائم کردےئے ہیں اور وہ مکالمہ 13اکتوبر کو ریلیز ہونے والی فلم ڈونکی کنگ کا ہے۔

(جاری ہے)

اس فلم میں مرکزی کردار کے لیے آواز اداکار جان ریمبو کی ہے اور ڈونکی کنگ کہتا ہے ”منگو،منگو ،جان منگو ،مائی نیم ازجان منگودی واشنگ مشین“۔اداکار جان ریمبو جن کا اصل نام افضل خان ہے،کاشمار پاکستان کے ہر دل عزیز اداکاروں میں ہوتا ہے ۔افضل کا فنی سفر مسلسل محنت عزم اور فن سے محبت کے جذبے سے سرشار دکھائی دیتا ہے۔گیسٹ ہاؤس میں کامیابی کے بعد ریمبو کے لیے فلمی صنعت میں دروازے کھل گئے۔

ریمبو نے لالی وڈ میں درجنوں کامیاب فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے ۔افضل اداکاری کی تمام اصناف پر مکمل عبور رکھتے ہیں ۔وہ مزاحیہ ،المیہ ،رو مانوی اور جذباتی اداکاری کو بطریق احسن پر فارم کر سکتے ہیں ۔ان کی مزاحیہ اداکاری ان کی بنیادی پہچان بنی۔فلموں میں ان کے رقص کے انداز نے ان کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔افضل کی مزاحیہ اداکاری اور فلموں میں مرکزی کردار پر فارم کرنے کے انداز نے مرحوم اداکار منور ظریف کی یادتازہ کردی۔
افضل منور ظریف کی طرح خوش شکل ،باصلاحیث اور ایک مکمل کامیڈی ہیروبن کر ابھرے۔افضل کی فلمی صنعت میں آمد کے بعد کہانی نویسوں نے ایسی فلمی کہانیاں تحریر کیں جن کے کردار افضل خان کے انداز اداکاری کے لیے موزوں تھے ۔نوے کی دہائی میں فلمسازوں ،ہدایتکاروں اور کہانی نویسوں کی توجہ افضل خان کی جانب مبدول رہی۔یہی وجہ ہے کہ افضل کی مقبولیت اور جاندار پر فارمنس نے نوے کی دہائی میں فلمی صنعت پر گہرے اثرات مرتب کیے۔
افضل نے گانوں کی پکچرائزیشن کے حوالے سے بھی لیجنڈ وحید مراد اور منور ظریف کے انداز کا احیاء کیا۔افضل ایک ورسٹائل فنکار ہیں ۔اس لیے انھوں نے تھیٹر میں بھی اپنے فن کا لوہامنوایا ۔فلم،ٹی وی اور تھیٹر میں یکسا ں مقبولیت حاصل کرنے کے بعد افضل نے ٹی وی کے لیے مارننگ شو اور انفو ٹینمنٹ کے شوز کی میز بانی کے فرائض بھی انجام دئیے ۔

افضل نے اپنے فنی سفر کے دوران درجنوں ساتھی فنکاروں کے ساتھ پر فارم کیا لیکن ان کی اداکارہ صاحبہ کے ساتھ فلمی جوڑے نے مقبولیت کا نیا گراف عبور کیا۔

بعدازاں افضل نے صاحبہ کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوکر اپنی فیملی لائف کاکامیابی سے آغاز کیا جوکہ لولی ووڈ کی دوسری فلمی جوڑیوں کے لیے مثال ہے۔افضل خان اپنے فنی سفر میں سب سے زیادہ اہم عنصر تجربات اور نئے مواقع کو آزمانے کو قرار دیتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ افضل نے جیو فلمز کی نئی فلم ڈونکی کنگ کے مرکزی کردار کے لیے صوتی پرفارمنس دی ہے۔
اس حوالے سے افضل کا کہنا ہے کہ پاکستان میں فلمی صنعت میں ٹیکنا لوجی کا استعمال بہت خوش آئندہے،جس طرح سے اپنی میشن فلم میکنگ کا فروغ ہو رہا ہے وہ ایک پر مسرت احساس ہے۔نئی ٹیکنا لوجی کو اپنا نے سے پاکستان میں فلمسازی کی نئی لہرمیں مزید تسلسل پیدا ہو گا۔افضل نے بتایا کہ ڈونکی کنگ میں پر فارم کرنا ان کے لیے ایک نیا اور منفرد تجربہ تھا۔
اینی میشن فلموں میں صوتی پر فارمنس دینا دوسری فلموں میں ڈبنگ کرنے سے بہت مختلف ہوتا ہے۔افضل نے کہا کہ انھوں نے اس تجربہ سے بہت کچھ سیکھا اور وہ امید کرتے ہیں کہ ان کے شائقین ان کی پر فارمنس اور فلم کو بہت زیادہ سراہیں گے۔ افضل نے کہا کہ پاکستان میں بچوں کے تفریحی پروگرامز کے حوالے سے کام نہ ہونے کے برابر ہے۔ماضی کے برعکس موجودہ صورتحال زیادہ افسوس ناک ہے۔
پاکستانی بچے پاکستانی تفریح سے محروم ہیں ۔لولی ووڈ میں بھی بچوں کی فلمیں بنانے کے حوالے سے کوئی قابل ذکر کام نہیں کیاگیا۔یہ امر خوش آئند ہے کہ اینی میشن کی فلم میکنگ کی ٹیکنالوجی نے بچوں کے لیے کارٹون اور اینی میٹڈ فلمیں بنانا آسان کر دیا ہے۔پاکستان میں بچوں کے لیے ٹی وی اور فلم میں مکمل یکسوئی کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔

فلم ڈونکی کنگ میں اپنے کردار کے حوالے سے افضل خان کا کہنا تھا کہ ان کا کردار بہت دلچسپ ہے۔

وہ مزاح،ایکشن اورجذباتی تمام مناظر میں حقیقت کے قریب ترین دکھائی دے گا۔افضل خان نے مزید کہا کہ ان کا کردار آٹھ سال سے لیکر اسی سال تک کے فلمی شائقین کی پسندیدگی حاصل کرنے میں پہلے ہی کامیاب ہوچکا ہے اور وہ اس حوالے سے بہت زیادہ خوش ہیں ۔افضل خان صاحبہ سے شادی کو اپنی زندگی کی سب سے بڑی کامیابی قرار دیا۔افضل کا کہنا تھا کہ انسان کی زندگی ایک مکمل خاندان کے بننے کے بعد ہی مکمل ہوتی ہے۔
صاحبہ نہ صرف ان کی جیون ساتھی ہیں بلکہ ان کی دوست اور ہمراز بھی ہیں ۔صاحبہ نے ان کی فنی اور نجی زندگی کی تمام مشکلات میں ان کا حوصلہ بڑھایا ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے فنی سفر کو پچھلے ستائیس برسوں سے کامیابی کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ افضل نے فلمسازی کی نئی لہر کے حوالے سے اطمینان کا اظہار کیا لیکن ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ لولی ووڈ کے پاس کئی دہائیوں کا ایک زرخیز فنی ورثہ اردو اور پنجابی فلموں کی شکل میں موجود ہے۔
افضل نے اس بات کی ضرورت پر زور دیا کہ فلمسازی کو پاکستانی ثقافتی شناخت سے ہم آہنگ رکھنا ہو گا ۔افضل نے فلمی صنعت میں آنے والے نئے رجحانات اور تبدیلیوں کا سہرا نوجوانوں کے سر پر رکھا ۔افضل نے کہا کہ لولی وڈ کا مستقبل نوجوان فلمسازوں ،ہدایتکاروں اور فنکاروں کی محنت اور عزم سے مشروط ہے۔پاکستانی فلمی صنعت کو اب بھی بولی ووڈ اور ہالی ووڈ کے مقابلے پر لانے کے لیے ایک لمبا سفر طے کرنا ہے۔
اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ فلمی صنعت سے وابستہ افراد اپنے فن کو قوم وملک کی امانت سمجھتے ہوئے ملک میں فلمی تخلیقات کوتیار کریں تاکہ ہم اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ سے حاصل کر سکیں ۔افضل نے مزید کہا کہ نئے آنے والے تخلیقاروں اور فنکاروں کو سینئیر اداکاروں کے تجربات سے سیکھنا چائیے۔

افضل نے اس موقع پر اداکار جاوید شیخ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ موجود فلمی ترقی میں کامیاب ترین فلموں میں جاوید شیخ صاحب کی مقبولیت اور اداکاری نے خاص طور پر اہم کردار ادا کیا ہے ۔

افضل نے اداکار جاوید شیخ ندیم ،مصطفی فریشی ،بہار بیگم ،دیبا،نشو ،غلام محی الدین ،شفقت چیمہ اور دیگر سینئر ز کی خدمات کو شاندار طریقے سے خراج تحسین پیش کیا۔افضل نے فلموں میں مزاح کے معیار کے حوالے سے کہا کہ پاکستان میں مزاحیہ اداکاری کی ایک شاندار روایت موجود رہی ہے۔اس روایت میں منور ظریف ،رنگیلا ،لہری ،ننھا ،علی اعجاز اور نرالا جیسے قد آور فنکاروں کے نام شامل ہیں۔
نئے آنے والے مزاحیہ فنکاروں کے لیے یہ تمام نام ایک اکیڈمی کا درجہ رکھتے ہیں ۔نوجوان اداکاروں کو چاہئے کہ وہ ان قدآور شخصیات کے فن سے انسپائر یشن حاصل کرکے فن کے نئے زاویوں کو تخلیق کریں ۔افضل کا مزید کہنا تھا کہ پاکستانی معاشرے میں موجود بے چینی اور ڈپریشن اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ملک میں ہلکے پھلکے انداز کی ٹی وی پروگرامنگ اور فلمسازی کو فروغ دیا جائے تا کہ عوام کوتفریح میسر آسکے۔

Browse More Articles of Lollywood