Main Sukhanwar Bana Bara Ho Kar - Article No. 2468
میں سُخن ور بنا بڑا ہو کر - تحریر نمبر 2468
(اُردو کے مشہور شاعر اور اُستاد عزیز عادلؔ کے شعری مجموعہ ''شب ریز'' پر تبصرہ)
شہزاد حسین بھٹی پیر 7 دسمبر 2020
نُسخہ''شب رِیز''گڑھی دولت زئی، مردان کے نامور اُستاد وشاعر عزیز عادل کا شعری مجموعہ ہے جو جنوری 2020 میں منصہء شہود پر نمودارہوا۔
(جاری ہے)
"آئینہ ساز۔ شب ریز "کے عنوان سے راحل بخاری لکھتے ہیں کہ عزیز عادل کی غزل جذبات اور فکرو خیال کی انتہائی لطیف سطح پر ترسیل کر تی ہے۔ اِن جذبات کا معنویت سے معمور ہو نا لازم ہے اور یہی صفت اِس صنف کی زندگی کی ضمانت ہے اور رہے گی۔ عزیز عادل کی شخصیت کی موسیقی، ترنم اور گدازاُن کے اَشعار میں صاف بولتا ہے۔ کیف و آہنگ کو دو الگ الگ رجحان سمجھنے والے درست ہیں۔ وہ کیف میں شعر کہنا جانتا ہے اور اِس کی زمین کے ساتھ جڑ مضبوط ہے۔
دِیباچے میں ''شعر کی دھرتی کا عادل''کے عنوان کے تحت پروفیسر لعل زادہ لعل یُو ں رقمطراز ہیں کہ عزیز عادل کے کلام کا معنوی حسن قاری کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے۔ وہ زندگی کے رَموز سے باخبر فنکار ہیں۔ آفاقی حقیقت کو ایسی زبان عطا کرتے ہیں کہ پڑھنے والاچارو ناچار اُن کا حامی بن جاتا ہے۔ زندگی کے ہرپہلو کی طرف نہ صرف اُن کی نگاہ جاتی ہے بلکہ حقیقت پسندانہ انداز میں اس کا تجزیہ بھی کرتے ہیں۔تقدیر جو ساری دُنیا کے لیے معمہ رہی ہے،عزیز عادل کتنی آسانی سے سمجھاتے ہیں کہ انسان کا عمل ہی اس کا مقدر ہے اس دُنیا کا کوئی کمال نہیں۔اوج کمال پر پہنچ کر بعضے جب ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ جاتے ہیں تو زوال کے اندھیرے میں فنّا ہو جاتے ہیں۔جبکہ پستی ایسوں کا مقدر بن جاتی ہے۔
شعر۔۔ّزوال جس کے کمال کو ہے، کمال اُس کے زوال کو ہے۔۔
اِس ایک جملہٗ مختصرا میں مقدروں ہی کی آبرو ہے۔
ایک دوسری جگہ پروفیسر لعل زادہ لعل لکھتے ہیں کہ عزیز عادل کا تخیل باور کراتا ہے کہ درِامکاں ہر وقت اور ہر جگہ کھلا رہتا ہے، شعور رکھنے والوں کو نظر آتا ہے اور حوصلہ رکھنے والے اُس سے گزرجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پہاڑوں کی برف پوش چوٹیوں اور سمندرکی اتھاہ گہرائیوں میں پوشیدہ دُنیائیں بھی انسان کی دَسترس سے باہر نہیں۔
بِلا مقصد سمندر تک کوئی رستہ نہیں آتا
شب ریز کے پشت پر اظہرؔ ادیب رحیم یار خان کچھ اس طرح رقمطراز ہیں کہ عزیز عادل جانتا ہے کہ شکاریوں سے ڈرے ہوئے پرندے لوٹ کر نہیں آئیں گے اور درختوں کا اُجاڑ پن اُس سے دیکھا نہیں جاتا سو وہ پَر اکھٹے کرنے اور اُن سے درختوں کوسجانے میں لگا رہتا ہے۔ یہ پَر وہ چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہیں جنہیں تیز رفتار زمانے نے ہم سے چھین لیا ہے۔ ہر صاحب ِدل فنکار کی طرح وہ معاشرتی ناہمواریوں پر احتجاج کرتا ہے۔ یہ احتجاج شہرت یا دکھاوئے کے لیے نہیں بلکہ اندر کی آواز ہے جسے وہ بڑے خلوص اور نیک نیتی سے شعر کے قالب میں ڈھالتا ہے۔ اُسے پتہ ہے کہ اِس سے کوئی انقلاب برپا نہیں ہوگا لیکن اُسے یہ اطمینان ہے کہ وہ اپنا فرض نبھا رہا ہے، سوئے ہوئے شہر کو جگانے کا فرض۔
پیش لفظ میں عزیز عادلؔ لکھتے ہیں کہ ریزہ ریزہ ہو کر بکھرنا ایک مسلسل عمل ہے اور میں اس تحلیلی عرصہ سے گزر رہا ہوں۔ میں اگر یک بار ہی کرچی کرچی ہو کر بکھرتا تو اذیت کی پرکاری مجھ پر ایسے نہ کھلتی جس قدر لمحہ لمحہ کرب کے مراحل سے گزر کر میرے جسم و جاں کو اس کا ادراک ہوا۔ اذیت کی اس شدّت کو کم کرنے کے لیے میں نے لفظوں کا سہارا لیا اور کرب کے نادیدہ احساس کو شعر کے زندہ احساس میں ڈھالتا رہا۔ایک انجانا، انوکھا، گدازاحساس میرے اندر سے نکل کر پرندوں، پیڑوں، خاک، ہوا، رنگ، نور، روشنی، حسن، سراپا اور خوشی و غمی کے ان گنت نظاروں اور کیفیتوں سے اپنا رزق حاصل کرتا رہا۔میرا وجدان شعر کے قالب میں سانس لیتا لفظ لفظ مصرع بنتا آپ کے سامنے ہے یہ آپ کو کتنا اپنی طرف راغب کرتا ہے اس کا فیصلہ آپ پر اور شب ریز پر ہے۔
شب ریز اُردو ادب میں ایک نمایاں اضافہ ثابت ہوگی۔ موضوعِ زبان وبیان،ایجازواختصار،کثرت وعلامات،تشبیہات و استعارات کے ذریعہ سے عزیز عادل نے ایک نیا راستہ نکالا ہے اور پورا مجموعہ پڑھنے کے بعد عقل سوچنے پر مجبور ہے کہ ایک غیر اُردو داں اس قدرذاتی مطالعہ میں منہمک ہو کر زبان اُردو سے جس محبت کا اظہار کیا ہے جس کی تعریف کے لئے الفاظ ہاتھ باندھے قطار لگا کر کھڑے ہیں۔اللہ زورو قلم اور زیادہ ہو۔۔۔
نمونہ کلام
اے خطا کاری ء امید نورداں تری خیر
کاس چشمِ توازن نہ بکھرنے پائے
چشمہء فیضِ دلِ اُنس فروشاں تری خیر۔۔۔۔۔
ؔدُکھ زخمی سپنوں کا دل کے اندر بولے گا
جب منظر چُپ سادھے گا پس ِ منظر بولے گا
تیرے ہجر کا دامن تھامے آخرِ شب کا چاند
اوج فلک کے دروازے سے لگ کر بولے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیسری آنکھ کا دور ہے سائیں مت انجان بنو
پھینکنے والا آخر کون تھا۔ پتھر بولے گا
کچھ دُشوار نہیں ہے سہنا بے مہری کا دُکھ
جیسے دکھ بس دو پل دل کے اندر بولے گا
دیکھو اتنا ظلم نہ کرنا بستی والو ں پر
ورنہ کوئی تم سے نہ میرے دلبر بولے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مشکل ہے ناں مشکل میں آسانی ڈھونڈ رہا ہوں
صحرا صحرا گھوم رہا ہوں پانی ڈھونڈ رہا ہوں
جلتی ریت پہ ننگے پیروں میں پہروں چل پھر کے
پیاسی آنکھوں کی خاطر ارزانی ڈھونڈ رہا ہوں
ہونے کو تو ہو سکتا ہے قیس میاں بھی دیوانہ
میں فی الحال اس دشت میں اپنا ثانی ڈھونڈ رہا ہوں
بھینی بھینی خوشبو سے مہکے عادل یہ بام و در
میں دہلیز پہ دھریہوئی حیرانی ڈھونڈ رہا ہوں۔۔۔
Browse More Urdu Literature Articles
داستان عزم
Dastaan E Azm
محمد فاروق عزمی کا پرعزم اور پر تاثیر قلمی سفر
Mohammad Farooq Azmi Ka PurAzam Aur PurTaseer Qalmi Safar
حلیمہ خان کا تقسیم 1947 کے شہداء کو سلام
'Walking The Divide: A Tale Of A Journey Home'
ذہن اجالا
Zehen Ujala
”نگر نگر اِک نظر“ پر ایک طائرانہ نظر
Nagar Nagar Ik Nazar Per Aik Tairana Nazar
بیش قیمت تحقیقی مقالات پر مبنی کتاب’کم وبیش‘: (ایک جائزہ)
Besh Qeemat Tehqeeqi Muqalat Per Mabni Kitab Kam O Besh
ڈاکٹر زاہد عامر اور سقراط کا دیس
Dr Zahid Aamir Aur Suqrat Ka Dees
”ادب اطفال کا اُبھرتا ہوا ستارہ۔ راج محمد آفریدی“
Adab Ittefal Ka Ubharta Hua Sitara - Raj Mohammad Afridi
تہذیبِ سخن ( شعری مجموعہ)
Tehzeeb E Sukhan
ڈاکٹر فرید پراچہ کی " عمر رواں"
Dr Farid Paracha Ki Umer E Rawaan
'خاک ہو جانے تک' – ایک تبصرہ
Khaak Hoo Jane Tak - Aik Tabsara
شعورِ حیات کا شاعر ۔ ۔۔۔حیات عبداللہ
Shaoor Hayat Ka Shair - Hayat Abdullah