November Ki Udass Shamain Or No Lakhi Kothi - Article No. 2451

November Ki Udass Shamain Or No Lakhi Kothi

نومبر کی اداس شامیں اور نو لکھی کوٹھی - تحریر نمبر 2451

نو لکھی کوٹھی کو شروع کیا تو اس کے اندر محو ہو کر رہ گیا۔ اس ناول کے کردار اور پلاٹ دونوں انتہائی جاذب اور پر کشش ہیں۔ ناول کی کہانی تقسیم سے پہلے فیروزپور کی تحصیل جلال آباد میں جنم لیتی ہے۔ ناول میں چار کردار بیک وقت مرکزی کردار ہیں

Muhammad Saqlain Kanjan محمد ثقلین کانجن جمعہ 13 نومبر 2020

نومبر کی اداس شامیں، ہلکی ہلکی سردی اور دور تک پھیلی خاموشی دل کو تنہا اور اداس کر دیتی ہے۔ پھر ان شاموں کی تنہائی میں اگر چائے اور کتاب کا آسرا لیا جائے، تو یہ دل کی بیگانگی اور پھیکے پن کو دور کر دیتی ہے۔ پس ان شاموں کی تنہائیوں میں میری رغبت کتاب سے بڑھ جاتی ہے۔ نومبر شروع ہوا تو میں نے ناول پڑھنے کی منصوبہ بندی شروع کردی۔
اور مختلف ناولوں کا جائزہ لینا کے بعد میں نے دو ناول، " نو لکھی کوٹھی" جس کے لکھاری اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے شاعر، ادیب علی اکبر ناطق ہیں۔ اور "The kite Runner" جس کے تخلیق کار افعانی نژاد امریکی شہری خالد حسین ہیں۔ ان دو ناولوں کو پڑھنے کا عزم کیا۔
نو لکھی کوٹھی کو شروع کیا تو اس کے اندر محو ہو کر رہ گیا۔ اس ناول کے کردار اور پلاٹ دونوں انتہائی جاذب اور پر کشش ہیں۔

(جاری ہے)

ناول کی کہانی تقسیم سے پہلے فیروزپور کی تحصیل جلال آباد میں جنم لیتی ہے۔ ناول میں چار کردار بیک وقت مرکزی کردار ہیں۔ جن میں ولیم، غلام حیدر، سودھا سنگھ اور مولوی کرامت شامل ہیں۔ ناول میں جاگیردرانہ نظام، فرنگی سامراج کا طرزِ حکومت، مسلم لیگ اور کانگریس کی الیکشن مہم، تقسیم کے فسادات، پاکستانی کی آفسر شاہی کے جائزے کے ساتھ یہ ناول ضیاء دور تک چلا آتا ہے۔
اکیسویں صدی میں اردو ادب میں لکھے گئے شاہکار ناولوں میں سے نمایاں ناول نو لکھی کوٹھی ہے۔
ناول کے کرداروں میں مرکزی حیثیت ولیم کی ہے۔ جس کو سول سروس میں آنے کے بعد ضلع فیروزپور کی تحصیل جلال آباد میں اسسٹنٹ کمشنر کے عہدے پر فائز کر دیا جاتا ہے۔ ولیم کا خاندان پچھلی ایک صدی سے برصغیر میں رہ رہا ہوتا ہے۔ ولیم کی پیدائش بھی اوکاڑہ کے قریب واقع نو لکھی کوٹھی میں ہوتی ہے۔
اور ولیم کا بچپن اسی سر زمین پر بسر ہوتا ہے۔
اسی وجہ سے اس کو اپنی مٹی سے جنون کی حد تک محبت ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہوتی ہے کہ ولیم جلال آباد میں تعیناتی کے بعد علاقے کو سرسبز و شاداب بنا دیتا ہے۔ صحت اور تعلیم کی سہولیات عوام تک پہنچتا ہے۔ لیکن وہ شاید خواہش کے باوجود علاقے کے سردار سودھا سنگھ اور غلام حیدر کی خاندانی دشمنی کی وجہ سے امن و امان قائم نہیں رکھ سکتا۔

غلام حیدر کا کردار چھوٹے جاگیردار کا ہے۔ جو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود خاندانی دشمنی میں الجھ کے رہ جاتا ہے۔ اور اپنے بندوں کے قاتلوں سودھا سنگھ، عبدل گجر سے بدلہ لیتا ہے۔
غلام حیدر تقسیم کے وقت مہاجرین کی ہجرت کے دوران راستے میں شہید ہو جاتا ہے۔
جبکہ سودھا سنگھ ناول میں غنڈہ اور بدمعاش کے روپ میں نظر آتا ہے۔ جو غلام حیدر کے ساتھ دشمنی میں ہر حد پار کر جاتا ہے۔
یہ خاندانی لڑائیاں مسلم سکھ نہیں بلکہ چوہدراہٹ کی دوڑ میں لڑی جاتی ہیں ۔
ناول میں مولوی کرامت ایسا کردار ہے۔ جو مسلمانوں کے بچوں کو سرکاری سکولوں میں پڑھنے کی جانب راغب کرتا ہے۔ اور ولیم کی ہر ممکن مدد کرتا ہے۔ ولیم اس کو نوکری دلاتا ہے۔ اور اس کی موت کے بعد ولیم مولوی کرامت کے بیٹے کو بھی سرکاری سطح پر روزگار فراہم کرتا ہے۔

اسی دوران تقسیم ہند ہو جاتی ہے۔ قتل و غارت شروع ہو جاتی ہے۔ انگریز سول سرونٹ برصغیر چھوڑ کر برطانیہ چلے جاتے ہیں۔ لیکن ولیم اپنی دھرتی اور مٹی کو چھوڑنے سے انکار کر دیتا ہے۔ اور پاکستانی بن کر رہنا چاہتا ہے۔ لیکن افسر شاہی اسے قبول نہیں کرتی۔
مولوی کرامت کا پوتا جو نائب تحصیلدار بھرتی ہوتا ہے۔ اور چاپلوسی کے ذریعے اسسٹنٹ کمشنر ہو جاتا ہے۔
اور اوکاڑہ میں ڈیوٹی پر جب اسے معمور کیا جاتا ہے، تو اس کی نظر نو لکھی کوٹھی پر پڑھتی ہے۔ جسے وہ غیر قانونی طریقے سے اپنے نام کروا لیتا ہے۔ اور ولیم کو دکھے مار کر حویلی سے باہر پھینک دیا جاتا ہے۔
اس صدمے کی تاب نہ لاتے ہوئے، ولیم ذہنی خلفشار کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ ذہنی الجھاؤ اس کی موت کا سبب بن جاتا ہے۔ اور ولیم کا وہ خواب جو اس نے اپنی مٹی میں دفن ہونے کا دیکھا تھا۔
وہ خواب، وہ حسرت اس کی پوری ہو جاتی ہے۔
اور وہ اپنی مٹی میں مر کر امر ہو جاتا ہے۔
نو لکھی کوٹھی تقسیم ہند پر لکھا گیا ناول ہے۔
لیکن یہ ناول دوسرے تقسم پر لکھے گئے ناولز کی نسبت منفرد ہے۔ جو پاک و ہند کے کلچر کو مکمل طور پر دیکھاتا ہے۔ چاہے وہ تقسیم سے پہلے کی ثقافت و تہذیب ہو یا پھر بٹوارے کے بعد کے حالات سارے آنکھوں کے سامنے آ کے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

ناول اپنے اندر محو کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ ناول قاری کو وہ دیکھاتا ہے، جو وہ دیکھنا چاہتا ہے۔ اور یہی اچھے ناول کی خوبی ہوتی ہے۔ دوسرا ناول لکھاری کی اپنی زمین سے پھوٹتا ہوا مضافات کے رسہن سہن کو بھی بیان کرتا ہے۔
اور بقول مستنصر حسین تارڑ ناول کی خوبیوں میں سے ایک خوبی اس کا اپنے ماحول اور روایات کو بیان کرنا بھی ہوتا ہے۔

نو لکھی کوٹھی اچھا ناول ہے۔ پاک برصغیر کے حالات کو سمجھنے والوں کو یہ ناول لازمی پڑھنا چاہیے۔ جس کو پڑھتے ہوئے تقسیم سے پہلے کا برصغیر آپ کی آنکھوں کے سامنے آ کھڑا ہوتا ہے۔
جبکہ " دی کائٹ رانر" خالد حسیننی نے تخلیق کر کے انگلش ادب کو شاہکار ناول عطا کیا ہے۔ یہ ناول سویت یونین کے افغانستان پر حملے اور ہزارہ جات کے ساتھ رکھے جانے والے امتیازی سلوک کی کہانی کے گرد گھومتا ہے۔ اس ناول کا شمار دنیا میں زیادہ بکنے والے ناولز میں ہوتا ہے۔ اس ناول کے بارے اتنا عرض کرتا ہوں۔ ادب اور خصوصاً انگلش ادب سے شغف رکھنے والوں نے اگر یہ ناول نہیں پڑھا تو انھوں نے خود کو بہترین ناول سے محروم رکھا ہوا ہے۔

Browse More Urdu Literature Articles