Tooti Sarhadain - Aik Jaiza - Article No. 2505

Tooti Sarhadain - Aik Jaiza

ٹوٹتی سرحدیں۔ایک جائزہ - تحریر نمبر 2505

”جو پڑھنا چاہتے ہیں ، آنکھیں کھو دیتے ہیں اور جو پڑھنا نہیں چاہتے، وہ اپنے آباؤ اجدا د کی کتابیں ردی میں بیچ دیتے ہیں، مگر یہ سچ ہے کہ آدمی کی آوازیں ، روز اول سے روز ابد تک کائنات میں گونجتی رہیں گی

ذوالفقار علی بخاری منگل 23 مارچ 2021

”جو پڑھنا چاہتے ہیں ، آنکھیں کھو دیتے ہیں اور جو پڑھنا نہیں چاہتے، وہ اپنے آباؤ اجدا د کی کتابیں ردی میں بیچ دیتے ہیں، مگر یہ سچ ہے کہ آدمی کی آوازیں ، روز اول سے روز ابد تک کائنات میں گونجتی رہیں گی۔ آدمی کے احساسات جو اس نے قلمبند کئے ،دراصل عام آدمی کی کہانی ہیں جو اپنی تاریخ سے ہٹ کر ہیں۔ ہم ایک نئی کہانی سناتے رہیں گے ، جس سے نئی سوچ ارتقاء پاتی رہے گی۔
سوچ کا ارتقاء انسانی فکر وتہذیب کا رتقاء ہے، جو ہمیں حقیقت سے قریب اور فریب سے دور لے جاتا ہے“۔
(مہر افروز )
اسی بات کو سامنے رکھتے ہوئے ایک اور بات کہیں پڑھی یاد آئی ہے۔
برسوں قبل کارل ساگان نے کیاخوب کہا تھا:
”جب آپ کسی کتاب پر نظر ڈالتے ہیں تو دوسرے شخص کی آواز سنتے ہیں جو شاید ہزار سال پہلے فوت ہو چکا ہو۔

(جاری ہے)

مطالعہ وقت میں سفر کرنا ہوتا ہے“۔


کتاب سے بڑھ کر کوئی اور دوست نہیں ہو سکتا ہے، اسی وجہ سے راقم السطور نے قارئین کے لئے ایک کتاب کا انتخاب کیا ہے جو کہ پڑھنے کے لائق ہے کہ اس میں شامل افسانے ہمیں اپنے اردگرد چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ یہ ہماری نگاہوں کے سامنے آکر یہ محسوس کرواتے ہیں کہ ہر چلتا پھر تا فرد ایک کہانی ہے اور انہی کہانیوں پر مشتمل ” ٹوٹتی سرحدیں“ ایک افسانوی مجموعہ ہے جو کہ بھارت کی معروف ادیبہ” مہر افروز“ صاحبہ کے قلم کا شاہ کار کہلایا جا سکتا ہے جو اُن کی ساکھ کو متعین کرتا ہے۔

اس مجموعے میں شامل افسانوں میں ادھوری عورت، دہشت گرد، کٹی پتنگ ، ٹوٹتی سرحدیں، اُستاد، کچا گوشت، پل صراط، مکھونے، پھالگنی، جھوٹا سچ، بلی، بے چہرہ، سپنوں کے قاتل،Be My Valentine، اور زندگی چل پڑی، ماں کی بولی، تعمیر نو، طلسماتی ٹوپیاں ، ٹفن باکس، چنّما ایکسپریس ، بھگوان اور بلاؤ کودل کی آنکھ سے پڑھنے کی ضرورت ہے کہ یہ ہمیں کڑوی سچائی کو یوں محسوس کرواتے ہیں جیسے زہر میں شہد گھول کر پلایا جا رہا ہو کہ اُس کی کرواہٹ کا احساس نہیں ہوتا ہے۔

مہر افروز صاحبہ نے اس افسانوی مجموعے کا انتساب ” ڈاکٹر مقصود حسنی “ جو کہ اُن کے روحانی والد ہیں، کے نام کیا ہے،بقول اُن کے اُنہی کی دعاؤں سے اُن کا آج تک قلم رواں ہے۔
مہر افروز صاحبہ نے پیش لفظ میں کچھ یوں اپنے احساسات وجذبات کو قلمبند کیا ہے۔
” لکھنا ایک قدرتی عمل ہے جوہر ادیب کی اُس پیاس کو ظاہر کرتا ہے جسے وہ قلمبند کرنا چاہتا ہے۔
میں اسی لئے لکھتی ہوں کہ اپنی سوچ دوسروں تک پہنچا سکوں۔بہت لکھا ہے ، کچھ آپ تک پہچانے کی سعی کر رہی ہوں۔ اس سعی میں ساتھ دینے والوں کی عمیق دل سے سپاس گذار ہوں“۔
اس مجموعے پر تبصرہ کرنے سے قبل ہم چند نامور ہستیوں کی رائے جانتے ہیں جو کہ اسی مجموعے کا حصہ بنی ہے۔
عبدالغنی جاگل ( غنی غیور) کے بقول:
”مہر افروز کے بعض افسانوں میں عورت کا کرب ، علاقائی ویثرگی اورعصری مسائل کو مہارت سے گونتھا گیا ہے۔
ان کی تخلی کائنات میں زمینی بو اور باس رچی اور بسی ہے“۔
قیصر نذیر خاور کچھ یوں عرض کرتے ہیں۔
” ان افسانوں کے کرداروں سے جان نہیں چھڑا سکتا کہ یہ سرحد پار کے کردار ہیں۔ یہ سب کسی نہ کسی شکل میں میرے ارد گرد موجود ہیں۔ میں انہیں مصنوعی بھی نہیں کہہ سکتا کہ یہ حقیقت میں میرے آس پاس کھڑے ہیں“۔
مہر افروز صاحبہ کی اس کاوش کے حوالے سے بات یہاں تک ختم نہیں ہوتی ہے ۔
اس پر پروفیسر یونس حسن خان کچھ یوں رقم طراز ہیں:
” مہر افروز کے افسانوں میں اپنی معاشرتی ،تہذیبی ،ثقافتی اور تمدنی روایات سے بغاوت کرنے والے لبرل ( آزاد)افراد کی زندگی کی تصویریں بھی نظر آتی ہیں۔ان کے افسانوں کے مجموعی مطالعہ سے یہ بات اُبھر کر سامنے آتی ہے کہ اُن کا رشتہ برصغیر کی دھرتی اور اُس کے لوگوں سے بڑا گہرا اور اٹوٹ ہے“۔

پروفیسر نیامت علی مرتضائی نے اسی مجموعے میں اپنی رائے کچھ یوں دی ہے:
” ٹوٹتی سرحدیں“ کے افسانے ،افسانے نہیں ،جام جہاں نما ہیں۔یہ دراصل ان کے دل کے ٹکڑے ہیں جو انہوں نے الفاظ کی ڈشوں میں رکھ کر ادب کی میز پر پیش کر دیے ہیں“۔
اسی طرح کے کچھ خیالات کا اظہار ڈاکٹر مقصود حسنی نے بھی کیا ہے:
” مہر افروز نے اپنے افسانوں میں سچ کا دامن تھامتے ہوئے اپنے عہد اور اس کے شخص کی تاریخ لکھ دی ہے۔
ان کے لکھے ہوئے افسانوں کے عنوان بھی عصری حیات کی عکاسی کرتے ہوئے نطر آتے ہیں“۔
اس افسانوی مجموعے میں شامل” ادھوری عورت“ نامکمل حسرتوں کا قصہ ہے کہ جب ہاتھ میں کچھ نہ رہے تو پھر انسان خود کو اُدھورے پن جیسا محسوس کرتا ہے۔” دہشت گرد“ عنوان سے تو ظاہر کرتا ہے کہ یہ کسی دہشت گرد کی زندگی کا احاطہ کرتا ہوگا مگر درحقیقت یہ قاری پر سوچ کا نیا در وا کرتا ہے ۔
” کٹی پتنگ“ اس نام کی بھارت میں ایک فلم بھی بنی تھی جس کا مرکزی کردار اپنے وقت کے سپر سٹار راجیش کھنہ صاحب نے کیا تھا۔ اس افسانے میں یہ قصہ ہے کہ جب آپ کہیں کے نہیں رہتے تو پھر آپ ایک در سے دوسرے در تک بھٹکتے ہیں۔” ٹوٹتی سرحدیں“ اس افسانوی مجموعے کا نام بھی اسی افسانے کی مناسب سے رکھا گیا ہے جو کہ قاری پریہ ظاہرکرتا ہے کہ کیسے سرحدیں ٹوٹتی ہیں۔
ہم کبھی کبھی اپنے لئے خود بھی ایک سرحد بنا لیتے ہیں جس کو پار کرنا ناممکن ہوتا ہے۔” استاد“ کی عزت و حرمت کے حوالے سے یہ حساس دل کے لئے تحفہ قرار دیا جا سکتا ہے کہ” استاد کی نظر کرم علم کو مکمل کرتی ہے“۔جب تک اُستاد ساتھ نہیں ہوتا ہے تو بہت کچھ ہم ٹھیک سے نہیں کر سکتے ہیں ، اسی تناظر میں یہ افسانہ بے حد متاثر کن ہے۔
” کچا گوشت“ یہ افسانہ سعادت حسن منتو کے ” ٹھنڈے گوشت“ کی یاد دلواتا ہے ۔
اب یہ راز تو افسانہ پڑھ کر ہی قاری کو معلوم کرنا چاہیے کہ اس کا نام یہ رکھنے کی وجوہات کیا تھیں۔راقم السطور کے نزدیک مہر افروز صاحبہ کے اس پہلے افسانوی مجموعے کی دھاک وقت کے ساتھ بیٹھ جائے گی کہ خوب صورت جذبوں کی تصویر کشی بھی لفطوں سے یوں کی گئی ہے کہ قاری بس پڑھتا چلا جاتا ہے۔
” پل صراط“اپنے اعمال کی سزا کے حوالے سے یہ بھی دل چسپ افسانہ ہے۔
” مکھونے“ یہ آج کی اُس عورت کا قصہ ہے جو فرض تو ادا کر دیتی ہے مگر حقوق کے حوالے سے محرومی کا شکار رہتی ہے۔” پھالگنی“ اور ” جھوٹا سچا“،” بلی“، ” بے چہرہ“ ، ” سپنوں کا قاتل“، ” بی مائی ویلنٹائن“،” اور زندگی چل پڑی“، ” تعمیر نو“دیگر کہانیوں میں انسانی احساسات وجذبات اور زندگی کے کئے رنگ نظر آتے ہیں جو پڑھنے والوں کو نت نئے جہاں کی سیر کرواتے ہیں۔

” بلی“ کا افسانہ اس مجموعے کا بہترین افسانہ قرار دیا جا سکتا ہے جو انسانی نفسیات کی بہترین عکاسی کرتا ہے کہ مطلب نکل جائے تو کوئی نہیں پوچھتا ہے۔اس افسانوی مجموعے” ٹوٹتی سرحدیں “ کی قیمت محض دو سو روپے ہندوستانی ہیں اور صفحات لگ بھگ 144ہیں۔اس کو درج ذیل پتے سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔
تریاق انٹرنیشنل اُردو فاؤنڈیشن ،ممبئی
12/8ایم۔ کے بائٹس۔روبرویل وارڈ سی ۔ایس ۔ٹی روڑکرلا ویسٹ ممبئی۔فون نمبر9594919597

Browse More Urdu Literature Articles