BarhveeN Raat - Article No. 1564

BarhveeN Raat

بارہویں رات - تحریر نمبر 1564

میری شادی میرے چچیرے بھائی سے ہوئی تھی لیکن پہلی ہی رات مجھے جرجیس بن رجموس نامی دیو جو ابلیس کا خالہ زاد بھائی، اڑا لایا اور اس مکان میں اتارا

پیر 30 اکتوبر 2017

جب بارہویں رات ہوئی تو اس نے کہا کہ اے نیک بخت بادشاہ ۔۔۔۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ قلندر لڑکی سے یہ واقعہ کہہ رہا تھا اور لوگ کان لگائے سن رہے تھے بالخصوص خلیفہ اور جعفر۔ قلندر نے کہا کہ چچا نے اپنے بیٹے کو جوتوں سے مارا‘ جب کہ وہ وہاں کوئلے کی طرح سیاہ پڑا ہوا تھا۔ اس پر مجھے سخت تعجب ہوا اور چچیرے بھائی کے لیے دل کڑھنے لگا۔ یہ مجھے معلوم نہ تھا کہ وہ اور لڑکی کیوں کوئلے کی طرح سیاہ ہو گئے۔

میں نے کہا کہ چچا جان‘ خدا کے لیے اپنا غصہ ٹھنڈا کیجئے۔ میرے دل پر چوٹ لگ رہی ہے اور مجھے اس بات کا صدمہ ہے کہ آپ کے بیٹے کا یہ کیا حال ہوا‘ اور وہ لڑکی دونوں کیوں کوئلے کی طرح سیاہ ہوگئے۔ آپ نے اس کو کافی نہ سمجھا اور اسے جوتوں سے مارا۔ اس نے جواب دیا کہ اے بھتیجے‘ یہ میرا لڑکا بچپن سے اپنی بہن کے عشق میں مبتلا تھا۔

(جاری ہے)

میں اسے منع کرتا رہتا اور دل میں خیال کرتا کہ یہ ابھی بچے ہیں، بڑے ہو کر انہوں نے بدکاری شروع کر دی۔

جب میرے کان تک یہ خبر پہنچی تو مجھے اس کا یقین نہ آیا۔ پھر بھی میں نے اسے بہت ڈانتا ڈپٹا۔ نوکروں نے بھی اس سے کہا کہ ایسی باتیں چھوڑ دے۔ ایسی بات نہ کبھی کسی نے پہلے کی ہے اور نہ بعد میں کرے گا۔ ایسا کرنے سے تو تو قیامت تک دوسرے بادشاہوں میں بھی بدنام ہوگا اور سوار ہماری یہ خبریں دور دور پہنچائیں گے۔ خبردار ایسی حرکت تجھ سے پھر سرزد نہ ہو۔
ورنہ بادشاہ ناراض ہوگا اور تمہیں قتل کر دے گا۔ میں نے دونوں کو علیحدہ علیحدہ رکھا مگر اس چھنال کو اس سے بے حد عشق تھا‘ شیطان ان پر غالب تھا اور ان کی بدکاری کو اس نے ان کے سامنے خوبصورت رنگ میں پیش کیا۔ جب اس نے دیکھا کہ میں نے اسے علیحدہ رکھا ہے تو اس نے زمین کے نیچے یہ مکان بنا کر آراستہ کیا اور کھانے پینے کی ساری چیزیں یہاں لا کر جمع کیں جیسا کہ تو دیکھ رہا ہے۔
اس کی خبر اس نے مجھے بالکل نہ دی۔ جب میں شکار کے لیے گیا تو وہ یہاں چلا آیا۔ خدا نے لڑکے اور لڑکی کو سزا دی اور جلا کر راکھ کر دیا۔ لیکن آخرت کا عذاب اس سے بھی زیادہ سخت ہوگا۔ یہ کہہ کر وہ رو پڑا اور میں بھی اس کے ساتھ رونے لگا۔ اس نے مجھے دیکھ کہ کہا کہ اس کے بدلے اب تو میرا بیٹا ہے، تھوڑی دیر تک میں اس خیال میں غرق تھا کہ دنیا میں کیسے کیسے حادثے پیش آتے ہیں اور وزیر کس طرح میرے باپ کو قتل کر کے خود بادشاہ بن بیٹھا اور میری آنکھ پھوڑ دی اور میرے چچیرے بھائی کے ساتھ کیا عجیب واقعات پیش آئے۔
یہ سوچ کر میں رو پڑا اور میرا چچا بھی میرے ساتھ رونے لگا۔ اب ہم اوپر آئے اور پتر اور مٹی اپنی اپنی جگہ رکھ دی اور قبر کو پہلے کی طرح بند کر دیا۔
گھر واپس آ کر بیٹھے ہی تھے کہ ڈھلوں اور بگلوں اور نقاروں اور جنگ آوروں کے نیزوں کی آوازیں سنائی دیں اور دیکھا کہ گھوڑوں کی ٹاپوں سے وہ گرد اٹھ رہی ہے کہ چاروں طرف اندھیرا چھا گیا۔ ہم دنگ تھے کہ یااللہ یہ کیا ہورہا ہے، دریافت کرنے پر لوگوں نے کہا کہ جس وزیر نے آپ کے باپ کا ملک چھین لیا ہے‘ اس نے ایک بڑا لشکر جمع کرکے آراستہ کیا اور بدوﺅں کو اس میں نوکر رکھا اور اب ہمارے اوپر ایسے لشکر کے ساتھ ٹوٹ پڑا ہے جن کی تعداد ریت کی سی ہے اور جو گنے نہیں جا سکتے اور جن کے مقابلے کی طاقت کسی میں نہیں۔
انہوں نے بے خبری میں شہر پر حملہ کر دیا۔ شہر والوں میں ان کے روکنے کی قوت نہ تھی اور انہوں نے شہر کو حوالہ کر دیا۔ لڑائی میں میرا چچا کام آیا اور میں شہر کے باہر بھاگ گیا اور اپنے دل میں کہنے لگا کہ اگر تو رنج و غم اور بڑھ گیا اور وہ تمام واقعات میری آنکھوں کے آگے پھرنے لگے جو میرے باپ اور چچا کے ساتھ پیش آئے تھے اور میں سوچنے لگا کہ اب کیا کرنا چاہیے۔
اگر میں باہر نکلا تو شہر والے اور خود میرے باپ کے سپاہی مجھے پہچان لیں گے اور یہ میرے قتل و ہلاکت کا باعث ہوگا۔ بچنے کی کوئی اور سبیل مجھے نظر نہ آئی، سوائے اس کے کہ میں داڑھی مونچھیں مونڈ ڈالوں۔ میں بھیس بدل کر وہاں سے نکل کھڑا ہوا اور یہاں پہنچا تاکہ شاید مجھے کوئی امیر المومنین اور خدا کے خلیفہ تک پہنچا دے اور میں اسے سارا قصہ اور اپنی واردات بیان کر دوں۔
رات کے وقت میں اس شہر میں پہنچا اور حیران کھڑا تھا کہ کہاں جاﺅں؟ اتنے میں میں نے اس دوسرے قلندر کو دیکھا اور سلام کر کے کہا کہ میں پردیسی ہوں۔ اس نے کہا کہ میں بھی پردیسی ہوں۔ ہم میں یہی باتیں ہو رہی تھیں کہ تیسرا ساتھی وہاں پہنچا اور ہمیں سلام کرکے کہنے لگا کہ میں پردیسی ہوں۔ ہم نے کہ ہم بھی پردیسی ہیں۔ اب ہم تینوں ساتھ ہو لیے۔ یہاں تک کہ اندھیرا ہو گیا اور قسمت ہمیں تمہارے پاس لے آئی۔
یہ ہے سبب میری داڑھی مونچھ منڈنے اور میری آنکھ پھوٹنے کا۔ لڑکی نے کہا کہ آداب بجا لا اور چلتا ہو۔ اس نے جواب دیا کہ دوسروں کی کہانی سنے بغیر نہ جاﺅں گا۔ لوگوں کو اس کی کہانی پر بڑا تعجب ہوا اور خلیفہ نے جعفر سے کہا کہ اس قلندر کی سی واردات میں نے سنی نہ دیکھی۔
دوسرے قلندر کی کہانی۔
اب دوسرا قلندر آگے آیا اور زمین کو بوسہ دے کر کہنے لگا کہ اے بی بی میں بھی مادر زاد کانا نہیں۔
میری کہانی ایسی عجیب و غریب ہے کہ اگر سوئی کی نوک سے آنکھوں کے گوشوں میں لکھی جائے تو عبرت حاصل کرنے والوں کے لیے عبرت کا باعث ہو گا۔ وہ یہ ہے کہ میں بادشاہ اور بادشاہ زاد ہوں۔ میں قرآن شریف کی ساتوں قراتوں سے واقف ہوں اور بہت سی اور کتابیں پڑھی ہیں اور عالموں سے بحث مباحثہ کیا ہے اور نجوم اور شاعروں کا کلام پڑھا ہے۔ سارے علوم میں مجھے اجتہاد کا درجہ حاصل ہے اور میرا ہم پلہ کوئی نہیں۔
میرا خط تمام خوش نویسوں کے خط سے بہتر ہے۔ اس وجہ سے میں تمام شہروں اور ملکوں اور ان کے بادشاہوں میں مشہور ہو گیا۔ جب میری خبر ہندوستان کے راجہ تک پہنچی تو اس نے میرے باپ کے پاس پیغام بھیج کر مجھے بلوایا اور میرے باپ کے لیے شاہانہ تحفے تحائف بھیجے۔ میرے باپ نے چھ کشتیوں میں سامان بھر کر میرے ساتھ روانہ کردیا۔ پورے ایک مہینے تک سمندر کا سفر کرنے کے بعد ہم خشکی پر اترے اور گھوڑوں کو کشتیوں میں سے نکلا اور دس اونٹوں پر تحائف لاد کر روانہ ہوگئے۔
ابھی تھوڑی دور چلے تھے کہ ہم نے ایک غبار اٹھتا دیکھا جو پھیل کر چاروں طرف چھا گیا۔ ایک پہر دن چڑھے غبار ہٹا اور اس میں سے پچاس سوار شیروں کی طرح خونخوار اور زرہ بکتر پہنے نمودار ہوئے۔ ہم نے غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ بدو ڈاکو ہیں۔ جب انہوں نے دیکھا کہ ہم محض چند نفر ہیں اور ہمارے ساتھ ہندوستان کے راجہ کے لیے دس اونٹوں پر تحائف لدے ہوئے ہیں تو وہ ہماری طرف بڑھے اور اپنے نیزے ہمارے سامنے کر دیے۔
ہم نے انگلیوں کے اشارے سے ان سے کہا کہ ہم ہندوستان کے مہاراجہ کے ایلچی ہیں، ہمیں نہ ستاﺅ۔ انہوں نے جواب دیا کہ نہ ہم اس کے ملک کے باشندے ہیں اور نہ اس کی رعایا۔ انہوں نے بعض غلاموں کو قتل کر دیا اور باقی بھاگ گئے۔ میں بھی زخمی ہو کر بھاگ نکلا۔ بدو مال اور تحفوں کے لوٹنے میں مشغول ہو گئے‘ جو ہمارے ساتھ تھے۔ میری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کہاں جاﺅں۔
پہلے تو میں بڑا آدمی تھا اور اب بالکل ذلیل ہو گیا۔ چلتے چلتے میں پہاڑ کی چوٹی پر پہنچا اور صبح تک ایک غار میں پناہ لی۔ پھر چلتے چلتے ایک شہر میں پہنچا جہاں امن و امان تھا اور جو چار دیواری سے محفوظ تھا۔ سردیاں وہاں سے گزر چکی تھیں اور بہار گلابوں کو کے کر آ پہنچی تھی۔ شہر گلزار تھا اور اس میں نہریں بہہ رہی اور چڑیاں گا رہی تھیں۔
وہاں پہنچ کر میں بہت خوش ہوا۔
کیونکہ میں چلتے چلتے تھک گیا اور غم سے میرا رنگ فق ہو گیا تھا اور میری حالت ابتر تھی۔ مگر میری سمجھ میں نہ آیا تھا کہ کہاں جاﺅں؟ یہاں تک کہ میں ایک درزی کے پاس سے گزرا جو اپنی دکان میں بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے اسے سلام کیا اور اس نے سلام کا جواب دیا اور مرحبا کہا اور خوش ہوا، اس نے مجھے دلاسا دیا اور میری غربت کا سبب پوچھا۔ میں نے سارا ماجرا اول سے آخر تک بیان کر دیا۔
اسے میری حالت پر بڑا افسوس ہوا اور کہنے لگا کہ اے جوان‘ اپنا حال کسی اور پر ظاہر مت کیجیو۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں اس شہر کا بادشاہ تیرے ساتھ بدسلوکی نہ کرے۔ کیونکہ وہ تیرے باپ کا سخت دشمن ہے اور خون کا بدلہ لینا چاہتا ہے۔ پھر وہ کھانا لایا اور میں نے کھایا اور میرے ساتھ اس نے بھی کھایا۔ رات کے وقت ہم بات چیت میں مشغول رہے۔ اس نے اپنی دکان کے بازو میں ایک کوٹھڑی میرے لیے مخصوص کر دی اور اوڑھنا بچھونا جس کی مجھے ضرورت تھی لے آیا۔
تین روز مہمان رکھنے کے بعد اس نے کہا کہ کیا تجھے کوئی دستکاری آتی ہے جس کے ذریعے سے تو کما کھا سکے۔ میں نے کہا کہ میں فقیہ‘ عالم‘ کاتب‘ حساب داں اور خوش نویس ہوں۔ اس نے کہا کہ یہ تیری چیزیں ہمارے شہر میں بیکار ہیں۔ ہمارے شہر میں کوئی شخص سوائے تجارت کے لکھنا پڑھنا تک نہیں جانتا۔ میں نے کہا کہ واللہ‘ جن چیزوں کا میں نے تجھ سے ذکر کیا ہے‘ ان کے علاوہ میں کچھ نہیں جانتا۔
اس نے کہا کہ اچھا‘ اپنی کمر باندھ اور کلہاڑی اور رلی لے کر جنگل سے لکڑیاں کاٹ لایا کر۔ اس سے تیرا کھانا پینا چلتا رہے گا جب تک خدا تیری مصیبت دور نہ کر دے۔ کسی سے یہ ذکر مت کیجیو کہ تو کون ہے ورنہ وہ تجھے مار ڈالیں گے۔ پھر اس نے میرے لیے ایک کلہاڑی اور ایک رسی خریدی اور بعض لکڑہاروں کو بلا کر مجھے ان کے سپرد کر دیا۔ میں ان کے ساتھ روز جاتا اور دن بھر لکڑیاں کاٹتا اور سر پر لاد کر لاتا اور انہیں آدھ دینار میں بیچتا‘ کچھ اس میں سے کھانے پینے میں صرف کرتا اور کچھ بچا رکھتا۔
ایک سال تک میری یہ حالت رہی۔ اس کے بعد ایک روز میں اپنے دستور کے مواقف جنگل میں گیا اور ساتھیوں سے دور جا پڑاو کیا۔ اب کیا دیکھتا ہوں کہ ایک نشیب میں بہت سے درخت اور لکڑیاں ہیں۔ میں اس نشیب میں اترا اور وہاں ایک موٹے درخت کی جڑ دیکھی۔ جب میں اس کے آس پاس کھودنے اور مٹی ہٹانے لگا تو میری کلہاڑی ایک تانبے کے حلقے پر پڑی اور جھن سے آواز آئی۔
میں نے مٹی ہٹائی تو دیکھا کہ وہ لکڑی کے تختے میں جڑی ہوئی ہے۔ جب میں نے لکڑی پر سے مٹی دور کی تو مجھے اس کے نیچے زینہ نظر آیا۔ میں زینے کے نیچے اترا تو وہاں ایک دروازہ دکھائی دیا اور میں اس میں داخل ہو گیا۔ اب کیا دیکھتا ہوں کہ اندر ایک نہایت خوبصورت اور مضبوط محل ہے اور اس میں ایک نو عمر لڑکی بیٹھی ہوئی ہے۔ جیسے ایک بیش بہا موتی‘ جسے دیکھ کر رنج و غم اور مصیبتیں دور اور جس کی گفتگو سے تکلیفیں زائل ہو جاتی ہیں اور جس کے سامنے بڑے بڑے ہوشیار لوگ اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھتے ہیں۔
بلند بالا‘ سینہ ابھرا ہوا‘ رخسار نرم نرم‘ چمک دار‘ صورت شکل ملیح‘ کالے کالے بالوں کے بیچ میں اس کا چہرہ دمک رہا تھا اور سینے کی اٹھان کے اوپر اس کے دانت دمک رہے تھے۔
جب میں نے اس کی طرف نظر اٹھائی تو اس کے حسن و جمال کو دیکھ کر اس کے خالق کے آگے سجدہ کیا۔ اس نے میری طرف دیکھ کر کہا کہ تو کون ہے؟ انسان یا جن؟ میں نے کہا کہ انسان۔
اس نے پوچھا کہ تجھے یہاں کون لایا ہے؟ بولی میں یہاں پچیس سال سے ہوں اور کبھی انسان کی شکل نہیں دیکھی۔ اس کی گفتگو میں شرینی تھی اور میں دل و جان سے اس پر قربان ہو چکا تھا۔ میں نے کہا کہ اے میرے آقا‘ میری خوش وقتی مجھے یہاں لائی ہے تاکہ میرا رنج و غم دور ہو جائے۔ اب میں نے اپنا سارا ماجرا اول سے آخر تک بیان کر دیا۔ اسے میرے حال پر ترس آیا اور رونے لگی اور کہا کہ اب دوسرا قصہ میرا سن۔
میں افتیاس بادشاہ کی بیٹی ہوں جس کی حکومت جزیرہ ابنوس پر ہے۔ اس نے میری شادی میرے چچیرے بھائی سے کی تھی لیکن پہلی ہی رات مجھے ایک دیو جس کا نام جرجیس بن رجموس ہے اور جو ابلیس کا خالہ زاد بھائی ہے چرا کر اڑا لایا اور اس مکان میں اتارا اور ساری ضروری چیزیں یہاں لا کر رکھیں، مثلاً پوشاک‘ زیور‘ کپڑے‘ خانہ داری کی چیزیں‘ کھانا پینا وغیرہ وغیرہ۔
ہر دسویں روز ایک بار وہ یہاں آتا اور ایک رات رہ کر چلا جاتا ہے۔ کیونکہ اس نے اپنے خاندان کی مرضی کے خلاف مجھے لیا ہے۔ اس نے مجھ سے یہ وعدہ کیا ہے کہ جب کبھی دن میں یا رات میں کوئی ضرورت پڑے تو میں ان دو سطروں پر ہاتھ پھیروں جو اس گولے پر لکھی ہوئی ہیں اور ہاتھ پھیرنے کے ساتھ میں اسے اپنے پاس دیکھوں گی۔ اسے گئے آج چار دن ہوئے ہیں، اس کے آنے میں ابھی چھ دن باقی ہیں۔
کیا یہ ممکن ہے کہ تو پانچ روز یہاں ٹھہرے اور اس کے آنے سے ایک روز پہلے چلا جائے۔ میں نے کہا کہ ہاں‘ کاش کہ یہ خواب سچا نکلے۔ وہ مارے خوشی کے اٹھ کھڑی ہوئی اور میرا ہاتھ پکڑ کر ایک محراب دار دروازے سے ہوتی ہوئی ایک نہایت عمدہ اور نفیس حمام میں پہنچی۔ جب میں وہاں پہنچا تو میں نے اپنے کپڑے اتار ڈالے اور اس نے بھی اپنے کپڑے اتار ڈالے اور غسل کیا اور باہر آ کر ایک دیوان پر بیٹھ گئی اور مجھے اپنے پہلو میں بٹھا لیا اور مشک آمیز شکر کا شربت لائی اور مجھے پلایا۔
پھر اس نے کہا کہ ذرا سو جا، آرام کر لے کیونکہ تو تھکا ہوا ہے۔ ”اچھا میری آقا‘ اب میں سو گیا اور مجھے یاد نہیں کہ کیا ماجرا گزرا اور میں نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ جب میری آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا کہ وہ میرے پاﺅں داب رہی ہے۔ میں نے اسے دعا دی اور تھوڑی دیر ہم بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ اس نے کہا کہ خدا گواہ ہے کہ میں بڑی پریشان ہو رہی تھی کیونکہ پچیس سال میں یہاں زمین کے نیچے اکیلی ہوں اور کسی سے بات چیت کرنے کا موقع نہیں ملا۔
خدا کا شکر ہے کہ اس نے تجھے میرے لیے بھیجا۔ پھر اس نے پوچھا کہ اے جوان‘ تجھے شراب سے بھی شوق ہے؟ میں نے کہا کہ تیری مرضی۔ وہ نعمت خانے میں گئی اور ایک مہردار پرانی شراب کی بوتل لے آئی اور پھول پتیاں سجائیں اور یہ اشعار پڑھنے لگی:
”اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ تم آنے والے ہو تو ہم اپنے دل کا خون اور آنکھوں کی سیاہی راہ میں بچھا دیتے۔

”اور ہم اپنے چہروں کو فرش بنا دیتے تاکہ ہم تمہیں دیکھیں اور تم ہماری پلکوں پر چلو۔ “
جب وہ یہ اشعار پڑھ چکی تو میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور اس کی محبت میرے دل میں جاگزین ہو چکی تھی اور میرا رنج و غم دور ہو چکا تھا۔ رات تک ہم مے نوشی میں مشغول رہے اور رات اس کے ساتھ گزاری۔ اس جیسی حسین میں نے عمر بھر نہ دیکھی تھی۔ دوسرے روز دوپہر تک ایک مزہ جاتا اور ایک آتا تھا۔
۔میں نشے میں اتنا چور تھا کہ مجھے اپنی بھی خبر نہ رہی اور چلتا تو جھومتا جاتا۔ میں نے اس سے کہا کہ اے پری جمال، اٹھ میں تجھے زمین کے نیچے سے نکال کر اس دیو سے نجات دوں گا۔ وہ مسکرا کر کہنے لگی کہ قناعت کر اور چپ رہ۔ دس دن میں نو دن تیرے ہیں اور ایک دن دیو کا۔ میں نشے میں چور تھا۔ میں نے کہا کہ میں ابھی اس گولے کو توڑ ڈالتا ہوں جس پر نقش بنا ہوا ہے۔
دیو کو آنے دے‘ میں اسے قتل کر ڈالوں گا۔ میں دیووں کے قتل کرنے کا عادی ہوں۔ جب اس نے میری باتیں سنیں تو اس کا چہرہ زرد پڑ گیا اور کہنے لگی خدا کے لیے ایسا نہ کر اور یہ شعر پڑھنے لگی:
”جس چیز سے تیری ہلاکت ہو اس سے اپنے آپ کو بچائے رکھ۔
جب وہ یہ شعر پڑھ چکی تو میں نے اس کی طرف کوئی توجہ نہ کی اور گولے پر زور سے ٹھوکر ماری۔
اب شہر زاد کو صبح ہوتی نظر آئی اور اس نے وہ کہانی بند کردی جس کی اسے اجازت ملی تھی۔

Browse More Urdu Literature Articles