Chhatti Raat - Article No. 1522

Chhatti Raat

چھٹی رات - تحریر نمبر 1522

دیو نے کہا کہ مجھے چھوڑ دے کیونکہ یہ نیکی کرنے کا وقت ہے اور میں تجھ سے یہ وعدہ کرتا ہوں کہ میں کبھی تیری نافرمانی نہیں کروں گا اور تجھے ایسی چیز دوں گا کہ تو امیر ہوجائے

منگل 3 اکتوبر 2017

جب چھٹی رات ہوئی تو اس کی بہن دنیا زاد نے کہا کہ اپنی کہانی تمام کر۔ اس نے کہا کہ بشرطیکہ بادشاہ سلامت اجازت دیں۔ بادشاہ نے کہا کہہ۔ اس نے کہنا شروع کیا کہ اے نیک بخت بادشاہ۔۔۔۔۔مجھے معلوم ہوا ہے کہ ماہی گیر نے دیو سے کہا کہ اگر تو مجھے چھوڑ دیتا تو اس وقت تو بھی قید نہ ہوتا لیکن تو میرے قتل پر تلا کھڑا تھا۔ اس لیے اب میں تجھے اس لٹیا میں بند کرکے مارتا ہوں اور تجھے سمندر میں پھینکے دیتا ہوں۔

وہ خبیث چلانے لگا اور اس نے کہا کہ اے ماہی گیر‘ خدا کے لیے ایسا مت کر اور مجھے چھوڑ دے اور میری برائی کا بدلہ مت دے۔ اگرچہ میں نے تیرے ساتھ برائی کی ہے‘ تو میرے ساتھ بھلائی کر۔ لوگوں کا مقولہ ہے کہ ”اے بروں کے ساتھ بھلائی کرنے والے‘ برا کرنے والے کے لیے خود اس کی برائی کافی سزا ہے۔

(جاری ہے)

“ تو میرے ساتھ ایسا نہ کر جو امامہ نے عاتکہ کے ساتھ کیا۔

ماہی گیر نے کہا کہ امامہ نے عاتکہ کے ساتھ کیا کیا تھا؟ دیو نے کہا کہ یہ وقت قصہ بیان کرنے کا نہیں ہے کیونکہ میں قید ہوں۔ اگر تو مجھے چھوڑ دے تو میں ضرور بیان کروں گا۔ ماہی گیر نے کہا کہ چل‘ باتیں نہ بنا۔ میں تجھے سمندر میں بے پھینکے نہ مانوں گا اور تو کبھی اس سے نکل نہ سکے گا۔ تجھے یاد نہیں کہ میں تیری خوشامد کرتا اور تیرے آگے گڑگڑاتا تھا اور تو ہاتھ دھو کر میرے پیچھے پڑا ہوا تھا۔
میں نے نہ کبھی تیرا کچھ بگاڑا تھا اور نہ تیرے ساتھ برائی کی تھی۔ اگرکچھ کیا تو بھلائی ہی بھلائی‘ کیونکہ میں نے تجھے قید سے رہائی دی تھی لیکن جب تو نے برائی پر کمر باندھی تو میں سمجھ گیا کہ تو بدکردار ہے۔ تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ جب میں تجھے اس سمندر میں پھینک دوں گا تو پھر جو کوئی بھی تجھے نکالے گا‘ وہ تجھے دوبارہ پھینک دے گا کیونکہ میں اپنے ماجرے سے اسے مطلع اور خبردار کر دوں گا اور قیامت تک میں یہیں ٹھیرا رہوں گا۔
یہاں تک کہ تو تباہ ہو جائے۔ دیو نے کہا کہ مجھے چھوڑ دے کیونکہ یہ نیکی کرنے کا وقت ہے اور میں تجھ سے یہ وعدہ کرتا ہوں کہ میں کبھی تیری نافرمانی نہیں کروں گا اور تجھے ایسی چیز دوں گا کہ تو امیر ہوجائے۔
کہا جاتا ہے کہ ماہی گیر نے اس سے وعدہ لیا کہ اگر میں تجھے چھوڑوں تو‘ تو ہرگز مجھے تکلیف نہ دے گا بلکہ میرے ساتھ بھلائی کرے گا۔ جب ماہی گیر کو یقین آگیا اور اس نے اس سے اسم اعظم کی قسم کھلائی تو اس نے لٹیا کھولی اور اس میں سے دھوں نکلنا شروع یوا۔
جب سب دھواں نکل چکا تو وہ اچھا خاصا دیو بن گیا۔ اس نے لٹیا کو ٹھوکر ماری اور وہ سمندر میں جا گری۔ جب ماہی گیر نے دیکھا کہ اس نے لٹیا کو سمندر میں پھینک دیا ہے تو اسے اپنی موت کا یقین آگیا اور وہ اپنے کپڑے دانت سے کاٹنے لگا اور کہا کہ خدا خیر کرے‘ یہ برا شگون ہے۔ پھر اس نے اپنے دل کو مضبوط کرکے کہا کہ اے دیو‘ خدا کہتا ہے کہ اپنا وعدہ پورا کیا کرو‘ کیونکہ قیامت کے دن اس کی پرسش ہوگی۔
تو نے مجھ سے وعدہ کیا اور حلف اٹھایا ہے کہ مجھ سے دغا بازی نہ کرے گا‘ ورنہ خدا تجھ سے سمجھے گا۔ وہ بڑا غیور ہے‘ ڈھیل دیتا ہے مگر جانے نہیں دیتا۔ میں نے تجھ سے وہی کہا ہے جو دوبان حکیم نے یونان بادشاہ سے کہا تھا کہ مجھے مت مار‘ خدا تجھے سلامت رکھے۔
تالاب اور رنگ برنگی مچھلیوں کی کہانی:
دیو ہنسا اور اس کے آگے آگے روانہ ہوا اور ماہی گیر سے کہا کہ میرے پیچھے پیچھے آ۔
ماہی گیر اس کے پیچھے پیچھے ہو لیا اور اسے یقین نہ آتا تھا کہ اس کی جان نہ جائے گی۔ چلتے چلتے وہ ایک شہر کے پاس پہنچے اور ایک پہاڑ پر چڑھے اور وہاں سے ایک لمبے چوڑے جنگل میں اترے۔ وہاں ایک صاف شفاف تالاب تھا۔ دیو اس میں اترا اور ماہی گیر سے کہا کہ میرے پیچھے پیچھے آ۔ ماہی گیر بیچ تالاب اس کے پیچھے پیچھے گیا۔ وہاں پہنچ کر دیو ٹھہر گیا اور ماہی گیر سے کہا کہ جال پھینک اور مچھلیاں پکڑ۔
ماہی گیر نے دیکھا کہ تالاب میں رنگ برنگی مچھلیاں ہیں۔ سفید اور لال اور نیلی پیلی۔ اسے سخت اچنبھا ہوا اور اس نے جال کھول کر پھینکا اور پھر کھینچا تو دیکھا کہ اس میں چار رنگ کی مچھلیاں آئی ہیں۔ یہ دیکھ کر ماہی گیر باغ باغ ہوگیا۔ دیو نے کہا کہ انہیں بادشاہ کے پاس لے جاﺅ اور اسے پیش کرو۔ وہ اس کے بدلے تجھے امیر کردے گا۔ اب خدا کے لیے مجھے معاف کر۔
اس وقت اور کوئی سبیل مجھے نظر نہیں آتی کیونکہ میں اٹھارہ سو سال سمندر کے اندر رہا اور سوائے اس وقت کے دنیا کی شکل نہیں دیکھی۔ اس تالاب میں کسی دن ایک بار سے زیادہ مچھلیاں نہ پکڑیو۔ یہ کہہ کر وہ چلتا ہوا اور چلتے چلتے کہنے لگا کہ خدا ہم دونوں کو پھر ملائے۔ پھر اس نے زمین پر ٹھوکر ماری۔ زمین پھٹی اور وہ سما گیا۔
ماہی گیر شہر کی طرف روانہ ہوا اور وہ دیو کے واقعے سے سخت اچنبھے میں تھا۔
مچھلیاں لے کر جب وہ گھر پہنچا تو اس نے ایک کونڈے میں پانی بھر کر مچھلیاں اس میں ڈال دیں۔ پانی کے اندر کونڈے میں مچھلیاں کلیلیں کرنے لگیں۔ ماہی گیر اس کونڈے کو سر پر رکھ کر محل کی طرف روانہ ہوا جیسا کہ دیو نے اس سے کہا تھا۔ جب ماہی گیر بادشاہ کے پاس پہنچا اور اسے مچھلیاں پیش کیں تو بادشاہ کو سخت اچنبھا ہوا کیونکہ جس قسم کی مچھلیاں ماہی گیر لایا تھا‘ اس نے تمام عمر نہ دیکھی تھیں۔
بادشاہ نے حکم دیا کہ مچھلیاں باورچن لونڈی کو دے دی جائیں۔ کہتے ہیں کہ تین دن ہوئے یہ لونڈی روم کے بادشاہ نے تحفے میں بھیجی تھی اور بادشاہ نے ابھی تک اس کے کھانا پکانے کا تجربہ نہیں کیا تھا۔ وزیر نے حکم دیا کہ وہ ان کو تلے اور کہا کہ اے لونڈی، بادشاہ سلامت کہتے ہیں کہ اے میری جان، ہم نے مجبوری کی حالت میں تم کو تکلیف دی ہے۔ تجھے چاہیے کہ ہمیں اپنی کاریگری اور کھانا پکانے کے فن سے خوش کردے۔

کیونکہ یہ مچھلیاں بادشاہ کے لیے تحفے میں آئی ہیں۔ وزیر یہ کہہ کر واپس گیا اور بادشاہ نے اسے حکم دیا کہ ماہی گیر کو چار سو دینار دے دے۔ وزیر نے چار سو دینار دے دئیے۔ ماہی گیر نے انہیں اپنی بغل میں دبایا اور گھر بھاگا۔ کبھی گر پڑتا‘ پھر اٹھ کھڑا ہوتا اور کبھی ڈگمگاتا چلتا اور یہ خیال کرتا کہ خواب دیکھ رہا ہے۔ اس نے اہل و عیال کے لیے ضرورت کی چیزیں خریدیں اور اپنی بیوی کے پاس گیا اور مارے خوشی کے پھولا نہ سماتا تھا۔

یہاں تک تو ماہی گیر کا قصہ ہوا۔ اب لونڈی کا واقعہ سنئے۔ اس نے مچھلیاں لے کر ان کو صاف کیا اور کڑاہی چڑھائی اور مچھلیوں کو گلایا۔ جب وہ ایک طرف پک چکیں اور اس نے انہیں دوسری طرف پلٹا تو کیا دیکھتی ہے کہ باورچی خانے کی دیوار پھٹی اور اس میں ایک نوجوان لڑکی نمودار ہوئی‘ سڈول قد‘ چکنے چکنے رخسار‘ سرمگیں آنکھیں‘ مجسم حسن‘ کوفی ریشم کا لباس پہنے ہوئے جس میں نیلی گوٹ لگی ہوئی تھی‘ دونوں کانوں میں بالیاں اور کلائیوں میں پری بند‘ انگلیوں میں انگوٹھیاں‘ جن میں قیمتی ہیروں کے قیمتی نگ جڑے ہوئے تھے‘ ہاتھ میں خیزراں کی چھڑی‘ جسے اس نے کڑاہی میں مارا اور کہا کہ”اے مچھلیو‘ تم اپنے وعدے پر قائم ہو ناں؟“ جب لونڈی نے یہ دیکھا تو وہ بے ہوش ہوکر گر پڑی۔
اس لڑکی نے دوبارہ اور سہ بارہ وہی کہا۔ مچھلیوں نے کڑاہی سے سر نکالا اور نہایت صاف الفاظ میں کہا کہ ”ہاں ہاں۔“ پھر انہوں نے یہ شعر پڑھا:
”اگر تو پھر جائے گی تو ہم بھی پھر جائیں گے اور اگر تو وعدہ پورا کرے گی تو ہم بھی کریں گے اور اگر تو ہمیں چھوڑ دے گی تو پھر ہم بھی اپنے ذمے سے بری ہیں۔“
یہ کہہ کر اس نوجوان لڑکی نے کڑاہی الٹ دی اور جدھر سے آئی تھی‘ ادھر چلی گئی اور دیوار بند ہوگئی جیسے کہ پہلے تھی۔
اب لونڈی کو ہوش آیا تو کیا دیکھتی ہے کہ چاروں مچھلیاں جل کر کوئلہ ہوگئی ہیں۔ اس نے کہا کہ ہائے سر منڈاتے ہی اولے پڑے اور پھر بے ہوش ہوکر گر پڑی۔ وہ اسی حالت میں تھی کہ وزیر آیا اور دیکھا کہ لونڈی حواس باختہ پڑی ہے اور اسے جمعرات اور سنیچر میں کوئی فرق معلوم نہیں ہوتا۔ وزیر نے اسے پاﺅں سے ہلایا تو اس کو ہوش آیا اور وہ رونے لگی اور وزیر سے سارا ماجرا بیان کیا۔
وزیر کو سخت اچنبھا ہوا اور کہنے لگا یہ عجیب و غریب ماجرا ہے۔ اس نے ماہی گیر کو بلا بھیجا۔ جب وہ آیا تو وزیر نے اس سے درخواست کی کہ ویسی ہی چار مچھلیاں اور لا۔ ماہی گیر اس تالاب میں گیا اور جال پھینکا۔ جب اسے کھینچا تو اسی طرح کی چار مچھلیاں اس میں تھیں۔ وہ انہیں لے کر وزیر کے پاس پہنچا اور وزیر ان کو لے کر لونڈی کے پاس گیا اور کہا کہ اٹھ‘ انہیں میرے سامنے تل تاکہ میں بھی دیکھوں کہ کیا پیش آیا ہے۔

لونڈی اٹھی اور مچھلیوں کو بنایا اور چولہے پر کڑاہی رکھی اور اس میں مچھلیاں ڈال دیں۔
ابھی مچھلیاں کڑاہی میں پڑی ہی تھیں کہ دیوار پھٹی اور وہی لڑکی پہلی کی طرح آپہنچی۔ اس کے ہاتھ میں چھڑی تھی۔ اسے اس نے کڑاہی پر مارا اور کہا کہ اے مچھلیو‘ اے مچھلیو‘ تم اپنے پرانے وعدے پر قائم ہو نہ؟ تمام مچھلیوں نے سر اٹھایا اور وہی شعر پڑھا۔ اب شہر زاد کی صبح ہوتی دکھائی دی اور اس نے وہ کہانی بند کردی جس کی اسے اجازت ملی تھی۔

Browse More Urdu Literature Articles