GiyarveeN Raat - Article No. 1561

GiyarveeN Raat

گیارہویں رات - تحریر نمبر 1561

جب وہ میری نظروں سے غائب ہو گیا تو میں اٹھا اور اس پتھر کو پھر وہیں لگا دیا اور جو کچھ اس نے کہا تھا کر دیا اور قبر کی شکل پہلی سی ہوگئی

جمعہ 27 اکتوبر 2017

گیارہویں رات
جب گیارہویں رات ہوئی تو اس نے کہا کہ اے نیک بخت بادشاہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ جب لڑکی غصے کے مارے ہنسنے لگی تو لوگوں کی طرف مخاطب ہو کر اس نے کہا کہ اپنا اپنا حال بیان کر دو کیونکہ اب تمہاری زندگی ایک گھڑی سے زیادہ نہیں۔ اگر تم لوگ بڑے اور قوم کے بزرگ اور حکام نہ ہوتے تو تم بحث مباحثہ نہ کرتے۔ خلیفہ نے کہا اے جعفر‘ تجھ پر خدا کی مار، اس سے ہمارا قصہ بیان کر دے ورنہ غلط فہمی میں آ کر ہماری بھی جان جائے گی اور اس کے ساتھ سلیقے سے باتیں کرنا کہ ہم پر کوئی بلا نازل نہ ہو۔

جعفر نے کہا کہ جیسی کرنی ویسی بھرنی۔ اس پر خلیفہ نے چلا کر کہا کہ مذاق کا دوسرا وقت ہے‘ یہ وقت سنجیدہ باتوں کا ہے۔ لڑکی نے قلندروں کی طرف مخاطب ہوکر کہا کہ کیا تم بھائی بھائی ہو؟ انہوں نے خدا کی قسم کھا کر کہا کہ ہم بھائی بھائی نہیں‘ مگر ہم سب فقیر اور عجمی ہیں۔

(جاری ہے)

لڑکی نے ان میں سے ایک سے پوچھا کہ کیا تو مادر زاد کانا ہے؟ اس نے کہا کہ نہیں۔

میرے ساتھ ایک عجیب و غریب واقعہ پیش آیا جس کی وجہ سے میری ایک آنکھ جاتی رہی۔ میرا قصہ ایسا ہے کہ اگر سوئی کی نوکوں سے آنکھوں کے کرنوں پر لکھا جائے تو عبرت حاصل کرنے والوں کے لیے عبرت کا باعث ہوگا۔ کہتے ہیں کہ اس نے دوسرے اور تیسرے قلندر سے یہی سوال کیا اور انہوں نے بھی وہی جواب دیا جو پہلے نے دیا تھا اور کہنے لگا کہ ہم تینوں مختلف شہروں کے باشندے اور شاہزادے اور ملک و رعیت کے حاکم ہیں۔
لڑکی ان کی طرف متوجہ ہوکر کہنے لگی کہ تم سب اپنی اپنی واردات مجھ سے بیان کرو اور ہمارے پاس آنے کا سبب بتاﺅ‘ پھر آداب بجا لاﺅ اور اپنی اپنی راہ لو۔
سب سے پہلے حمال اگے آیا اور کہنے لگا کہ اے بی بی میں حمال ہوں۔ اس سامان لانے والی نے میرے اوپر سامان لادا اور شراب نوشی کے مکان سے قصاب کی دکان پر گئی اور قصاب کی دکان سے میوہ فروش کی دکان پر اور پھر وہاں سے بنئے کی دکان پر اور بنئے سے حلوائی اور عطر فروش کے پاس اور وہاں سے یہاں آئی۔
اس کے آگے میرا قصہ وہی ہے جو تم لوگوں کا ہے۔ یہ ہے میری کہانی اور بس۔ لڑکی ہنسی اور کہنے لگی کہ آداب بجا لا اور چلتا ہو۔ اس نے کہا کہ جب تک میں اپنے دوستوں کا قصہ نہ سن لوں یہاں سے ہرگز نہ ٹلوں گا۔
پہلے قلندر کی کہانی:
پہلا قلندر آگے بڑھا اور کہنے لگا کہ اے مالکہ میری داڑھی منڈنے اور آنکھ کانی ہونے کا سبب یہ ہے کہ میرا باپ بادشاہ تھا اور اس کا ایک بھائی تھا جو کسی اور شہر کا بادشاہ تھا، اب ایسا اتفاق ہوا کہ میں اور چچیرا بھائی ایک ہی دن پیدا ہوئے۔
دن اور سال گزرنے کے بعد ہم دونوں جوان ہوئے۔ میں اپنے چچا کی ملاقات کے لیے اکثر جاتا اور اس کے ساتھ مہینوں ٹھہرتا اور میرا چچیرا بھائی مجھے بڑی عزت سے رکھتا اور بھیڑیں ذبح کرتا اور شراب نتھارتا اور ہم ساتھ بیٹھ کر شراب پیتے۔ ایک روز جب شراب چڑھی ہوئی تھی تو میرے چچیرے بھائی نے کہا کہ اے بھائی‘ مجھے تجھ سے ایک اشد ضرورت آ پڑی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ تو اس میں میری مخالفت نہ کرے اور جو کچھ میں کہوں‘ کر دے۔
میں نے کہا کہ بسروچشم۔ اس نے مجھ سے بڑی بڑی قسمیں کھلوائیں اور فوراً اٹھ کھڑا ہوا اور تھوڑی دیر کے لیے غائب ہوگیا۔ جب وہ واپس آیا تو اس کے پیچھے پیچھے ایک عورت تھی جس کا لباس نہایت نفیس اور زیور بے حد قیمتی تھے۔ ابھی وہ عورت اس کے پیچھے ہی تھی کہ وہ میری طرف مخاطب ہوکر کہنے لگا کہ اس عورت کے ساتھ فلاں مقبرے میں جا۔ اس مقبرے کو اس نے تفصیل سے بیان کیا اور میں سمجھ گیا۔
اس نے مجھ سے کہا کہ وہاں پہنچ کر فلاں تربت کے اندر داخل ہو جیو اور وہاں میرا انتظار کیجیو۔ میں قسم کھا چکا تھا‘ اس لیے نہ اس کی مخالفت کر سکتا تھا نہ اس کے سوال کو رد کرسکتا تھا۔ میں اس عورت کو لے کر چل دیا اور وہاں پہنچ کر ہم دونوں اس تربت میں داخل ہوئے۔ ہم اس میں جا کر بیٹھے ہی تھے کہ میرا چچیرا بھائی پہنچ گیا۔ اس کے پاس ایک پانی بھر تشت اور ایک تھیلے میں چونا اور ایک کدال تھی۔
وہ کدال لے کر ایک قبر کے پاس گیا جو تربت کے بیچ میں تھی اوراس کو توڑا اور اس کے پتھر اٹھا کر تربت کنارے رکھ دیے۔ پھر وہ قبر کے نیچے کدال سے کھودنے لگا یہاں تک کہ لوہے کے پتر میں سے ایک چھوٹے دروازے کے برابر سوراخ ہوگیا۔ اس نے اسے اٹھایا تو اس کے نیچے ایک سیڑھی بندھی ہوئی دکھائی دی، اب اس نے اس عورت سے کہا کہ اترو اور جو چاہے کر۔ عورت اس سیڑھی سے اتری۔
اب اس نے میری طرف مخاطب ہو کر کہا کہ اے بھائی‘ تیری سب سے بڑی بھلائی میرے ساتھ یہ ہوگی کہ جب میں نیچے اتر جاﺅں تو پتر کو بند کر دیجیو اور اس کے اوپر پہلے کی طرح مٹی ڈال دیجیو۔ بس یہی تیری بہترین مہربانی ہوگی۔ اور یہ جو پانی تشت میں ہے اس سے چونے کو گوندھ کر جو بوری میں ہے، قبر کو پہلے کی طرح پوت دیجیو تاکہ کوئی دیکھ کر یہ نہ کہہ سکے کہ قبر تو پرانی ہے مگر یہ شگاف نیا ہے۔
میں نے سال بھر اس پر محنت کی ہے اور سوائے خدا کے کوئی اس سے واقف نہیں۔ بس میری تجھ سے یہی درخواست ہے۔ چلتے چلتے اس نے مجھ سے کہا کہ اے بھائی خدا تجھے ہمیشہ آباد رکھے اور سیڑھی سے نیچے اتر گیا۔
جب وہ میری نظروں سے غائب ہو گیا تو میں اٹھا اور اس پتر کو پھر وہیں لگا دیا اور جو کچھ اس نے کہا تھا کر دیا اور قبر کی شکل پہلی سی ہوگئی۔ میں نشے میں چور تھا اور جب چچا کے محل میں پہنچا تو معلوم ہوا کہ وہ شکار کھیلنے گیا اور میں اس رات خوب سویا۔
جب صبح ہوئی تو میں گزشتہ رات کی باتوں کو سوچنے لگا اور یہ کہ میرے چچیرے بھائی پر کیا گزری۔ میں سخت پیشمان تھا۔ لیکن ایسی بات پر پیشمانی سے کیا فائدہ جو میں نے اس کی مرضی سے کی تھی۔ مجھے گمان ہوا کہ شاید میں نے خواب دیکھا ہے اور لوگوں سے اپنے چچیرے بھائی کے متعلق پوچھنا شروع کیا‘ لیکن کوئی مجھے ٹھیک بتا نہ سکا، میں نے مقبرے میں جا کر وہ تربت تلاش کی مگر اس کی شناخت نہ کر سکا۔
میں ایک تربت سے دوسری تربت اور ایک قبر سے دوسری قبر پر جاتا تھا کہ رات ہو گئی اور مجھے وہ نہ ملی۔ میں محل میں واپس آیا مگر نہ کھایا نہ پیا۔ میرا دھیان اپنے چچیرے بھائی کی طرف لگا ہوا تھا اور اس کا پتہ نہ چلتا تھا۔ میں بہت غمگین تھا اور اسی غم میں رات گزر کر صبح کی۔ اب میں دوبارہ قبرستان گیا اور سوچ رہا تھا کہ میرے بھائی نے کیا کیا اور میں پشیمان تھا کہ میں نے اس کا کہا کیوں مانا، میں نے تمام قبروں کا چکر لگایا‘ لیکن وہ تربت نہ ملی اور نہ وہ قبر۔
اس پر میں بہت پشیمان ہوا اور سات دن تک میری یہی حالت رہی اور کوئی علاج میری سمجھ میں نہ آیا۔ اب میرے دل میں اور زیادہ وسوسے آنے لگے اور قریب تھا کہ میں پاگل ہو جاﺅں۔ غم غلط کرنے کا صرف یہی ایک طریقہ مجھے نظر آیا کہ میں باپ کے پاس جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔
جب میں اپنے باپ کے شہر کے پاس پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک جتھے کا جتھا شہر کے دروازے سے نکالا اور میری مشکیں باندھ لیں۔
اس پر مجھے بڑا تعجب ہوا کیونکہ میں اسی شہر کے بادشاہ کا بیٹا تھا اور وہ سب لوگ میرے باپ کے نوکر چاکر اور میرے غلام تھے۔ اب میں اور بھی ڈرا اور اپنے دل میں کہنے لگا کہ خدانخواستہ میرے باپ پر کوئی مصیبت تو نہیں آئی۔ جو لوگ مجھے پکڑے ہوئے تھے ان سے میں نے سبب دریافت کیا مگر انہوں نے کوئی جواب نہ دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد ان میں سے ایک شخص نے، جو ہمارے ہاں کا نوکر تھا‘ مجھ سے کہا کہ زمانے نے آپ کے والد کے ساتھ بے وفائی کی اور لشکر سے ناراض ہو گیا اور وزیر نے اسے قتل کر دیا اور خود بادشاہ بن بیٹھا۔
اس کے حکم سے ہم آپ کی گھات میں لگے ہوئے تھے۔ اب وہ پکڑ کر مجھے لے چلے‘ جو باتیں میں نے اپنے والد کے متعلق ابھی سنی تھیں‘ ان کی وجہ سے مجھے دنیا و مافیہا کی خبر نہ رہی اور اس دشمنی کا سبب یہ تھا کہ مجھے غلیل چلانے کا بڑا شوق تھا۔ ایک روز میں اپنے محل کی چھٹ پر کھڑا ہوا تھا کہ ایک چڑیا آکر وزیر کے محل کی چھت پر بیٹھ گئی اور وزیر وہاں کھڑا ہوا تھا۔
میں نے چڑیا کے مارنے کا ارادہ کیا لیکن نشانہ خطا گیا اور غلہ وزیر کی آنکھ میں جا کر لگا اور وہ پھوٹ گئی لیکن وہ مجھ سے کچھ نہ کہہ سکا کیونکہ میرا باپ اس شہر کا بادشاہ تھا۔ یہ تھی وجہ میری اور اس کے درمیان عداوت کی۔ اب جب کہ میں اس کے سامنے کھڑا تھا اور میری مشکیں بندھی ہوئی تھیں تو اس نے حکم دیا کہ میری گردن اڑا دی جائے۔ میں نے پوچھا کہ آخر تو کس جرم میں مجھے قتل کرتا ہے؟ اس نے اپنی کانی آنکھ کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ کیا اس سے بڑھ کر اور بھی کوئی جرم ہوسکتا ہے۔
میں نے کہا کہ یہ بات قصداً نہیں ہوئی۔ اس نے کہا کہ آخر فرق کیا ہے؟ تو نے غلطی سے کیا اور میں قصداً کرتا ہوں۔ پھر اس نے کہا کہ اسے میرے قریب لاﺅ اور وہ مجھے اس کے قریب لے گئے۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر میری بائیں آنکھ میں انگلی بھونک دی اور اسے پھوڑ دیا۔ اسی وقت سے میں کانا ہوں جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو۔ پھر اس نے میری مشکیں باندھ کر مجھے ایک صندوق میں ڈال دیا اور جلاد سے کہا کہ میں اسے تیرے سپرد کرتا ہوں‘ تو اسے شہر کے باہر لے جا اور تلوار کھینچ کر اسے قتل کر ڈال تاکہ وحشی جانور اور پرندے اسے کھا ڈالیں۔
جلاد مجھے لے کر چل دیا اور چلتے چلتے شہر کے باہر ایک جنگل کے بیچ میں پہنچا اور مجھے صندوق سے نکالا۔ میرے ہاتھ باندھے ہوئے تھے اور پاﺅں میں زنجیر پڑی ہوئی تھی۔ جلاد نے چاہا کہ میری آنکھیں باندھ کر مجھے قتل کر دے۔ میں زار زار رونے لگا اوروہ بھی رو پڑا۔ یہ جلاد میرے باپ کا بھی جلاد تھا اور میں نے اس کے ساتھ احسانات کیے تھے۔ اس نے کہا کہ اے میرے آقا‘ اب میں کیا کروں۔
میں تو نوکر ہوں۔ پھر اس نے یہ کہا کہ اپنی جان لے کر بھاگ جائیے اور کبھی اس شہر کی طرف رخ نہ کیجئے ورنہ ہم دونوں کی جان جائے گی، میں نے اس کے ہاتھ چومے اور مجھے یقین نہیں آتا تھا کہ میں زندہ بچ گیا۔ جان جانے کے مقابلے میں آنکھ کا پھوٹنا مجھے غنیمت معلوم ہوا۔
وہاں سے روانہ ہوکر میں اپنے چچا کے شہر میں گیا اور اس کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے والد اور اپنی آنکھ پھوٹنے کا ماجرا بیان کیا اور وہ بہت رویا اور کہنے لگا کہ تیری وجہ سے میرا رنج و غم دوبالا ہوگیا۔
تیرا چچیرا بھائی کئی روز سے غائب ہے اور مجھے کچھ خبر نہیں کہ اس پر کیا گزری۔ کوئی بھی اس کی خبر لاکر نہیں دیتا۔ یہ کہہ کر وہ اتنا رویا کہ بے ہوش ہو گیا۔ مجھے اس پر بڑا ترس آیا۔ اس نے میری آنکھ کاعلاج کرنا چاہا لیکن دیکھا کہ آنکھ محض خول ہو کر رہ گئی ہے اور کہنے لگا کہ بیٹا آنکھ گئی تو گئی‘ جان تو بچ گئی۔ مجھ سے یہ نہ ہو سکتا تھا کہ اپنے چچیرے بھائی کی بابت جو اس کا بیٹا تھا‘ خاموشی اختیار کروں۔
اس لیے اس سے سارا ماجرا بیان کر دیا۔ میرے بیان کو سن کر چچا بہت خوش ہوا کہ کچھ تو اس کے بیٹے کا پتہ چلا اور مجھ سے کہنے لگا کہ اٹھ‘ مجھے اس تربت کے پاس لے چل۔ میں نے کہا کہ چچا جان‘ میں اس واقعے کے بعد کئی بار وہاں جا چکا ہوں‘ لیکن اس کی جگہ نہ ملی اور میں نے بہت چھان بین کی مگر ناکام رہا۔ بالاخر میں اور چچا قبرستان گئے اور ادھر ادھر ڈھونڈنا شروع کیا اور اب میں نے اسے پہچان لیا اور ہم دونوں بہت خوش ہوگئے۔
تربت میں داخل ہو کر مٹی اٹھائی‘ پتھر ہٹایا اور سیڑھی پر تقریباً پچاس پٹڑیاں اتر گئے۔ جب سیڑھی کے نیچے پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ہماری طرف ایک دھواں سا اٹھا جس سے ہماری آنکھیں چندھیا گئیں۔ چچا نے کہا کہ لاحول ولا قوہ الا باللہ العلی العظیم! ایسے الفاظ کہنے والے کو سرمانے کی ضرورت نہیں۔ اب ہم اور آگے بڑھے اور ایک کمرے میں پہنچے جس میں آٹا‘ غلہ اور دوسری کھانے کی چیزیں وغیرہ بھری ہوئی تھیں۔
کمرے کے بیچ میں ایک شامیانہ تھا اور اس کے اندر ایک تخت پڑا ہوا تھا۔ چچا نے دیکھا کہ اس تخت پر اس کا بیٹا اور وہ عورت جو اس کے ساتھ آئی تھی‘ باہم لپٹے ہوئے پڑے ہیں اور کوئلے کی طرح سیاہ ہو گئے ہیں گویا کہ وہ تنور میں ڈال دیے گئے ہیں۔ چچا نے اسے دیکھ کر اس کے منہ پر تھوک دیا اور کہا کہ ٹھہر اے سور‘ یہ دنیا کی سزا ہے اور ابھی آخرت کا عذاب باقی ہے جو اس سے زیادہ سخت ہے۔
اب شہرزاد کو صبح ہوتی دکھائی دی اور اس نے وہ کہانی بند کردی جس کی اسے اجازت ملی تھی۔

Browse More Urdu Literature Articles