PanchweeN Raat - Article No. 1514

PanchweeN Raat

پانچویں رات - تحریر نمبر 1514

بادشاہ نے کہا کہ جس کسی کے سر کے اوپر سے ہرنی کود کر نکل جائے گی‘ اس کو قتل کر دوں گا۔ اور آخرکار ہرنی بادشاہ ہی کے سر کے اوپر سے کود کر جنگل کی طرف بھاگ گئی

بدھ 27 ستمبر 2017

پانچویں رات ہوئی تو اس کی بہن نے کہا کہ اگر تجھے نیند نہ آتی ہو تو اپنی کہانی کہہ ڈال۔ اس نے کہا کہ اے نیک بخت بادشاہ مجھے یہ خبر ملی ہے کہ یونان بادشاہ نے اپنے وزیر سے کہا کہ اے وزیر"اس حکیم کی وجہ سے تیرے اندر حسد کی آگ بھڑک رہی ہے اور تو چاہتا ہے کہ میں اسے قتل کر دوں اور پھر پچھتاﺅں‘جس طرح کہ سندباد بادشاہ اپنے باز کو مار کر پچھتایا۔

وزیر نے کہا کہ بادشاہ سلامت‘ اگر آپ اجازت دیں تو میں پوچھوں کہ یہ کیا قصہ ہے۔
سندباد بادشاہ کی کہانی:
بادشاہ نے کہا کہ خدا بہتر جانتا ہے لیکن لوگ کہتے ہیں کہ فارس کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ تھا۔ اسے عیش و عشرت اور صید و شکار سے بڑا شوق تھا۔ اس نے ایک باز پال رکھا تھا اور دن رات اسے اپنے ساتھ رکھتا تھا۔

(جاری ہے)

رات بھر اسے اپنے ہاتھ پر بٹھائے رکھتا اور جب شکار کے لیے جاتا تھا تب بھی اس کو اپنے ساتھ لے جاتا تھا۔
اس کے لیے اس نے ایک سونے کا کٹورا بنوایا تھا جو اس کی گردن میں لٹکا رہتا تھا اور جس میں وہ پانی پیا کرتا تھا۔ ایک روز وہ بیٹھا ہوا تھا کہ رخہ کے صوبیدار نے عرض کی کہ آج کل شکار کا اچھا موسم ہے۔ بادشاہ نے کوچ کا حکم دیا اور باز کو اپنے ہاتھ پر بٹھا کر سب کے ساتھ روانہ ہوگیا۔
ایک وادی میں پہنچ کر شکار کے لیے گھیرا ڈالا گیا تو کیا دیکھتے ہیں کہ گھیرے کے اندر ایک ہرنی آ گئی ہے۔
بادشاہ نے کہا کہ جس کسی کے سر کے اوپر سے ہرنی کود کر نکل جائے گی‘ اس کو قتل کر دوں گا۔ اب گھیرا تنگ ہوتا چلا جاتا تھا کہ اتنے میں ہرنی بادشاہ کی قیام گاہ کے پاس آئی اور پچھلے پاﺅں پر کھڑی ہو کر اگلے پاﺅں سینے پر باندھ لیے گویا وہ بادشاہ کے آگے زمین کو بوسہ دینا چاہتی تھی۔
بادشاہ نے ہرنی کی خاطر اپنا سر جھکایا تو وہ اس کے سر کے اوپر سے کود کر جنگل کی طرف بھاگ گئی۔ بادشاہ نے دیکھا کہ اس کے سپاہی اس کی طرف آنکھیں مار رہے ہیں اور وزیر سے اس کا سبب پوچھا۔
اس نے عرض کی کہ وہ کہتے ہیں کہ آپ کا حکم تھا کہ جس کے سر کے اوپر سے ہرنی کود کر نکل جائے گی‘ اس کا سر اڑا دیا جائے گا۔ بادشاہ نے کہا کہ سر کی قسم میں اس کا پیچھا کروں گا اور اس کو لا کر چھوڑوں گا‘ یہ کہہ کر اس نے ہرنی کے پیچھے گھوڑا ڈال دیا اور اس کا پیچھا کرتے کرتے ایک پہاڑی تک جا پہنچا۔
جہاں ہرنی کھڈ کے اوپر سے کود نکل گئی۔ بادشاہ نے باز کو اس کے پیچھے چھوڑا اور اس نے پنجے مار مار کر ہرنی کو اندھا اور پریشان کر دیا۔ بادشاہ نے گرز کھینچ کر اس پر وار کیا اور وہ زمین پر لوٹنے لگی۔ بادشاہ گھوڑے سے اتر پڑا اور اسے ذبح کیا اور اس کی کھال کھینچی اور اپنے گھوڑے کی کاٹھی سے لٹکا لیا۔ اتنے میں تیسرے پہر کے سونے کا وقت ہو گیا۔
جنگل بیابان تھا‘ جس میں پانی کا نام و نشان نہ تھا۔ بادشاہ کو پیاس لگی اور گھوڑا بھی پیاسا تھا۔ بادشاہ نے ادھر ادھر چکر لگایا تو دیکھا ایک درخت سے پانی مثل مکھن کے ٹپک رہا ہے۔ بادشاہ کے ہاتھوں میں چمڑے کے دستانے تھے‘ اس نے باز کی گردن سے کٹورا اتارا اور اس میں وہی پانی بھر کر اپنے سامنے رکھا۔ باز نے پر مار کر کٹورا الٹ دیا۔ پھر اس نے دوسری بار کٹورا لیا اور اس میں ان قطروں کو ٹپکنے دیا۔
یہاں تک کہ وہ پھر بھر گیا۔ بادشاہ نے خیال کیا کہ باز پیاسا ہوگا۔ اس لیے وہ پانی اس کے سامنے کر دیا۔ باز نے پھر پر مار کر الٹ دیا۔ بادشاہ کو باز پر غصہ آیا اور پھر اٹھا اور پانی بھر کر گھوڑے کے آگے بڑھایا۔ باز نے پھر بازو مار کر پانی گرا دیا۔ بادشاہ نے کہا کہ اے منحوس چڑیا‘ خدا تجھ سے سمجھے، نہ تو نے مجھے پانی پینے دیا اور نہ گھوڑے کو اور نہ خود پیا۔
یہ کہہ کر اس نے باز پر تلوار کا ایک ہاتھ مارا کہ اس کے دونوں بازوں کٹ گئے۔ باز نے اپنا سر اوپر کی طرف اٹھایا‘ گویا یہ اشارہ کیا کہ دیکھ اوپر کیا ہے۔ بادشاہ نے نظر اوپر اٹھائی تو کیا دیکھتا ہے کہ درخت کے اوپر کالے سانپ کے بچے ہیں اور یہ پانی انہیں کا زہر۔ بادشاہ باز کے بازو کٹنے پر بہت پچھتایا اور اٹھ کھڑا ہوا اور ہرنی کو لے کر چل دیا۔
خیمہ گاہ میں پہنچ کر اس نے ہرنی اپنے باورچی کو دی کہ اسے لے جا کر تل لا۔ بادشاہ کرسی پر بیٹھا ہوا تھا اور باز اس کے ہاتھ پر۔ باز نے ایک ہچکی لی اور دم توڑ دیا‘ بادشاہ رنج اور افسوس کے مارے چلانے لگا کہ ہائے‘ جس باز نے میری جان بچائی ہے‘ میں نے اسے خود مار ڈالا۔
یہ ہے سندباد بادشاہ کی کہانی، جب وزیر نے یونان بادشاہ سے یہ سنا تو کہنے لگا کہ جہاں پناہ‘ جو کچھ اس نے کیا‘ مجبوری کی وجہ سے کیا اور میں اس میں کوئی برائی نہیں پاتا اور جو کچھ میں کر رہا ہوں وہ محض آپ کی محبت کی وجہ سے ہے تاکہ آپ کو صحیح واقعہ معلوم ہو جائے ورنہ آپ بھی یونہی تباہ ہو جائیں گے جس طرح وہ وزیر ہوا جس نے شہزادے کے ساتھ دغابازی کی تھی۔
یونان بادشاہ نے پوچھا کہ وہ کس طرح؟
دغا باز وزیر کی کہانی:
وزیر نے کہا کہ جہاں پناہ‘ سنئے ایک بادشاہ تھا، اس کا ایک وزیر تھا اور ایک شہزادہ، شہزادے کو صید و شکار کا بڑا شوق تھا اور اس کے باپ کا وزیر اس کے ہمراہ تھا۔ راہ میں انہیں ایک بڑا جنگلی جانور دکھائی دیا۔ وزیر نے کہا کہ لیجیے وہ جنگلی جانور ہے‘ اسے مارئیے! شہزادہ نے اس کا پیچھا کیا‘ یہاں تک کہ وہ وزیر کی نظر سے غائب ہو گیا اور جانور اس کی نظر سے غائب ہو کر جنگل میں چلتا ہوا اور کچھ پتا نہ ملا کہ وہ کہاں چلا گیا۔
اب وہ کیا دیکھتا ہے کہ راہ کے کنارے ایک نوجوان لڑکی بیٹھی رو رہی ہے۔ شہزادے نے پوچھا کہ تو کون ہے؟ اس نے کہا کہ میں ہندوستان کے ایک راجہ کی بیٹی ہوں۔ میں اس جنگل میں سفر کر رہی تھی کہ مجھے نیند آ گئی اور بے ہوشی کی حالت میں‘ میں اپنی سواری پر سے گر پڑی اور اب اکیلی اور پریشان پھر رہی ہوں۔ یہ سن کر شہزادے کو ترس آیا اور اسے اپنی سواری پر اپنے پیچھے بٹھا لیا اور آگے چل دیا۔
جب وہ ایک کھنڈر کے پاس پہنچے تو لڑکی نے کہا کہ اے آقا، میں اپنی حاجت رفع کرنا چاہتی ہوں۔ شہزادے نے اسے کھنڈر کے قریب اتار دیا۔ جب اسے وہاں دیر لگی تو شہزادہ سمجھا کہ بڑی سست ہے اور فوراً اس کے پیچھے پہنچا۔ وہ تو اس سے واقف نہ تھا لیکن یہاں آ کر اسے معلوم ہوا کہ وہ چڑیل ہے۔ وہ اپنے بچوں سے کہہ رہی تھی کہ ”اے بچو! میں آج تمہارے لیے ایک موٹا تازہ نوجوان لڑکا لائی ہوں۔
“ انہوں نے کہا کہ ”اماں‘ ضرور لا تاکہ ہم اسے اپنے پیٹ کے اندر چرنے بھیجیں۔“ جب شہزادے نے ان کی باتیں سنیں تو اسے اپنی موت آنکھوں کے سامنے نظر آنے لگی اور اس کے پٹھے تھرتھر کانپنے لگے اور وہ اپنی موت سے ڈرا اور جھٹ واپس آ گیا۔ اتنے میں چڑیل بھی باہر آئی اور دیکھا کہ وہ ڈر کے مارے کانپ رہا ہے اور کہا کہ تو کیوں ڈر رہا ہے؟ شہزادے نے جواب دیا کہ میرا ایک دشمن ہے اور مجھے اس سے ڈر لگتا ہے۔
چڑیل نے کہا کہ تو تو اپنے آپ کو شہزادہ کہتا ہے ناں؟ اس نے کہا کہ ہاں۔ اس چڑیل نے کہا کہ تو اسے روپیہ پیسہ دے کر راضی کیوں نہیں کر لیتا؟ اس نے کہا کہ وہ روپے پیسے سے راضی نہیں ہوتا بلکہ جان مانگتا ہے۔ میں اپنے آپ کو مظلوم سمجھ کر اس سے ڈرتا ہوں۔ اس نے کہا کہ اگر اپنے آپ کو مظلوم سمجھتا ہے تو خدا سے مدد مانگ کہ وہ تجھے مخدوش دشمن کے شر سے بچا لے۔
شہزادے نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور دعا مانگنے لگا کہ ”خداوند! جو پریشان حالوں کی دعا قبول کرتا ہے اور برائیوں کو دور کرتا ہے‘ اے میرے مولا‘ مجھے دشمن پر فتح دے اور اس سے میرا پیچھا چھڑا۔ تو جو چاہے کر سکتا ہے۔“ جب چڑیل نے اس کی دعا سنی تو وہ چلتی ہوئی۔ شہزادہ اپنے باپ کے پاس واپس آ گیا اور وزیر کا سارا ماجرا بیان کیا۔
بادشاہ نے وزیر کو بلایا اور اسے قتل کر دیا۔
جہاں پناہ‘ اگر آپ بھی اس حکیم پر بھروسہ کریں گے تو وہ آپ کو بری موت مارے گا۔ جسے آپ نے مقرب بنایا اور جس کے ساتھ بھلائی کی ہے وہ آپ کو مارنے کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑا ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ اس نے ایک دوا آپ کے ہاتھوں میں دی اور اس بیرونی علاج سے آپ اچھے ہوگئے‘ آپ یقین کیجئے کہ اسی طرح وہ آپ کو مار بھی سکتا ہے۔
یونان بادشاہ نے کہا کہ وزیر! تو سچ کہتا ہے‘ اے ناصح وزیر۔ یہی ہونے والا ہے۔ ہو نہ ہو حکیم میرے قتل کرنے کے لیے جاسوس بن کر آیا ہے۔ اگر وہ یہ کر سکتا تھا کہ ایک چیز میرے ہاتھ میں دے کر مجھے اچھا کر دیا تو وہ یہ بھی کر سکتا ہے کہ کوئی چیز سنگھا کر مجھے مار ڈالے۔ پھر اس نے کہا کہ اے وزیر‘ اب کیا کیا جائے؟ وزیر نے کہا کہ اسے بلوا بھیجئے اور جب وہ آئے تو اس کی گردن مار دیجئے۔
یونان بادشاہ نے کہا کہ تو سچ کہتا ہے اور حکیم کو بلوا بھیجا۔ وہ خوش خوش آیا‘ اسے کیا معلوم تھا کہ خدا نے اس کی قسمت میں کیا لکھ چھوڑا ہے۔ کسی شاعرکا قول ہے:
”اے زمانے سے ڈرنے والے‘ خدا پر بھروسہ کر اور اپنے سارے کام اس کے سپرد کر دے‘ وہی زمین کا بنانے والا ہے۔“
”جو چیز تیری قسمت میں لکھی ہے‘ وہ ہو کر رہے گی اور جو تیری قسمت میں نہیں ہے تو اس سے بچا رہے گا۔

جب حکیم بادشاہ کے پاس آیا تو اس نے یہ اشعار پڑھے:
”اگر تو کہے کہ میں تیرا کافی شکر گزار نہیں ہوا تو بتا کہ آخر میں نے اپنی نظم اور نثر کس کے لیے تیار کی ہے؟“
تو نے مانگنے سے پہلے ہی میرے پاس نعمتیں بھیجیں اور وہ بغیر ٹال مٹول کئے میرے پاس آ گئیں۔“
”پھر میں تیری تعریف کیوں کر نہ کروں اور پوشیدہ اور اعلانیہ تیری بخششوں کا گیت کیوں نہ گاﺅں۔

اور اسی مضمون کے یہ اشعار پڑھے:
”اپنے رنج وغم کو خیال میں مت لا اور اپنے سارے کام قصا و قدر کے سپرد کر دے۔ موجودہ فائدے سے خوش ہو اور گزری ہوئی باتیں سب بھول جا۔ بہت سی تکلیف دہ باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ آگے چل کر ان سے خوشی حاصل ہوتی ہے۔“
”خدا جو چاہتا ہے‘ وہی ہوتا ہے‘ اس لیے تیرا کسی چیز کی خواہش کرنا بے فائدہ ہے۔

اور اسی مضمون کے یہ اشعار پڑھے:
”اپنے سارے کام اس کے سپرد کر دے جو ذرا ذرا سی بات جانتا ہے اور دنیا والوں سے اپنا دل پریشان مت کر۔“
”تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ ہر چیز تیری مرضی کے مواقف نہیں ہوتی بلکہ خدا کی مرضی کے موافق جو احکم الحاکمین ہے۔“
بادشاہ نے حکیم دوبان سے کہا کہ تجھے معلوم ہے کہ میں نے تجھے کیوں بلایا؟ حکیم نے کہا کہ پوشیدہ باتیں سوائے خدا کے کوئی نہیں جانتا۔
بادشاہ نے کہا کہ میں نے تجھے قتل کرنے اور تیری جان لینے کے لیے بلایا ہے۔ دوبان حکیم کو اس بات سے سخت اچنبھا ہوا اور اس نے کہا کہ جہاں پناہ‘ کون سا ایسا گناہ مجھ سے سرزد ہوا ہے کہ آپ میرے قتل کے درپے ہیں؟ بادشاہ نے جواب دیا کہ لوگ کہتے ہیں کہ تو جاسوس ہے اور مجھے قتل کرنے کے لیے آیا ہے۔ دیکھ‘ قبل اس کے کہ تو مجھے قتل کرے‘ میں تجھے قتل کر دوں گا۔
بادشاہ نے جلاد کو بلا کر کہا کہ اس دغا باز کی گردن اڑا دے اور مجھے اس کے شر سے نجات دے۔ حکیم نے کہا کہ مجھے مت مارئیے‘ خدا آپ کو سلامت رکھے۔ مجھے قتل نہ کیجئے‘ ایسا نہ ہو کہ خدا کا غضب آپ پر نازل ہو۔ اے دیو‘ اس نے بار بار وہی کہا جو میں نے تجھ سے کہا تھا‘ جب تو مجھے مارنے پر تلا کھڑا تھا۔ یونان بادشاہ نے دوبان حکیم سے کہا کہ جب تک میں تجھے قتل نہ کر ڈالوں‘ اس وقت تک مجھے اپنی جان کی طرف سے اطمنیان نہیں۔
مجھے تو نے ایسی دوا دی کہ اس کو ہاتھ میں لیتے ہی میں اچھا ہوگیا۔ مجھے ڈر ہے کہ مجھے کوئی دوا سنگھا کر تو مار ڈالے گا۔ حکیم نے کہا کہ جہاں پناہ‘ میری نیکی کا یہی برائی بدلہ ہے؟ بادشاہ نے کہا کہ سوائے اس کے اور چارہ نہیں کہ میں تجھے فوراً مار ڈالوں۔ جب حکیم کو اپنے مرنے کا یقین ہوگیا تو وہ رونے اور اس بات پر افسوس کرنے لگا کہ اس نے نااہل کے ساتھ بھلائی کی۔
جلاد آیا اور اس نے اس کی آنکھوں پر پٹی باندھی اور اپنی تلوار میان سے نکالی اور بادشاہ سے اجازت چاہی۔ حکیم رو رو کر بادشاہ سے کہہ رہا تھا کہ مجھے نہ مارئیے‘ خدا آپ کو سلامت رکھے۔ حکیم نے بادشاہ سے کہا کہ یہ میرا بدلہ تو وہی مگرمچھ کا بدلہ ہے۔ بادشاہ نے کہا کہ مگرمچھ کا کیا قصہ ہے؟ حکیم نے کہا کہ اس حالت میں میرے لیے بیان کرنا ممکن نہیں۔
خدا کے لیے آپ مجھے نہ مارئیے‘ خدا آپ کو سلامت رکھے۔ یہ کہہ کر حکیم زار زار رونے لگا۔ بادشاہ کا ایک مقرب اٹھا اور کہنے لگا کہ جہاں پناہ‘ آپ اس کا خون مجھے بخش دیجئے۔ ہم نے اسے آپ کے ساتھ کوئی برائی کرتے نہیں پایا اور اس کے سوا کچھ نہیں دیکھا کہ اس نے آپ کو ایسی بیماری سے اچھا کیا ہے جس سے تمام حکیم ناامید ہو چکے تھے۔ بادشاہ نے کہا کہ تم لوگ نہیں جانتے کہ میں اس حکیم کو کیوں قتل کرنا چاہتا ہوں۔
وجہ یہ ہے کہ اگر میں اسے زندہ چھوڑ دوں گا تو میری جان جائے گی۔ جس نے میرے ہاتھ میں دوا دے کر اچھا کر دیا ہے وہ یہ بھی کر سکتا ہے کہ کوئی دوا سنگھا کر مجھے مار ڈالے۔ میں جانتا ہوں کہ وہ مجھے ضرور مار ڈالے گا اور اس کے بدلے رشوت لے گا۔ وہ جاسوس ہے اور محض مجھے قتل کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے۔ اب سوائے اس کے اور چارہ نہیں کہ میں اسے قتل کر ڈالوں اور خود اطمینان سے رہوں۔
حکیم نے کہا‘ کہ مجھے نہ مارئیے‘ خدا آپ کو سلامت رکھے! مجھے قتل نہ کیجئے، کہیں خدا اپنا غضب آپ پر نازل نہ کرے۔ اے دیو جب حکیم کو یقین ہو گیا کہ بادشاہ اسے بے قتل کئے نہ چھوڑے گا تو اس نے کہا کہ بادشاہ سلامت‘ اگر آپ مارنا ہی چاہتے ہیں تو اتنی مہلت دیجئے کہ میں گھر جا کر اپنے گھر والوں اور پڑوسیوں کو اپنی تجہیز و تکفین کے متعلق انتظام کر آﺅں اور اپنے قرضے اتار آﺅں اور طب کی کتابیں لوگوں کے سپرد کر آﺅں۔
میرے پاس ایک خاص کتاب ہے‘ وہ میں آپ کے کتب خانے کی نذر کروں گا۔ بادشاہ نے پوچھا کہ اس کتاب میں کیا ہے۔ اس نے جواب دیا کہ اس کتاب میں بے شمار چیزیں ہیں اور سب سے چھوٹی چیز اس میں یہ ہے کہ جب آپ میرا سر کاٹ چکیں تو اس کتاب کے تین ورق الٹئے اور بائیں صفحے کی تین سطریں پڑھیے تو میرا سر آپ سے باتیں کرے گا اور آپ کے تمام سوالات کے جواب دے گا۔
بادشاہ کو اس پر بڑا اچنبھا ہوا اور خوشی کے مارے پھڑک گیا اور کہنے لگا کہ اے حکیم‘ جب میں تیرا سر کاٹ ڈالوں گا تو کیا تو مجھ سے باتیں کرے گا؟ اس نے کہا کہ جی ہاں! بادشاہ نے کہا کہ یہ بڑی نرالی بات ہے۔ پھر باشاہ نے پہرے کے ساتھ اسے روانہ کیا۔ حکیم گھر پہنچ کر اس روز اپنی تمام ضروریات چکانے میں مشغول رہا اور دوسرے روز وہ دربار میں آیا اور تمام امرا اور وزرا اور خدام اور نواب اور رﺅسا سب حاضر ہوئے اور ان سے دربار گلزار ہوگیا۔
جب حکیم بادشاہ کے سامنے پہرے کے ساتھ کھڑا ہوا تو اس کے ہاتھوں میں ایک پرانی کتاب تھی اور ایک سرمہ دانی جس کے اندر معطر سفوف تھا۔ وہ بیٹھ گیا اور کہا کہ ایک سینی لاﺅ ۔ جب سینی آئی تو اس نے وہ سفوف اس میں ڈال کر پھیلا دیا اور کہنے لگا کہ جہاں پناہ‘ یہ کتاب لیجئے اور جب آپ میرا سر کاٹ چکیں تو اسے کھولئے اور میرے سر کو اس سینی میں رکھ کر سفوف پر خوب دبائیے۔
ایسا کرنے سے خون بند ہو جائے گا۔ پھر کتاب کھولئے۔ بادشاہ نے اس کے سر اڑا دینے کا حکم دیا اور اس کے ہاتھ سے کتاب لے لی۔ جلاد نے اٹھ کر اس کا سر اڑا دیا اور اسے سینی کے بیچ میں رکھ کر سفوف کے اوپر خوب دبایا۔ یہاں تک کہ خون بند ہوگیا۔ اب حکیم دوبان نے آنکھیں کھول دیں اور کہا کہ جہاں پناہ‘ اب کتاب کھولئے۔ بادشاہ نے دیکھا کہ اس کے ورق چپکے ہوئے ہیں۔
اس لیے اس نے اپنی انگلیوں میں تھوک لگایا اور ایک ورق کھولا‘ پھر دوسرا‘ پھر تیسرا۔ ہر ورق بڑی مشکل سے کھلتا تھا۔ بادشاہ نے چھ ورق کھولے اور دیکھا کہ اس میں کوئی نوشتہ نہیں۔ اس نے حکیم سے کہا کہ اس میں تو کوئی نوشتہ نہیں۔ حکیم نے کہا کہ اور کھولئے۔ اس نے تین ورق اور کھولے۔ اتنے میں زہر اس کے بدن میں سرایت کر چکا تھا کیونکہ کتاب زہر آلود تھی۔
بادشاہ تھرانے لگا اور چلا کر کہا کہ زہر میرے بدن میں سرایت کر گیا۔ جب حکیم کا سر باتیں کر چکا تو بادشاہ بھی فوراً مر کر گر پڑا۔
اے دیو تجھے جاننا چاہیے کہ اگر یونان بادشاہ دوبان حکیم کو زندہ رہنے دیتا تو خدا اسے بھی صحیح و سلامت رکھتا لیکن اس نے اس کا کہنا نہ مانا اور اس کے خون کا پیاسا ہو گیا‘ اس لیے خدا نے اسے بھی موت کی سزا دی۔ اے دیو، اگر تو مجھے چھوڑ دیتا تو خدا تجھے بھی بچا لیتا۔
اب شہر زاد کو صبح ہوتی دکھائی دی اور اس نے وہ کہانی بند کر دی جس کی اسے اجازت ملی تھی۔

Browse More Urdu Literature Articles