Shehryar Badshah Aor Os Kay Bhai Ki Kahani - Article No. 1465

Shehryar Badshah Aor Os Kay Bhai Ki Kahani

شہر یار بادشاہ اور اس کے بھائی کی کہانی - تحریر نمبر 1465

دیو نے صندوق میں سات قفل لگا کر مجھے گہرے اور موجزن سمندر کی اتھاہ میں پوشیدہ رکھتا ہے مگر اسے یہ خبر نہیں کہ ہم عورتیں اگر کچھ چاہیں تو دنیا کی کوئی چیز ہمیں روک نہیں سکتی

منگل 29 اگست 2017

شہر یار بادشاہ اور اس کے بھائی کی کہانی
غیب کی باتیں تو خدا بہتر جانتا ہے لیکن پرانے قصے کہانیوں میں یوں بیاں کیا جاتا ہے کہ اگلے زمانے میں بنی ساسان کا ایک بادشاہ تھا۔ اس کی حکومت جزائر ہند اور چین تک تھی اور اس کی فوجوں اور باج گزاروں اور شان و شوکت کی کوئی انتہا نہ تھی۔ اس کے دو بیٹے تھے‘ ایک بڑا ایک چھوٹا۔ یوں تو دونوں بڑے بہادر اور شہسوار تھے لیکن بڑا بیٹا شہسواری میں چھوٹے سے بڑھ چڑھ کر تھا۔

کئی ملک اس کی حکومت میں آئے۔ وہ اپنی رعیت کے ساتھ بڑے عدل و انصاف سے پیش آتا تھا اور اس کی رعایا اس سے بہت محبت کرتی تھی۔ اس بادشاہ کا نام شہر یار تھا۔ چھوٹے بھائی کا نام شاہ زمان تھا اور اس کا ملک سمر قند تھا۔
بیس سال تک دونوں بادشاہ اپنے اپنے ملکوں پر نہایت خوشی و خرمی کے ساتھ عادلانہ حکومت کرتے رہے۔

(جاری ہے)

اسی زمانے میں بڑے بھائی کو اپنے چھوٹے بھائی کے دیکھنے کا اشتیاق پیدا ہوا۔

اس نے اپنے وزیر کو حکم دیا کہ وہ جائے اور اس کے چھوٹے بھائی کو اپنے ساتھ لے آئے۔ وزیر نے اس کے حکم کی تعمیل کی اور روانہ ہوگیا، اور صحیح و سلامت پہنچ گیا اور چھوٹے بھائی کے پاس باریاب ہوکر اسے بادشاہ کا سلام پہنچایا اور عرض کی کہ آپ کے بھائی کا آپ سے ملنے کو دل چاہتا ہے اور انہوں نے درخواست کی ہے کہ آپ ان سے ملنے کےلئے تشریف لے چلیں۔

بادشاہ نے اسے بسر و چشم منظور کیا اور سفر کی تیاری کرنے لگا اور خیمے اور اونٹ اور خچر اور خدمتگار اور مددگار سفر کے لیے تیار ہوگئے۔ اس نے اپنے وزیر کو اپنا قائم مقام بنایا اور اپنے بھائی سے ملنے کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ آدھی رات کے وقت اسے یاد آیا کہ وہ ایک چیز محل میں بھول آیا ہے اور پلٹ پڑا۔ جب وہ اپنے محل میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہے کہ اس کے بچھونے میں اس کی بیوی ایک حبشی غلام کو لیے پڑی ہے۔
یہ دیکھتے ہی اس کی انکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا اور وہ اپنے دل میں کہنے لگا کہ ابھی تو میں شہر سے نکلا بھی نہیں اور یہاں ایسا واقعہ پیش آیا‘ اگر میں اپنے بھائی کے ساتھ ایک مدت تک رہا تو خدا جانے یہ حرام زادی کیا کچھ نہ کر گزرے۔ یہ کہہ کر اس نے اپنی تلوار کھینچی اور دونوں کو اسی بچھونے پر قتل کر ڈالا اور فوراً وہاں سے چل دیا اور کوچ کا حکم دے دیا۔

الغرض وہ اپنے بھائی کے دارلسلطنت پہنچ گیا اور شہر میں داخل ہونے سے پہلے اس نے اپنے آنے کی خبر بھائی کو بھیجی۔ بھائی اس کے خیر مقدم کے لیے آیا اور اس سے ملا اور صاحب سلامت کی اور بہت خوش ہوا اور سارے شہر میں چراغاں کرایا۔ اب دونوں بیٹھ کر خوشی خوشی ایک دوسرے سے بات چیت کرنے لگے۔ اس وقت شاہ زمان بادشاہ کو اپنی بیوی کا واقعہ یاد آیا اور وہ دل ہی دل میں کڑھنے اور بے چین ہونے لگا اور اس کا چہرہ فق ہوگیا اور جسم مضمحل۔
جب بھائی نے اس کی یہ حالت دیکھی تو اس کو خیال ہوا کہ ہو نہ ہو میرے بھائی کو اپنے ملک چھوٹنے کا قلق ہے۔ اس لیے اس کے متعلق پھر اور باتیں نہ کہیں۔
کچھ دن کے بعد اس نے اپنے بھائی سے کہا کہ بھائی میں دیکھتا ہوں کہ تم روز بروز کمزور ہوتے چلے جاتے ہو اور تمہارے چہرے کا رنگ اڑتا جاتا ہے۔ اس نے جواب دیا کہ بھائی میرے دل کے اندر ایک زخم ہے مگر اپنی بیوی کا واقعہ اس نے بیان نہیں کیا۔
بھائی نے کہا میں چاہتا ہوں کہ تم میرے ساتھ شکار کھیلنے چلو تاکہ تمہاری طبیعت ذرا بہل جائے لیکن اس نے نہ مانا اور وہ اکیلا شکار کے لیے روانہ ہوگیا۔ بادشاہ کے محل میں چند کھڑکیاں تھیں جو اس کے بھائی کے باغ کی طرف کھلتی تھیں۔ ان میں سے ایک کھڑکی کھلی اور اس میں سے بیس لونڈیاں نکلیں اور بیس غلام اور ان کے بیچ میں اس کے بھائی کی بیوی تھی جو حسن و جمال میں یکتا تھی۔
جب وہ ایک حوض کے پاس پہنچے تو سب کے سب کپڑے اتار کر ننگے ہو گئے اور بادشاہ کی بیوی نے پکار کر کہا کہ اے مسعود‘ تو کہاں ہے؟ یہ سن کر ایک حبشی غلام آیا اور اس سے لپٹ گیا اور وہ اس سے لپٹ گئی اور دونوں ہم صحبت ہونے لگے۔ دوسرے غلام بھی باقی لونڈیوں کے ساتھ اسی فعل میں مشغول ہوگئے۔ دن نکلے تک یہی بوس و کنار اور ہم صحبتی ہوتی رہی۔ جب بادشاہ کے بھائی نے یہ ماجرا دیکھا تو اپنے دل میں کہنے لگا کہ واللہ میری مصیبت تو اس مصیبت کا پاسنگ بھی نہیں اور اس کا غم و غصہ ہوا ہوگیا۔
اور اس نے اپنے دل میں کہا کہ میں نے اس سے بڑھ کر اب تک کوئی بات نہیں دیکھی اور پھر اس نے کھانا پینا شروع کر دیا۔
اس کے بعد اس کا بھائی سفر سے لوٹا اور دونوں میں صاحب سلامت ہوئی۔ شہر یار بادشاہ نے دیکھا کہ اس کا بھائی شاہ زمان بادشاہ کا چہرہ بحال نظر آتا ہے اور سرخ و سفید ہوگیا ہے اور یا تو پہلے کچھ کھاتا نہ پیتا تھا اور یا اب وہ بدستور کھانے پینے لگا ہے۔
اس نے اپنے چھوٹے بھائی سے کہا کہ بھائی اب تک تمہارا رنگ فق تھا اور چہرہ اترا ہوا تھا‘ اب تم پھر بحال نظر آتے ہو۔ آخرا س کی وجہ کیا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ رنگ فق ہونے کی وجہ تو میں آپ کو بتا دوں گا لیکن دوبارہ بحال ہونے کی وجہ بتانے سے آپ مجھے معاف رکھئے۔ بھائی نے کہا خیر‘رنگ فق ہونے اور کمزوری کی وجہ پہلے بتاﺅ تو سہی تاکہ میں سنوں۔
اس نے جواب دیا کہ جب آپ نے اپنے وزیر کو میرے بلانے کے لیے بھیجا تھا تو میں نے سفری سامان تیار کیا اور اپنے شہر سے باہر آیا۔ اس وقت مجھے یاد آیا کہ جو ہیرا میں آپ کے لیے لانے والا تھا اسے اپنے محل میں بھول آیا ہوں ۔ میں گھر واپس گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میرے بچھونے پر ایک حبشی غلام میری بیوی کے ساتھ ہم بستر ہے۔ میں نے وہیں دونوں کو قتل کردیا اور روانہ ہوگیا ۔
اب یہاں آیا ہوں تو وہی بات میری آنکھوں کے سامنے پھر رہی ہے۔ یہ ہے سبب میرے چہرے کے رنگ اڑنے اور کمزوری کا ۔ مگر اس بات سے آپ مجھے معاف رکھئے کہ میں اپنے بحال ہونے کی وجہ آپ سے بیان کردوں۔
جب اس کے بھائی نے اس کی باتیں سنی تو کہا کہ میں تمہیں خدا کی قسم دے کرکہتا ہوں کہ دوبارہ بحال ہونے کی وجہ بھی بتاﺅ۔ اس پر اس نے جو کچھ دیکھا تھا‘ سب کہہ دیا۔
شہر یار نے اپنے بھائی شاہ زمان سے کہا کہ میں یہ ماجرا اپنی آنکھ سے دیکھنا چاہتا ہوں۔ شاہ زمان نے کہا کہ اچھا آپ یہ ظاہر کیجئے کہ آپ شکار کے لیے جارہے ہیں اور میرے مکان میں چھپ جائیے۔ اس طرح سے آپ سب کچھ اپنی آنکھ سے دیکھ لیں گے۔ بادشاہ نے فوراً کوچ بول دیا اور خیمے اور لشکر شہر کے باہر نکل آئے اور بادشاہ بھی باہر آگیا اور خیمے کے اندر جا بیٹھا اور اپنے نوکروں سے کہا کہ میرے پاس کوئی نہ آئے۔
پھر وہ بھیس بدل کر نکلا اور اس محل میں آیا جہاں اس کا بھائی تھا اور اس کی کھڑکی میں آکر بیٹھ گیا جس کا دروازہ باہر باغ کی طرف تھا۔ تھوڑی ہی دیر تھی کہ لونڈیاں اور ان کی مالکہ غلاموں کے ساتھ آئیں اور وہی کارروائی ہونے لگی جو اس کے بھائی نے کہا تھا۔ یہ باتیں عصر کے وقت تک ہوتی رہیں۔ جب شہر یار بادشاہ نے یہ ماجرا دیکھا تو اس کے ہاتھ کے طوطے اڑ گئے اور اس نے اپنے بھائی شاہ زمان سے کہا کہ چلو‘ ہم جس طرح بیٹھے ہیں اٹھ کھڑے ہوں۔
ملک اور دولت کی کیا پروا۔ چلو دیکھیں دنیا میں کوئی اور بھی ہے جس کے ساتھ ایسا واقعہ پیش آیا ہو۔ ورنہ ایسے جینے سے تو مرنا بہتر ہے۔ دونوں بھائی محل کے چور دروازے سے باہر آئے اور کئی دن اور کئی رات چلنے کے بعد سمندر کے کنارے ایک سبزہ زار میں پہنچے جہاں ایک چشمہ بہہ رہا تھا اور بیچ میں ایک درخت تھا۔ اس چشمے سے انہوں نے پانی پیا اور بیٹھ کر سستانے لگے۔
جب ایک پہر دن گزر چکا تو وہ کیا دیکھتے ہیں کہ سمندر میں تلاطم اٹھا اور اس میں سے ایک سیاہ ستون سا اوپر کی طرف بڑھا۔ جب انہوں نے یہ دیکھا تو دونوں بھائی ڈر کے مارے درخت کے اوپر چڑھ گئے جو بہت اونچا تھا اور دیکھنے لگے اب کیا ہوتا ہے۔ وہ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک لمبا چوڑا بڑی اور چپٹی کھوپڑی والا دیو سر پر ایک صندوق لیے خشکی میں آنکلا اور اسی درخت کے پاس آپہنچا جس پر یہ دونوں بیٹھے ہوئے تھے۔
وہاں بیٹھ کر اس نے صندوق کھولا اور اس میں سے ایک بڑا پیالہ نکالا۔ پھر اس نے وہ پیالا کھولا اور اس میں سے ایک نوجوان لڑکی نکلی جس کا بدن سڈول اور جس کے چہرے کے آگے سورج مات تھا‘ جیسا کہ عطیہ شاعرہ نے کہا:
”اندھیرے میں وہ اس طرح چمکتی ہے کہ گویا دن نکل آیا ہے اور اپنے اوپر درخت کو روشن کر دیتی ہے۔“
”آفتاب کو اس کے نور سے روشنی پہنچتی ہے اور جب وہ باہر نکل کر جلوہ افروز ہوتی ہے تو چاند تک شرما جاتا ہے۔

”جب وہ پردہ اٹھا کر سامنے آتی ہے تو ساری خدائی اس کے سامنے سرکے بل گر پڑتی ہے۔“
”جب اس کے حسن کے سبزہ زار پر اس کے ناز و ادا کی بجلیاں کوندتی ہیں تو لوگوں کی آنکھوں سے آنسو برسنے لگتے ہیں۔“
دیو نے اس لڑکی کی طرف دیکھ کر کہا کہ ”اے شریف زادیوں کی سرتاج جس کو میں نکاح کی رات اٹھا لایا ہوں‘ اب میں چاہتا ہوں کہ ذرا سو لوں۔
“ یہ کہہ کر وہ لڑکی کے زانوں پر سر رکھ کر سوگیا۔ لڑکی نے سر اوپر اٹھایا تو ان دونوں بادشاہوں کو درخت کے اوپر بیٹھا دیکھا۔ یہ دیکھ کر اس نے دیو کے سر کو اپنے زانو پر سے اٹھا کر زمین پر رکھ دیا اور خود درخت کے نیچے آکر کھڑی ہوگئی اور اشارے سے کہنے لگی کہ اتر آﺅ اور دیو سے نہ ڈرو۔ انہوں نے جواب دیا کہ خدا کے واسطے ہمیں بدکاری سے معاف رکھو۔
لڑکی نے کہا کہ اگر تم نہ اتروگے تو میں دیو کو جگا کر تمہارے پیچھے لگا دوں گی اور وہ بری طرح سے تمہیں موت کے گھاٹ اتارے گا۔ ڈر کے مارے وہ دونوں اتر کر اس کے پاس آگئے۔ وہ قریب آئی اور کہا کہ آﺅ میرے اوپر آﺅ۔ ورنہ میں ابھی دیو کو جگاتی ہوں۔ دیو کے ڈر سے شہر یار نے اپنے بھائی شاہ زمان سے کہا کہ بھائی اس کا کہنا مان لو۔ اس نے جواب دیا کہ نہیں پہلے آپ شروع کیجئے۔

وہ یہی بات کر رہے تھے کہ پہلے کون اس سے صحبت کرے کہ لڑکی نے کہا کہ میں دیکھتی ہوں کہ تم دونوں نخرے کر رہے ہو اور اگرتم نے فوراََ وہ فعل شروع نہ کیاتو میں ابھی دیو کو جگا دوں گی۔ دیو کے ڈر کے مارے دونوں نے اس کے ساتھ صحبت کی۔ جب دونوں فارغ ہو چکے تو اس نے اپنی جیب سے ایک تھیلی نکالی جس میں ایک ہار کی شکل میں پانچ سو ستر (570) انگوٹھیاں پروئی ہوئی تھیں اور ان سے کہا کہ تم جانتے ہو کہ یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا‘ نہیں۔
اس نے کہا کہ یہ ان لوگوں کی انگوٹھیاں ہیں جو دیو کی موجودگی میں مجھ سے ہم صحبت ہوئے ہیں۔ تم دونوں بھائی اپنی اپنی انگوٹھی مجھے دے دو۔ انہوں نے بھی انگوٹھیاں اتار کر اسے دے دیں۔ اس نے کہا کہ سنو، یہ دیو مجھے نکاح کی رات اٹھا لایا ہے اور ایک پیالے میں بند کرکے اس صندوق میں رکھا ہے اور اس صندوق میں سات قفل لگا کر مجھے گہرے اور موجزن سمندر کی اتھاہ میں پوشیدہ رکھتا ہے مگر اسے یہ خبر نہیں کہ ہم عورتیں اگر کچھ چاہیں تو دنیا کی کوئی چیز ہمیں روک نہیں سکتی ‘جیسا کہ کسی شاعر نے کہا ہے:
”عورتوں کی طرف سے مطمئن ہو کر نہ بیٹھو اور ان کے وعدوں پر بھروسا مت کرو“
”ان کی خوشی اور ناخوشی ان کی فرجوں کے ساتھ وابستہ ہے۔

”حضرت یوسف کے قصے سے عبرت حاصل کرو۔ اس میں تمہیں ان کی بعض سازشوں کا پتہ لگے گا۔“
”کیا تمہیں باوا آدم کا حال معلوم نہیں کہ وہ انہیں کی وجہ سے نکالے گئے۔“
اس لڑکی کی یہ باتیں سن کر دونوں بادشاہ ششدر رہ گئے اور ایک نے دوسروں سے کہا کہ دیکھو یہ تو دیو ہے لیکن جو ماجرا اس کے ساتھ ہوا وہ ہم میں سے کسی کے ساتھ بھی نہ ہوا ۔
ایسی بات تو اب تک دنیا میں کسی کے ساتھ بھی پیش نہ آئی ہوگی۔
وہ فوراً الٹے پاﺅں پھرے اور شہر یار بادشاہ کے دارلسلطنت میں پہنچے۔ شہر یار اپنے محل میں داخل ہوا اور اپنی بیوی اور ان سب لونڈیاں اور غلاموں کی گردن ماردی ۔ اس کے بعد اس کا دستور رہا کہ وہ ہر رات ایک باکرہ سے ہم صحبت کرتا اور پھر اس کو قتل کر ڈالتا تھا۔ یہ ماجرا تین سال تک جاری رہا‘ یہاں تک کہ لوگ اپنی اپنی بیٹیاں لے کر بھاگ گئے اور ان شہر میں کوئی نوجوان لڑکی باقی نہ رہی جو صحبتی کے قابل ہو۔
بادشاہ نے اپنے وزیر کو حکم دیا کہ بدستور ہر ہر روز ایک لڑکی لائے ۔ وزیر گیا اور بہت جستجو کی‘ لیکن اسے کوئی لڑکی نہ ملی ۔ آخر کار وہ مغموم ہوکر گھر آیا اور دل ہی دل میں بادشاہ کی طرف سے بہت خائف تھا۔ اس وزیر کی دو لڑکیاں تھیں۔ بڑی کا نام شہر زاد تھا اور چھوٹی کا نام دنیا زاد ۔ بڑی نے تاریخ اور پرانے بادشاہوں کے حالات اور گزشتہ قوموں کے واقعات کے متعلق بہت سی کتابیں پڑھی تھیں۔
کہا جاتا ہے کہ اس کے کتب خانے میں گزشتہ قوموں کے واقعات کے متعلق اور پرانے بادشاہوں اور شاعروں کے متعلق ایک ہزار کتابیں موجود تھیں۔ اپنے باپ کی یہ حالت دیکھ کر اس نے کہا کہ آپ کیوں اس قدر پریشان نظر آتے ہیں اور کس چیز نے آپ کو غمگین کردیا ہے۔ اس کے متعلق کسی شاعر کا قول ہے :
“جو شخص غمگین ہو اس سے کہہ دو غم نہیں رہتا
جس طرح کہ خوشی فانی ہے غم بھی ہے۔

جب وزیر نے اپنی بیٹی کو یہ کہتے سنا تو اس نے سارا ماجرا بیان کردیا جو اس کے اور بادشاہ کے درمیان پیش آیا تھا۔ لڑکی نے کہا کہ ابا جان‘ میں آپ کو خدا کی قسم دیتی ہوں کہ آپ میری شادی بادشاہ کے ساتھ کر دیجئے۔ یا تو میں زندہ بچ جاﺅں گی اور یا مسلمان بچیوں پر نثار ہو جاﺅں گی اور ان کو اس بادشاہ کے پنجے سے نجات دوں گی۔ باپ نے کہا کہ میں تجھے خدا کی قسم دیتا ہوں کہ ایسی باتوں کو اپنے دل سے نکال ڈال۔
اس نے کہا کہ یہ تو ہوکر رہے گا۔ باپ نے کہا کہ کہیں تیرا وہی حال نہ ہو جو گدھے اور بیل کا کسان کے ساتھ ہوا تھا۔ اس نے کہا کہ وہ کیا تھا؟
( نوٹ: الف لیلہ ولیلہ کو قسط وار شائع کیا جا رہا ہے جس میں اس کی تقسیم کہانیوں کی نسبت سے کی گئی ہے، ہر کہانی ختم یوں ہوتی ہے کہ پڑھنے والا اسے نامکمل سمجھتا ہے جبکہ درحقیقت وہ اگلی کہانی سے جڑی ہوتی ہے چنانچہ قارئین اسے اسی تناظر میں دیکھیں۔ ادارہ)
( اگلی کہانی پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)

Browse More Urdu Literature Articles