TerhveeN Raat - Article No. 1574

TerhveeN Raat

تیرہویں رات - تحریر نمبر 1574

دیو نے تھوڑی سی مٹی لی، اس پر کچھ پڑھ کر پھونکا اور وہ مٹی میرے اوپر چھڑک دی اور کہنے لگا کہ اس صورت کو چھوڑ کر بندر بن جا۔ اس وقت سے میری شکل صد سالہ بندر کی سی ہوگئی

جمعہ 3 نومبر 2017

جب تیرہویں رات ہوئی تو اس نے کہا کہ اے نیک بخت بادشاہ ۔۔۔۔۔ دوسرے قلندر نے لڑکی سے کہا کہ اے بی بی میں نے گولے پر ٹھوکر ماری ہی تھی کہ چاروں طرف اندھیرا چھا گیا اور بجلیاں چمکنے اور کڑکنے لگیں اور زمیں میں زلزلہ آیا اور دنیا تاریک ہوگئی۔ اب میرا نشہ ہرن ہوگیا اور میں نے اس سے کہا کہ کیا ماجرا ہے؟ اس نے کہا کہ دیو آ پہنچا۔ کیا میں نے اس بات سے تجھے خبردار نہیں کیا تھا؟ واللہ تو نے مجھے بڑی مصیبت میں گرفتار کیا۔

اب اپنی جان لے کر بھاگ اور جس راستے سے آیا ہے‘ اس سے چلتا ہو۔ مارے ڈر کے میں اپنے جوتے اور کلہاڑی وہیں بھول آیا۔ جب میں نے دو سیڑھیاں چڑھنے کے بعد پھر دیکھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ زمین پھٹی اور اس میں سے ایک کالا بھجنگ دیو نکلا اور کہنے لگا کہ یہ کیا شور و غل مچا رکھا ہے؟ کون سی مصیبت تجھ پر آ پڑی ہے؟ اس نے جواب دیا کہ کچھ نہیں۔

(جاری ہے)

میرا دل ذرا گھبرا رہا تھا اور اس گھبراہٹ کو دور کرنے کے لیے میں نے شراب پی لی اور حاجت رفع کرنے کے لیے اٹھنا چاہتی تھی‘ مگر میرے سر میں چکر آیا اور میں گولے پر گر پڑی۔

دیو نے کہا کہ تو جھوٹی ہے‘ اے چھنال! پھر وہ ادھر ادھر محل میں دیکھنے لگا اور اس کی نظر جوتوں اور کلہاڑی پر پڑی اور اس نے کہا کہ یہ تو انسان کا پہناوا ہے۔ سچ بتا کہ تیرے پاس کون آیا ہے؟ اس نے کہا کہ میں نے ان چیزوں کو ابھی دیکھا ہے اور مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تو انہیں لایا ہے۔ دیو نے کہا کہ یہ ناممکن ہے‘ اے رنڈی! اب اس نے اسے ننگا کرکے شہتیروں کے بیچ میں باندھ دیا اور اسے مارنے پیٹنے لگا اور کہا کہ اقرار کر۔
اس کے رونے سے میرا دل کڑھنے لگا اور میں زینے پر چڑھ کر چلا گیا اور خوف کے مارے کانپ رہا تھا۔ جب میں اوپر پہنچ گیا تو گھیرے کو اپنی جگہ پر رکھ کر اسے مٹی سے پاٹ دیا۔ اپنے کیے پر میں سخت پشیمان تھا اور رہ رہ کر اس لڑکی اور اس کے حسن و جمال کا خیال آتا تھا اور یہ کہ وہ ملعون اسے نہ معلوم کیسی کیسی تکلیفیں پہنچائے گا اور یہ پچیس سال اس نے کس طرح کاٹے ہوں گے اور میری وجہ سے اس پر کیا مصیبت نازل ہوئی۔
پھر میں اپنے باپ اور اس کی بادشاہی کو سوچنے لگا اور یہ کہ میں کس طرح لکڑ ہارا بنا اور عیش و عشرت کے بعد میری زندگی کیسی تلخ ہو گئی۔ یہ باتیں سوچ کر میں رونے اور یہ شعر پڑھنے لگا:
”اگر زمانہ کسی روز تجھے مصیبت میں مبتلا کرے تو دلگیر مت ہو کیونکہ ایک روز تیرے سامنے عیش و آرام آئے گا اور ایک روز تکلیف۔“
وہاں سے چل کر میں اپنے دوست کے پاس پہنچا تو میں نے دیکھا کہ وہ میرے پیچھے سخت پریشان ہے اور میری راہ دیکھ رہا ہے۔
اس نے کہا کہ کل رات بھر میرا جی تجھ میں لگا رہا اور مجھے ڈر تھا کہ کہیں کسی درندے وغیرہ سے تو پالا نہیں پڑا لیکن میں خدا کا شکر کرتا ہوں کہ تو صحیح و سلامت ہے۔ میں نے اس کی محبت کا شکریہ ادا کیا اور اپنی کوٹھڑی میں چلا گیا اور اپنی ساری سرگزشت پر سوچ میں پڑ گیا اور اپنی بیہودگی اور اس گولے کو ٹھکرانے پر لعنت ملامت کرنے لگا۔ میں اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ میرا دوست درزی اندر آیا اور کہنے لگا کہ اے جوان‘ باہر آ، ایک عجمی بوڑھا تجھے تلاش کررہا ہے اور اس کے ہاتھ میں تیری کلہاڑی اور تیرے جوتے ہیں۔
انہیں لے کر وہ لکڑہاروں کے پاس آیا تھا اور ان سے کہا تھا کہ جس وقت موذن نے فجر کی اذان دی اس وقت میں گھر سے نکلا تو یہ دونوں چیزیں مجھے پڑی ملیں اور مجھے معلوم نہیں کہ یہ کس کی ہیں۔ تم مجھے ان کے مالک کا پتہ بتا دو۔ لکڑہارے اسے لے کر تیرے پاس آئے ہیں کیونکہ وہ تیری کلہاڑی پہچانتے ہیں۔ وہ میری دکان میں بیٹھا ہوا ہے۔ چل اور اس کا شکریہ ادا کر اور اپنی کلہاڑی اور جوتے اس سے لے لے۔
جب میں نے اس سے یہ سنا تو میرا رنگ فق ہوگیا اور میری حالت دگرگوں ہوگئی۔ میں اسی حالت میں تھا کہ میری کوٹھڑی کا فرش پھٹا اور وہی عجمی اس میں سے نمودار ہوا اور نکلتے ہی اس نے فوراً دیو کی صورت اختیار کرلی۔ اس نے اس لڑکی کو بہت مارا پیٹا تھا لیکن اس نے کسی بات کا اقرار نہیں کیا۔ تب دیو نے کلہاڑی اور جوتے ہاتھ میں لیے اور لڑکی سے کہنے لگا کہ میرا نام جرجیس ہے اور میں ابلیس کے خاندان سے ہوں تو میں اس کلہاڑی اور ان جوتوں کے مالک کو پکڑا کر ابھی یہاں لاتا ہوں، اس بہانے سے وہ لکڑ ہاروں کے پاس گیا اور پھر میرے یہاں پہنچا۔
اس نے مجھے ذرا بھی مہلت نہ دی بلکہ فوراً مجھے اٹھا کر ہوا میں اڑ گیا۔ پھر وہ اترا اور زمین کے اندر گھس گیا۔
مجھے اپنی خبر بالکل نہ تھی۔ پھر وہ اسی محل میں آ نکلا جہاں میں نے وقت گزارا تھا۔ میں نے دیکھا کہ وہ لڑکی ننگی بندھی پڑی ہے اور اس کے بدن سے خون جاری ہے۔ یہ دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا آئے۔ اب دیو نے اسے پکڑ کر کہا کہ اے رنڈی، بتا کہ یہی تیرا آشنا ہے؟ اس نے میری طرف دیکھا اور کہا کہ میں اسے بالکل نہیں پہچانتی اور اس وقت سے پہلے میں نے اسے کبھی نہیں دیکھا ہے۔
دیو نے اس سے کہا کہ اتنی مار پیٹ پر بھی تو اقرار نہیں کرتی۔ لڑکی نے کہا کہ میں نے آج تک اس کی شکل نہیں دیکھی اور خدا اجازت نہیں دیتا کہ میں کسی پر بہتان رکھوں۔ دیو نے کہا کہ اگر تو اسے نہیں جانتی تو یہ تلوار لے اور اس کا گلا کاٹ ڈال۔ لڑکی تلوار لے کر میرے پاس آئی اور میرے سر پر کھڑی ہوگئی۔ میں نے اس کی طرف اپنی بھوﺅں سے اشارہ کیا اور میرے چہرے پر آنسو بہہ رہے تھے۔
وہ میرا اشارہ سمجھ گئی اور مجھے اشارے سے جواب دیا کہ یہ سب کچھ تیرا ہی کرا دھرا ہے۔ میں نے اشارے سے کہا کہ یہ وقت معاف کرنے کا ہے۔
اے میرے آقا، اب اس لڑکی نے تلوار پھینک دی اور کہنے لگی کہ میں ایک ایسے شخص کی کس طرح گردن ماروں جس کو نہ میں جانتی ہوں اور جس نے کبھی میرے ساتھ کوئی برائی نہیں کی۔ یہ میرے دین و مذہب میں روا نہیں۔ یہ کہہ کر وہ ٹھٹھک گئی۔
دیو نے کہا کہ آشنا کا قتل کرنا کوئی آسان بات نہیں۔ وہ ایک رات تیرے ساتھ سویا ہے۔ تو تکلیفیں برداشت کر رہی ہے مگر اقرار نہیں کرتی کہ تیرا آشنا یہی ہے۔ اب مجھے معلوم ہو گیا کہ ہم جنس کو ہم جنس سے محبت ہوتی ہے۔ یہ کہہ کر دیو میری طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا کہ اے انسان تو بھی اسے نہیں پہچانتا؟ میں نے کہا کہ میں کیا جانوں یہ کون ہے، اس سے پہلے میں نے اس کی صورت تک نہیں دیکھی۔
اس نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو یہ تلوار لے اور اس کی گردن اڑا دے، پھر میں تجھے چھوڑ دوں گا اور تیرا جہاں جی چاہے جائیو اور تیرے اوپر کوئی سختی نہ کروں گا کیونکہ مجھے یقین آ جائے گا کہ تو اسے ہرگز نہیں جانتا۔ میں نے کہا کہ بہت خوب اور تلوار لے کر خوش خوش آگے بڑھا اور اپنے ہاتھ اٹھائے۔ لڑکی نے اپنی بھوﺅں سے اشارہ کرکے کہا کہ میں نے تیرا کوئی گناہ نہیں کیا، کیا اس کا بدلہ یہی ہے؟ میں اس کا اشارہ سمجھ گیا اور اپنی آنکھ سے اشارہ کرکے میں نے کہا کہ میں تجھے بچانے کی خاطر اپنی جان قربان کر دوں گا۔
میرے آنسو ڈبڈبا آئے اور میں نے تلوار ہاتھ سے پھینک دی اور کہنے لگا کہ اے زبردست دیو اور اے بہادر سورما، جب ایک عورت نے، جس کی عقل اور جس کا دین ناقص ہوتا ہے، میری گردن مارنے کو حرام سمجھا تو میرے لیے یہ کیونکر ممکن ہو سکتا ہے کہ اس کی گردن ماروں اور میں نے اسے کبھی دیکھا بھی نہیں، میں ہرگز ایسا نہ کروں گا خواہ تو مجھے موت کے گھاٹ ہی کیوں نہ اتار دے۔
دیو نے کہا کہ تم دونوں میں سازش ہے، میں ابھی تمہارے کیے کا مزہ چکھاتا ہوں۔ یہ کہہ کر اس نے تلوار اٹھا لی اور لڑکی کے ہاتھ پر ایک ایسا وار کیا کہ وہ کٹ کر گر پڑا، پھر دوسرا وار کیا اور دوسرا ہاتھ کٹ کر گر پڑا، اسی طرح چار وار کرکے چاروں ہاتھ پاﺅں کاٹ ڈالے۔ میں یہ دیکھ رہا تھا اور مجھے اپنی موت کا یقین آتا جاتا تھا اور لڑکی میری طرف آنکھوں سے اشارہ کر رہی تھی گویا وہ مجھ سے رخصت ہو رہی ہے۔
دیو نے اس سے کہا کہ تو اپنی آنکھ سے بدفعلی کر رہی ہے اور ایک ایسی ضرب لگائی کہ اس کا سر اڑ گیا۔ اب وہ دیو میری طرف متوجہ ہو کر کہنے لگا کہ اے انسان، ہمارے مذہب میں یہ ہے کہ اگر بیوی زنا کرے تو ہمارے لیے اس کا خون حلال ہے، اس لڑکی کو میں اس کے نکاح کی رات اٹھا لایا تھا اور اس وقت اس کی عمر بارہ سال تھی، وہ میرے سوا کسی سے واقف نہ تھی، میں ہر دسویں دن ایک رات کے لیے اس کے پاس آتا اور عجمی کے بھیس میں ظاہر ہوتا تھا، اب جبکہ مجھے یقین آ گیا کہ اس نے خیانت کی تو میں نے اسے قتل کر دیا مگر تیرے متعلق ابھی تک مجھے تحقیق نہیں ہوئی کہ آیا تو نے خیانت کی کہ نہیں، مگر یہ ضرور ہے کہ میں تجھے بھی آرام سے نہ رہنے دوں گا، مانگ کیا چاہتا ہے؟ اے میرے آقا اس پر میں بے حد خوش ہوا اور کہا کہ تجھ سے کیا مانگوں؟ اس نے کہا کہ یہ مانگ کہ میں جادو سے تجھے کیا بنا دوں، کتا یا گدھا یا بندر؟ مجھے امید تھی کہ وہ مجھے معاف کر دے گا اس لیے میں نے کہا واللہ اگر تو مجھے معاف کر دے گا تو ایک مسلمان کو معاف کرنے کے صلے میں خدا بھی تجھے معاف کر دے گا اور اذیت نہ دے گا۔
میں بڑی خوشامد درامد کرنے لگا اور اس کے سامنے رہتا اور اس سے کہتا جاتا تھا کہ میں مظلوم ہوں۔ اس نے کہا کہ اب زیادہ باتیں نہ بنا، تیرا قتل کرنا میرے لیے مشکل نہیں لیکن میں تجھے اختیار دیتا ہوں۔ میں نے کہا کہ اے دیو مجھے معاف کر دینا تیری شان کے شایاں تر ہے، اس لیے مجھے معاف کر دے، جس طرح کہ محسود نے حاسد کو معاف کر دیا تھا۔ دیو نے کہا کہ وہ کیسے؟
حاسد اورمحسود کی کہانی:
میں نے کہا کہ اے دیو، کہتے ہیں کہ کسی شہر میں دو شخص رہتے تھے، ان کے مکان اس طرح ملے ہوئے تھے کہ دونوں کے درمیان دیوار حائل تھی، ان میں سے ایک شخص دوسرے پر حسد کرتا اور اس پر نظر لگاتا اور اس کو نقصان پہنچانے کے درپے رہتا اور ہر وقت اس پر رشک کھاتا تھا، اس کا حسد یہاں تک بڑھا کہ اس کے کھانے پینے اور میٹھی نیند سونے میں کمی آگئی۔
لیکن محسود کی حالت بہتر ہوتی رہی۔ حاسد جتنی زیادہ کوشش کرتا محسود اتنا ہی زیادہ بڑھتا، پھلتا اور پنپتا۔ جب محسود کو معلوم ہوا کہ اس کا پڑوسی اس پر حسد کرتا اور اس کو اس سے تکلیف پہنچتی ہے تو وہ پڑوس چھوڑ کر اس کے گھر سے دور جا بسا اور کہنے لگا کہ واللہ اگر اس کی وجہ سے مجھے دنیا چھوڑنی پڑے تو چھوڑ دوں گا۔ اب اس نے ایک دوسرے شہر میں جا کر سکونت اختیار کی اور اپنے لیے ایک چھوٹا سا ٹکڑا زمین کا خریدا جس میں ایک قدیم نہر کا کنواں تھا۔
اس کنویں پر اس نے ایک حجرہ بنوایا اور اس کے لیے تمام ضروریات کی چیزیں خریدیں اور اس میں بیٹھ کر خدا کی عبادت کرنے لگا۔ ہر طرف سے فقرا اور مساکین اس کے پاس آتے یہاں تک کہ اس کا نام سارے شہر میں مشہور ہوگیا۔ اب اس کے حاسد پڑوسی کو بھی خبر ملی کہ وہ کتنا بڑا ہوگیا ہے اور شہر کے بڑے بڑے لوگ اس کے پاس آتے جاتے ہیں۔ یہ سن کر وہ حجرے میں پہنچا۔
محسود پڑوسی نے اس کی بڑی آﺅ بھگت کی اور اسے بڑی عزت سے رکھا۔ اب حاسد نے کہا کہ مجھے تجھ سے کچھ باتیں کرنی ہیں جس کی وجہ سے میں یہاں تیرے پاس آیا ہوں اور میں تجھے ایک خوش خبری سنانا چاہتا ہوں، اٹھ اور اپنے حجرے میں میرے ساتھ چل۔ محسود اٹھ کھڑا ہوا اور حاسد کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر حجرے کے کنارے تک گیا۔ حاسد نے کہا کہ فقیروں سے کہہ دے کہ باہر چلے جائیں کیونکہ میں تجھ سے بطور راز کے کچھ کہنا چاہتا ہوں جسے کوئی اور سننے نہ پائے۔
محسود نے فقیروں سے کہا کہ تم لوگ باہر چلے جاﺅ اور سب اس کے کہنے پر باہر چلے گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ دونوں اس پرانے کنویں پر پہنچے اور حاسد نے محسود کو دھکا دے کر کنویں کے اندر دھکیل دیا اور کسی کو اس کی خبر تک نہ ہوئی۔ حاسد وہاں سے چلتا ہوا اور وہ سمجھا کہ محسود مر گیا ہوگا۔ اس کنویں میں جنات رہتے تھے انہوں نے اسے آہستہ آہستہ نیچے اتار کر ایک پتھر پر بٹھا دیا اور ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ تم جانتے ہو کہ یہ کون شخص ہے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں مگر ان میں سے ایک نے کہا کہ یہ وہ شخص ہے جو اپنے حاسد سے کنارہ کشی کرکے ہمارے شہر میں آیا اور یہ حجرہ بنایا ہے اور جس نے ہمیں خدا کی عبادت اور قرآن خوانی سے مانوس کیا ہے لیکن اس کا حاسد چل کر یہاں آیا اور اس سے ملاقات کی اور اسے دھوکے سے یہاں تمہارے پاس پھینک دیا۔
یہاں اس کی آمد کی خبر آج ہی رات اس شہر کے بادشاہ کو پہنچی ہے اور وہ کل اپنی بیٹی کے بارے میں اس کے پاس آنے والا ہے۔ ایک جن نے پوچھا کہ بیٹی کا کیا معاملہ ہے؟ اس نے کہا کہ وہ دیوانی ہوگئی ہے اور میمون بن ومدم اس پر عاشق ہے، اگر بادشاہ کو معلوم ہو جائے کہ اس کا علاج کیا ہے تو وہ اسے اچھا کر سکتا ہے اور علاج بالکل آسان ہے۔ ایک جن نے پوچھا کہ کیا علاج ہے؟ اس نے جواب دیا کہ کالی بلی جو اس شخص کے پاس حجرے میں ہے اور جس کی دم کی نوک پر ایک سفید داغ ہے اگر اس کے سات سفید بال لیے جائیں اور ان کی دھونی بیمار کو دی جائے تو وہ خبیث اس کے سر پر سے چلا جائے گا اور پھر کبھی نہ لوٹے گا اور وہ فوراً اچھی ہو جائے گی۔
اے دیو محسود ان تمام باتوں کو سن رہا تھا، جب صبح کی پو پھٹی اور روشنی ہونی شروع ہوئی تو فقیر لوگ شیخ کے پاس آنے لگے اور دیکھا کہ وہ کنویں کے اندر سے نکل رہا ہے تو ان کے دلوں میں اس کی بڑی عزت ہوئی۔ محسود کو معلوم تھا کہ بس کالی بلی ہی علاج ہے اس لیے اس نے اس کی دم کے سفید داغ میں سات بال نوچ کر اپنے پاس رکھ لیے۔ ابھی سورج نہ نکلا تھا کہ بادشاہ مع لشکر کے پہنچ گیا۔
بادشاہ اور اراکین اندر داخل ہوئے اور باقی کو باہر ٹھہرنے کا حکم ملا۔ جب بادشاہ محسود کے حجرے میں داخل ہوا تو اس نے اس کا خیر مقدم کیا اور اپنے پاس بٹھایا اور اس سے کہا کہ کیا میں تیرے آنے کی وجہ بیان کروں؟ بادشاہ نے کہا کہ ہاں۔ اس نے کہا کہ تو میرے ملنے کے لیے آیا ہے کیونکہ تیرے دل میں یہ خیال ہے کہ تو اپنی بیٹی کے بارے میں مجھ سے سوال کرے۔
بادشاہ نے کہا کہ اے نیک مرد درست ہے۔ محسود نے کہا کہ اسے بلوا بھیج اور خدا نے چاہا تو وہ فوراً اچھی ہو جائے گی۔ بادشاہ نے خوش ہوکر اپنی بیٹی کو بلوایا۔ جب لوگ اسے لائے تو اس کی مشکیں بندھی ہوئی اور پاﺅں میں بیڑیاں پڑی ہوئی تھیں۔ محسود نے اسے بٹھا کر اس کے اوپر کپڑا ڈال دیا اور بال نکال کر ان کی دھونی دی، جنم، جو اس کے سر پر سوار تھا، چلا کر بھاگا اور لڑکی اپنے آپے میں آ گئی اور اس نے اپنا چہرہ چھپا لیا اور کہنے لگی کہ یہ کیا قصہ ہے؟ مجھے کون اس جگہ لایا ہے؟ بادشاہ بے انتہا خوش ہوا اور لڑکی کی آنکھوں کو بوسہ دیا اور شیخ کے ہاتھ چومے۔
اب وہ اراکین کی طرف مخاطب ہوکر کہنے لگا کہ تمہارے خیال میں وہ شخص کس انعام کا مستحق ہے جس نے میری بیٹی کو اچھا کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس کی شادی اس سے ہونی چاہیے۔ بادشاہ نے کہا کہ تم سچ کہتے ہو اور اس نے اپنی بیٹی کو اس سے بیاہ دیا اور محسود بادشاہ کا داماد بن گیا۔ تھوڑے دنوں کے بعد وزیر کا انتقال ہوگیا تو بادشاہ نے پوچھا کہ اب کسے وزیر بنانا چاہیے؟ انہوں نے کہا کہ اپنے داماد کو، اور محسود وزیر ہوگیا۔
کچھ دنوں کے بعد بادشاہ فوت ہوگیا تو لوگوں نے مشورہ کیا کہ اب کسے بادشاہ بنایا جائے اور یہ فیصلہ ہوا کہ وزیر کو، اب انہوں نے وزیر کو بادشاہ بنا دیا اور وہ بادشاہ ہو کر حکومت کرنے لگا۔ ایک روز وہ گھوڑے پر سوار جا رہا تھا اور حاسد بھی اسی راستے سے گزر رہا تھا، محسود شاہانہ لباس پہنے اپنے امرا اور وزرا اور رﺅسا کے درمیان میں تھا، اس کی آنکھ اپنے حاسد پر پڑی اور اس نے اپنے ایک وزیر سے کہا کہ اس شخص کو میرے پاس لے آ لیکن وہ ڈرنے نہ پائے، وزیر گیا اور حاسد پڑوسی کو لے آیا۔
بادشاہ نے کہا کہ اسے میرے خزانے سے ایک ہزار مثقال سونا دے دو اور بیس بوجھ سازوسامان کے اس کے ساتھ کر دو اور پہرے کے ہمراہ اسے اس کے شہر میں بھجوا دو۔ بادشاہ اس سے رخصت ہو کر واپس گیا لیکن اس کے کرتوتوں کی سزا نہیں دی۔ دیکھو اے دیو کہ محسود نے حاسد کو کس طرح معاف کر دیا حالانکہ اس نے ابتدا ہی سے کیسا حسد کیا تھا، پھر اذیت پہنچائی، پھر سفر کرکے اس کے پاس پہنچا اور اسے کنویں میں گرا دیا کہ وہ مر جائے لیکن اس نے تکلیف کا بدلہ تکلیف سے نہیں دیا بلکہ اس کو معاف کر دیا اور اس سے درگزر کی۔
اے میرے آقا، اس کے بعد میں اتنا رویا کہ اس سے زیادہ ممکن نہ تھا۔ دیو نے کہا کہ یا تو میں تجھے مار ڈالوں گا اور اگر نہ بھی مارا تو تجھے بالکل معاف کرنے کا تو ہرگز نہیں، کم از کم میں تجھ پر جادو ضرور کروں گا۔ اب اس نے جھپٹ کر مجھے زمین سے اٹھا لیا اور ہوا میں لے کر اڑ گیا یہاں تک کہ زمین مجھے ایسی معلوم ہوئی جیسے کہ پانی کے بیچ میں پیالہ، پھر اس نے مجھے ایک پہاڑ پر اتارا اور تھوڑی سی مٹی لی اور اس پر کچھ آہستہ آہستہ پڑھ کر پھونکا اور وہ مٹی میرے اوپر چھڑک دی اور کہنے لگا کہ اس صورت کو چھوڑ کر بندر بن جا۔
اس وقت سے میری شکل صد سالہ بندر کی سی ہوگئی، جب میں نے اپنے آپ کو اس قدر بدصورت دیکھا تو میں اپنے اوپر رونے لگا اور زمانے کے ظلم و ستم پر صبر اختیار کیا اور مجھے یقین آ گیا کہ زمانہ کسی کا بھی نہیں ہوتا، اب میں پہاڑ سے نیچے اترا اور دیکھا کہ ایک بڑا وسیع جنگل ہے، چلتے چلتے ایک مہینے کے بعد میں سمندر کے کنارے پہنچا، ایک پہر کے قریب میں وہاں ٹھہرا ہوں گا کہ سمندر میں ایک کشتی نظر آئی جس کی خوشبو پھیلی معلوم ہوتی تھی اور جو خشکی کی طرف آرہی تھی، میں جنگل میں ایک طرف ہو کر ایک چٹان کے پیچھے چھپ گیا اور کشتی کے پہنچنے کا انتطار کرتا رہا، پھر میں اس کے اندر چلا گیا، ایک مسافر نے کہا کہ اس منحوس کو یہاں سے نکالو، ناخدا نے کہا کہ ہم کو چاہیے کہ اسے مار ڈالیں، دوسرے نے کہا کہ میں ابھی اس تلوار سے اس کا خاتمہ کیے دیتا ہوں، میں نے ناخدا کا دامن پکڑ لیا اور رونے لگا یہاں تک کہ میرے آنسو بہنے لگے، ناخدا کو میرے اوپر ترس آیا اور وہ کہنے لگا کہ اے سوداگر اس بندر نے مجھ سے پناہ مانگی اور میں نے اسے پناہ دی ہے اور اب وہ میری پناہ میں ہے، اس لیے کوئی اس پر حملہ نہ کرے اور نہ اسے پریشان کرے۔

ناخدا میرے ساتھ اچھا سلوک کرتا اور جو کچھ وہ کہتا میں سمجھ جاتا اور اس کی ساری ضروریات پوری کر دیتا اور کشتی میں اس کی خدمت کرتا اور وہ مجھ سے محبت کرتا، پچاس دن تک موافق ہوا کے ساتھ چلنے کے بعد ہم نے ایک بڑے شہر کے پاس لنگر ڈالا جس کی آبادی اتنی زیادہ تھی کہ اس کا گننا سوائے خدا کے اور کسی کے لیے ممکن نہ تھا، جب ہم وہاں پہنچ گئے اور کشتی ٹھہری تو اس شہر کے بادشاہ کے کارندے ہمارے پاس آئے اور تمام سوداگروں کو صحیح و سلامت پہنچنے پر مبارکباد دی اور کہنے لگے کہ ہمارا بادشاہ تمہاری سلامتی پر تم کو مبارک باد دیتا ہے اور اس نے تمہارے پاس یہ کاغذ کا ورق بھیجا ہے تاکہ تم میں سے ہر شخص اس پر ایک ایک سطر لکھے، قصہ یہ ہے کہ بادشاہ کا ایک خوش نویس وزیر تھا، وہ فوت ہو گیا ہے اور بادشاہ نے قسم کھائی ہے اور بڑے بڑے حلف اٹھائے ہیں کہ اب وہ اسی شخص کو وزیر بنائے گا جو اس کی طرح خوش نویس ہو، یہ کہہ کر انہوں نے وہ ورق جس کی لمبائی دس ہاتھ اور چوڑائی ایک ہاتھ تھی سوداگروں کو دیا تاکہ جس جس کو لکھنا آتا ہو وہ لکھیں، میں اٹھا اور میں بندر کی شکل میں تھا اور ان کے ہاتھ سے وہ ورق لے لیا، لوگ ڈرے کہ کہیں میں اس کو پھاڑ نہ ڈالوں اور وہ مجھے جھڑکنے لگے، میں نے اشارے سے انہیں سمجھایا کہ میں لکھوں گا، ناخدا نے اشارے سے کہا کہ اسے لکھنے دو، اگر اس نے کچھ گڑبڑ کی تو میں اسے نکال دوں گا اور اگر اچھی طرح لکھا تو میں اسے اپنا بیٹا بنا لوں گا، میں نے اس سے زیادہ سمجھدار بندر آج تک نہیں دیکھا، اب میں نے قلم پکڑا اور دوات سے روشنائی لی اور رفائی اور ریحانی اور ثلث اور نسنح اور طومار اور محقق خطوں میں دو دو شعر لکھے اور کاغذ ان کو دے دیا، ان میں سے بھی ہر ایک نے ایک ایک سطر لکھی، اسے لے کروہ بادشاہ کے پاس گئے، جب بادشاہ نے اس کاغذ کو دیکھا تو اسے سوائے میرے خط کے اور کسی کا خط پسند نہ آیا، بادشاہ نے ان سے کہا کہ اس خط کے لکھنے والے کے پاس جاﺅ اور اسے خچر پر سوار کرکے نوبت نقارے کے ساتھ یہاں لے آﺅ اور اسے نفیس کپڑے پہنا کر میرے حضور میں پیش کرو۔
جب انہوں نے بادشاہ کی باتیں سنیں تو وہ مسکرانے لگے، بادشاہ ان پر ناراض ہوا اور کہنے لگا کہ اے حرام زادو! میں تم سے ایک کام کے لیے کہتا ہوں اور تم مجھ پر ہنستے ہو۔ انہوں نے کہا کہ بادشاہ سلامت ہمارے ہنسنے کی ایک خاص وجہ ہے، اس نے پوچھا کہ وہ کیا؟ انہوں نے جواب دیا کہ بادشاہ سلامت آپ حکم دیتے ہیں کہ ہم اس شخص کو آپ کے روبرو شخص کریں جس نے یہ خط لکھا ہے اور واقعہ یہ ہے کہ لکھنے والا بندر ہے آدمی نہیں اور وہ کشتی کے ناخدا کے ساتھ ہے! بادشاہ نے کہا کہ کیا تم سچ کہتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ جی حضور، آپ کی بخششوں کی قسم، بادشاہ کو ان کی بات پر تعجب ہوا اور وہ مارے خوشی کے جھومنے لگا اور کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ ناخدا سے اس بندر کو خرید لوں۔
اس نے کشتی میں ایک ایلچی بھیجا اور لباس اور نوبت نقارے اس کے ساتھ کر دئیے اور کہنے لگا کہ تم ضرور اس کو یہ کپڑے پہناﺅ اور خچر پر سوار کرو، ان سب چیزوں کو لے کر کشتی میں جاﺅ اور اسے لے آﺅ وہ لوگ کشتی میں آئے اورمجھے ناخدا سے لے لیا اور مجھے کپڑے پہنائے اور خچر پر سوار کیا، لوگ حیران تھے اور سارا شہر تہ و بالا اور سب کے سب میرا مذاق اڑاتے تھے جب وہ مجھے لے کر بادشاہ کے پاس پہنچے اور اس نے نظر اٹھا کر مجھے دیکھا تو میں نے اس کے آگے تین بار زمین کو بوسہ دیا، اس نے حکم دیا کہ میں بیٹھ جاﺅں اور میں گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا، میرا شعور و تمیز دیکھ کر تمام حاضرین اچنبھے میں تھے اور سب سے زیادہ اچنبھا خود بادشاہ کو تھا۔
بادشاہ نے لوگوں کو حکم دیا کہ اٹھ جائیں اوروہ اٹھ گئے اور سوائے میرے اور بادشاہ اور خواجہ سرا اور ایک کم سن غلام کے اور کوئی باقی نہ رہا۔ بادشاہ کے حکم سے دستر خوان لگایا گیا اور اس پر قسم قسم کا نرم گوشت چنا گیا بالخصوص ان جانوروں کا گوشت جو اڑاتے اور گھونسلوں میں جقی کھاتے ہیں مثلاً بٹیر اور تیتر اور تمام قسم کی چڑیاں۔ بادشاہ نے میری طرف اشارے سے کہا کہ میں اس کے ساتھ کھاﺅں، میں اٹھا اور اس کے آگے زمین کو بوسہ دیا اور بیٹھ کر اس کے ساتھ ساتھ کھانے لگا، اب دستر خوان بڑھایا اور میں نے سات بار ہاتھ دھوئے اور قلم دوات لے کر چند اشعار لکھ دئیے اور اٹھ کر دور جا بیٹھا۔
جب بادشاہ نے دیکھا کہ میں نے کیا لکھا ہے اور اسے پڑھا تو وہ حیران رہ گیا اور کہنے لگا کہ عجیب بات ہے کہ بندر اور یہ فصاحت اور خوش خطی، واللہ یہ ایک اعجوبہ ہے، اسکے بعد بادشاہ کے لیے خاص شراب شیشے میں رکھ کر لائی گئی، اس نے اسے پی کر میرے آگے بڑھا دیا، میں نے زمین کو بوسہ دیا اور پی گیا، بادشاہ اچنبھے میں پڑ گیا اور کہنے لگا کہ اگر اتنا علم کسی انسان میں ہوتا تو وہ اپنے زمانے میں یکتا ہوتا، اس کے بعد بادشاہ کے لیے شطرنج کی بساط بچھائی گئی اور اس نے کہا کیا تو میرے ساتھ کھیلے گا، میں نے سر سے اشارہ کیا جی ہاں اورآگے بڑھا اور شطرنج رکھی، ہم نے دو بازیاں کھیلیں اور میں نے دونوں میں مات دی، بادشاہ دنگ رہ گیا، پھر میں نے دوات قلم لے کر ایک پرچے پر اور دو اشعار لکھ دیئے، بادشاہ اسے پڑھ کر متعجب اور خوش اور بشاش ہوگیا اور اس لیے خواجہ سرا سے کہا کہ اپنی مالکہ ست الحسن کے پاس جا اور اس سے کہہ کہ بادشاہ کے پاس آکر باتیں کر اور عجیب و غریب بندر کے ساتھ دل خوش کر، خواجہ سرا گیا اور ملکہ کو لے آیا، جب اس کی نظر مجھ پر پڑی تو اس نے منہ چھپا لیا اور کہنے لگی کہ ابا جان یہ آپ کو کس طرح گوارہ ہے کہ آپ نے مردوں کے ساتھ بہلانے کے لئے مجھے بلوایا؟ اس نے کہا کہ اے ست الحسن، میرے پاس سوائے چھوٹے غلام اور مقدم کے، جس نے تیری پرورش کی ہے، اور کوئی نہیں اور میں تیرا باپ ہوں، آخر تو منہ کس سے چھپاتی ہے؟ اس نے کہا کہ یہ بندر ایک نوجوان شہزادہ ہے، اس کے باپ کا نام افتیادوس ہے، اس پر جرجیس دیو نے، جو ابلیس کا رشتہ دار ہے، جادو کیا ہے اور اس کی بیوی کو، جو افتاموس بادشاہ کی بیٹی تھی، مار ڈالا ہے، جس کو آپ بندر سمجھتے ہیں وہ ایک عالم اور عاقل شخص ہے۔

بادشاہ کو اپنی بیٹی کی باتوں پر تعجب ہوا اور میری طرف دیکھ کر کہنے لگا کہ جو کچھ یہ تیری بابت کہتی ہے وہ کیا سچ ہے؟ میں نے سر سے اشارہ کرکے کہا جی ہاں اور رونے لگا۔ بادشاہ نے اس سے پوچھا کہ تجھے کہاں سے معلوم ہوا کہ اس پر جادو کیا گیا؟ اس نے کہا کہ ابا جان جب میں چھوٹی تھی تو میرے پاس ایک بڑی ہوشیار بڑھیا جادوگرنی تھی، اس نے مجھے جادو اور عمل سکھایا ہے، مجھے وہ برزبان یاد ہے اور ہمیں تکمیل کا درجہ حاصل ہے، اس کے ایک سو ستر کرتن مجھے ازبر ہیں، ان میں سے سب سے چھوٹا یہ ہے کہ میں تیرے شہر کی اینٹ اینٹ کوہ قاف کے پیچھے پھینک سکتی اور شہر کو سمندر اور اہالی کو اس کے اندر مچھلیاں بنا سکتی ہوں۔
باپ نے کہا کہ بیٹی تجھے میری جان کی قسم اس جوان کا جادو توڑ دے تاکہ میں اسے اپنا وزیر بنا لوں کیونکہ وہ نوجوان ہے اور عالیٰ ظرف اور دانش مند، اس نے کہا کہ بسر و چشم۔ یہ کہہ کر اس نے اپنے ہاتھ میں ایک چھری لی اور اس سے ایک کنڈل کھینچا۔
اب شہرزاد کو صبح ہوتی دکھائی دی اور اس نے وہ کہانی بند کر دی جس کے کہنے کی اسے اجازت ملی تھی۔

Browse More Urdu Literature Articles